میاں نوازشریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کی نیب ہیڈ کوارٹرز لاہور میں پیشی ان کی سیاسی منظر پر دوبارہ رونمائی کا باعث بن گئی۔ اس کے باوجود کہ مریم نواز نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پیش ہونگی۔ تاہم کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نیب کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ محترمہ کو جو نوٹس جاری کیا گیا اس میں رائے ونڈ میں اراضی کی خریداری کے حوالے سے نیب کے کچھ سوالات تھے لیکن نوٹس کا متن پڑھنے سے لگتا تھا کہ یہ محض انہیں زچ کرنے کی کارروائی ہے۔ محترمہ کے نیب کے ہیڈ کوارٹرز پہنچنے پر جس بھونڈے طریقے سے گیٹ پر معاملات کو مس ہینڈل کیا گیا اس کا سیاسی فائدہ مسلم لیگ (ن)کو ہی پہنچا۔ نیب حکام کی یہ خام خیالی تھی کہ محترمہ خاموشی سے آئیں گی اور پیشی بھگت کر گھر چلی جائیں گی۔ اس مرتبہ مسلم لیگ (ن)کی لیڈر شپ نے کانٹے دار مقابلہ کرنے کے لیے وافر انتظام کر رکھا تھا۔ حکومتی حلقوں کے مطابق نیب دفتر کے باہر شدید پتھراؤ کیا گیا، اس مقصد کے لیے شاپروں میں بھر کر اینٹیں اور پتھر خود لیگی کارکن لے کر آئے لیکن محترمہ اس سے انکاری ہیں کہ پتھر ان کی طرف سے برسائے گئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پتھراؤ دونوں طرف سے ہوا اور پنجاب پولیس نے اپنی روایات کے عین مطابق پتھراؤ کیا، آنسو گیس پھینکی اور لاٹھی چارج بھی کیا۔ مرچوں والا پانی بھی لیگی قیادت اور کارکنوں پر برسایا گیا۔ بعدازاں صاحبزادی اول نے جو ویڈیوز جاری کیں ان کے مطابق تو ان کی بلٹ پروف گاڑی پر ہر طرف سے پتھراو ٔکے نشانات دکھائے گئے ہیں حتیٰ کہ گاڑی کی ونڈ سکرین بھی ٹوٹ گئی لیکن اس تمام واقعے کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ نیب نے محترمہ کی حاضری ملتوی کر دی لیکن وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھیں۔ ان کے مطابق وہ پیشی بھگتنے آئی تھیں اور پیشی بھگت کر ہی جائیں گی حتیٰ کہ نیب حوصلہ ہار گیا اور انہوں نے واضح پیغام دے دیا کہ آپ کو اگلے ہفتے پھر بلائیں گے۔ پہلی بار یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ نیب حکام اپنے ہی گھر میں محبوس ہو کر رہ گئے اور "ملزمہ" باہر کھڑے کہتی رہیں کہ مجھے بلایا ہے تو اب ڈرتے کیوں ہو؟ ۔
مریم نواز کئی ماہ سے جاتی امرا میں گوشہ نشینیکی زندگی گزار رہی تھیں، اس دوران انہوں نے اکا دکا ٹویٹس کےسوا کوئی سیاسی بیان نہیں دیا۔ حکومت کو بھی یہی سوٹ کرتا تھا کہ مریم نواز جو اپوزیشن کے تمام رہنماؤں میں سب سے زیادہ عقابی خیالات رکھتی ہیں کو چھیڑنے کے بجائے گھر تک محدود رہنا چاہیے، لیکن نیب حکام کو بھی تب تک چین نہیں آتا جب تک وہ اپوزیشن رہنماؤں کو زچ نہ کر دیں۔ اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ مریم نواز جس انداز سے میدان کار زار میں اتری ہیں یہ عبوری عمل ثابت ہو گا یا وہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گی۔ وہ جب سیاسی منظر پر متحرک تھیں تو ان کی شعلہ نوائی کی پاداش میں حکومت نے الیکٹرانک میڈیا پر اْن کی کوریج پر قدغنیں لگا دی تھیں لیکن گزشتہ منگل کو نیب دفتر لاہور کے باہر ہونے والا ڈرامہ سب نے لائیو دیکھا۔ میڈیا کی بعض اطلاعات کے مطابق چچا جان شہباز شریف نے پیغام بھجوایا آپ واپس چلی جائیں لیکن محترمہ وہیں جمی رہیں۔ سارے واقعے سے آل پارٹیز کانفرنس کے جلد انعقاد کا امکان پس منظر میں چلا گیا ہے۔ مریم نواز ایک جھٹکے کے ساتھ ہی بات سڑکوں پر لے آئی ہیں، اگر اس واقعے کو فلم کا ٹریلر سمجھا جائے تو اصل فلم چلنا باقی ہے۔
مسلم لیگ (ن)کے کارکن اور لیڈر شپ کا ایک حصہ گومگوں کی صورتحال سے دوچار تھا کہ آخر شریف برادران کی کیا سٹریٹجی ہے؟ ۔ وہ اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس جس کا میڈیا میں بہت چرچا تھا کہ عید الاضحی کے بعد بلایا جائے گا اب عید کو گزرے بھی دو ہفتے ہو چکے ہیں لیکن اے پی سی کے انعقاد کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آ رہے۔ تاہم اس دوران اپوزیشن کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف پر قانون سازی کے حوالے سے اپوزیشن کا شیر، شیر قالین بنا ہوا ہے۔ اس پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو اے پی سی بلانے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے محرک اور حامی و موید ہیں دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے ناراض ہیں کہ ان کو اعتماد میں لئے بغیر کیونکر ان دونوں جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے اس قانون سازی پر صاد کیا۔ اپوزیشن کے رہنما اتنی جلدی میں تھے کہ انہوں نے مولانا کو آن بورڈ لینے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اب شہباز شریف اور بلاول بھٹو منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں اور اے پی سی کا کوئی نام بھی نہیں لے رہا، البتہ مریم نواز اس خلا کو نیب میں حاضری کے موقع پر ہونے والے ناخوشگوار واقعے سے پر کر چکی ہیں۔ انہوں نے بلاواسطہ طور پر اپنی اعلیٰ قیادت کویہ پیغام دے دیا ہے کہ آپ کب تک چوڑیاں پہنے رہیں گے۔
اس بات پر بہت بحث ہو رہی ہے کہ جائے وقوعہ پر پتھر کون لے کر آیا۔ حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ پتھر مریم نواز کے ساتھ آنے والے ایک ڈالے میں لائے گئے لیکن یہ بحث قطعاً لاحاصل ہے۔ انہوں نے اس واقعہ سے جو کچھ سیاسی طور پر حاصل کرنا تھا وہ کر لیا ہے۔ یقیناً شدید پتھراؤ پولیس کی طرف سے بھی کیا گیا، اس کے ثبوت کے طور پر مریم نواز نے ویڈیو جاری کی ہے، اس میں ان کی گاڑی پر پتھر لگنے کے نشانات دکھائے گئے ہیں۔ مریم نواز نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ پتھر نہیں بلکہ کچھ اور لگا تھا اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا حتیٰ کہ ان کی بلٹ پروف گاڑی کی ونڈ سکرین ہی ٹوٹ گئی لیکن اس معاملے میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے دلچسپ استدلال اختیار کیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں فرمایا کہ "سپریم کورٹ حملے سے نیب حملے کا سفر۔۔۔ نسلیں بدل گئیں، انداز سیاست نہیں بدلا"۔
اگرچہ تشدد کی سیاست ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اس معاملے میں تحریک انصاف کو اپنی حالیہ تاریخ یاد ہونی چاہیے جب اسلام آباد میں دھرنے کے دوران پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے باہر شلواریں لٹکائی گئیں۔ اب اپوزیشن کا ایک حصہ فرنٹ فٹ پر کھیل رہا ہے تو پی ٹی آئی کے رہنما نیب کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر ہونے والے واقعے کو 1997ء میں سپریم کورٹ پر مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں اور ورکروں کے دھاوا بولنے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ جماعت جو اپنے رہنما کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلی، اس کی قیادت اور کارکن اتنے تنگ آ گئے ہیں کہ وہ میدان کارزار میں اترنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔