Nigran Hukumat Ki Tashkeel
Arif Nizami95
قفل ٹوٹا خد اخدا کر کے، بالآخر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی آئینی میعاد ختم ہونے سے دو روز پہلے ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے درمیان نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق رائے ہو گیا۔ اس فیصلے میں عمران خان کی آشیر باد بھی شامل تھی۔ اس طرح پہلی مرتبہ سیاستدانوں نے خاصے طویل بحث مباحثے کے بعد نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی اور اس کے بعد الیکشن کمیشن تک نہیں جانے دیا۔ اس طرح جسٹس (ر)ناصر الملک جو 22ویں چیف جسٹس آف پاکستان تھے کل اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے نامزد نگران وزیراعظم کو مبارکباد دیتے ہوئے اسے جمہوریت کی مضبوطی کی طرف اہم قدم قرار دیا ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے آخری دموں پر ہے، اسے دو معاملات فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم کے انتخاب کا کریڈٹ جاتا ہے۔ کاش موجودہ حکومت اور اپوزیشن دیگرمعاملات پر بھی اسی سپرٹ سے آگے بڑھتے تو بہت سے حل طلب مسائل طے ہو جاتے۔ نگران وزیراعظم کے معاملے میں صاد کہنے پر زیادہ کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جاتا ہے کیونکہ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ نہ کھولنے کیلئے خط نہ لکھنے کی بنا پر توہین عدالت کے جرم میں عدالت برخاست ہونے تک قید کی سزا دی تھی۔ سزا تو علامتی ہی تھی لیکن اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کو آئین کے تحت پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ پیپلزپارٹی کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین، بزنس مین اور آصف زرداری کے پرانے کلاس فیلو ذکااشرف کو نگران وزیراعظم بنانے پر مصر تھی لیکن ذکااشرف نے تو حال ہی میں پیپلزپارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی سے استعفیٰ دیا تھا لہٰذا ان کے نام پر سمجھوتہ نہ ہو پایا کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے کسی بھی رکن کو استعفیٰ دلوا کر نگران وزیراعظم بنوا سکتی تھی۔ نگران حکومت کی تشکیل کے معاملے میں مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا، سٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کافی عرصے سے نگران وزیراعظم بننے کے لیے لابنگ کر رہے تھے۔ ان کا کیس سیدھا سادا تھا اگرچہ وہ اس عہدے کے حقدار تھے لیکن ان کا چورن نہیں بک پایا۔ بعض ایسے خواتین وحضرات بھی نگران وزرات عظمیٰ کے امیدوار تھے جن کا نام کسی لسٹ میں نہیں تھا۔ عبداللہ حسین ہارون جو ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف رزداری کے خاصے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے اور جنہیں آصف زرداری نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل مندوب بھی بنایا۔ اب نگران وزیراعظم بننے کے لیے پاپڑ بیلتے رہے۔ شاید"پکا صاحب" اور انگریزی زدہ عبداللہ حسین ہارون جو اکثر کراچی کے سندھ کلب میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق بزعم خود سندھ کی ایلیٹ کلاس سے ہے۔ قرعہ فال ان کے نام نکل سکتا تھا لیکن 2013ء میں جب اقوام متحدہ میں بطور مستقل مندوب اپنی ٹرم پوری کرنے والے تھے تب بھی وہ نگران وزیراعظم کے امیدوار بن بیٹھے اور اس حوالے سے انھوں نے نجی محفلوں اور بعض فورمز پر آصف زرداری پر کڑی تنقید کی۔ ان کا خیال تھا کہ نگران حکومت نہیں بنے گی بلکہ زرداری کی چھٹی ہو جائے گی اور فوج کی طرف سے ایسا سیٹ اپ بنے گا جس میں وہ اپنا لچ تل سکیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بعد عبداللہ حسین ہارون نے غلطی سے بھی کبھی بلاول ہاؤس کراچی کا رخ ہی نہیں کیا۔ لہٰذا میں انھیں ثقہ امیدوارسمجھتا ہی نہیں تھا اور مجھے اس پر بھی حیرانی نہیں ہوئی کہ ان کے نام پر سرے سے غور ہی نہیں کیا گیا۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا نام بھی نگران وزیراعظم کے لیے آنا شروع ہو گیا تھا حالانکہ انھیں بھی کسی جماعت نے نامزد نہیں کیا تھا۔ ملیحہ لودھی انتہائی زیرک، پڑھی لکھی اور قابل خاتون ہیں۔ سابق صحافی ہونے کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزارت عظمیٰ کے آخری دور میں امریکہ میں سفیر رہیں۔ بعدازاں پرویز مشرف نے انھیں امریکہ میں سفیر اور پھر برطانیہ میں ہائی کمشنر مقرر کیا تھا۔ اب وہ میاں نواز شریف کی طرف سے نامزد کرنے کی بنا پر اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ہیں۔ ملیحہ لودھی روایتی طور پر فوجی قیادتوں کے خاصی قریب رہی ہیں لیکن اس مرتبہ شاید ان کی دال نہیں گلی۔ اب کہا جا رہا ہے نگران سیٹ اپ میں بطور وزیر خارجہ انھیں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً وہ اس منصب کی پوری طرح اہل ہیں۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں دوسری مرتبہ کسی سیاسی جماعت نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ جمہوریت کی کامیابی ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی چار سال وزیراعظم رہنے کے بعد نااہل قرار پائے تھے جبکہ میاں نوازشریف بھی چار برس گزار کر ’پاناما گیٹ، میں نااہل قراردیئے گئے۔ اس کے باوجود کہ پیپلزپارٹی کی ساری طنابیں ان کے دور حکومت میں صدر آصف زرداری ہی ہلایا کرتے تھے اور میاں نوازشریف تاحیات نااہل ہونے اور پارٹی کی صدارت نہ ہونے کے باوجود اب بطور قائد تمام کلیدی فیصلے کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کی پارٹیوں کی حکومتیں چلتی رہی ہیں۔ گویاکہ2013ء کے انتخابات سے پہلے بھی اس قسم کے خدشات کا اظہار کیا گیا کہ انتخابات وقت پر نہیں ہونگے اور نگران حکومت بن بھی گئی تو معاملہ لمبا چلے گا۔ لیکن یہ تمام خدشات نقش بر آب ثابت ہوئے لیکن اس بار میاں نوازشریف کی نااہلی پر فوجی قیادت اور نااہل قرار دینے والی عدالت عظمیٰ کے خلاف ان کی شدید اور مسلسل نکتہ چینی کی بنا پر نظام کچھ لڑکھڑا سا گیا ہے۔ اس پر مستزاد ’پولیٹیکل انجینئرنگ، جس کا آغاز بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرنے سے ہوا، غیر یقینی صورتحال میں مزید اضافہ ہو گیا لیکن فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ماہ قبل صحافیوں کو آف دی ریکارڈ بریفنگ میں برملا طور پر بتا دیا تھا کہ عام انتخابات وقت پر ہو نگے اگرخدانخواستہ تکنیکی بنیادوں پر کوئی مسئلہ ہوا تو بھی چند ہفتوں سے زیادہ تاخیر کا امکان نہیں ہو گا لیکن اب الیکشن کمیشن نے دو ٹوک اعلان کر دیا ہے کہ عام انتخابات25 جولائی کو وقت پر ہونگے۔ فوج کے سربراہ کی یہ یقین دہانی کہ فوج سیاسی سسٹم میں مداخلت نہیں کرے گی، درست ثابت ہوئی۔ اگرچہ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے کہ عام انتخابات شفاف اور منصفا نہ ہوں اور انتظامی طور پر بھی ووٹرز آزادانہ ووٹ ڈال سکیں۔ فوج کے سربراہ بھی یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ تمام جماعتوں کیلئے یکساں ’ لیول پلیئنگ فیلڈ، کو یقینی بنایا جائے گا۔ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ضابطہ اخلاق پر بھی میٹنگ کر رہا ہے۔ یہ موجودہ سیاسی تلخی کے تناظر میں انتہائی ضروری ہے کہ عام انتخابات میں لفظی جنگ تشدد کا رخ اختیار نہ کرے۔ 18ویں ترمیم اور 21 ترمیم کے بعد نگران سیٹ اپ کے اختیارات اور بھی محدود ہیں اور ان کا کام کلیدی نہیں بلکہ روزمرہ کے فیصلے کرنا ہے اور عام انتخابات کے پرامن اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔ امید ہے کہ جس اتفاق رائے اور بھائی چارے کے ذ ریعے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب ناصر سعید کھوسہ کی نامزدگی ہوئی ہے اسی سپرٹ کے تحت دیگر صوبوں میں بھی نگران حکومتوں کے معاملے کو آئینی میعاد میں ہی حل کر لیا جائے گا۔ دوسری طرف پنجاب میں ناصر کھوسہ جو ایک انتہائی اچھی شہرت کے نامور بیوروکریٹ ہیں بطور چیف سیکرٹری پنجاب خدمات انجام دے چکے ہیں اور حال ہی میں ورلڈ بینک میں پاکستان کی نمائندگی کر کے واپس لوٹے ہیں۔ اس معاملے میں وزیراعلیٰ شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید کے درمیان آسانی سے اتفاق رائے ہو گیا۔ مقام شکر ہے کہ اس بات کو وجہ تنازع نہیں بنایا گیا کہ نامزد نگران وزیراعلیٰ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بھائی ہیں جن کی سرکردگی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جولائی 2017ء میں پاناما گیٹ کی پاداش میں میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔ میاں نواز شریف اپنے برادر خورد سے کہہ سکتے تھے کہ یہ تو اس شخصیت کا بھائی ہے جس نے فیصلے میں مجھے گاڈ فادر قرار دیا تھا لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا۔ خیبر پختونخوا میں عجیب معاملہ ہے، نگران وزیراعلیٰ کیلئے منظور آفریدی کے معاملے پر بظاہر اتفاق رائے ہونے کے باوجود اپوزیشن کے اعتراضات پر ان کا نام واپس لے لیا گیا۔ یقیناً وہاں تحریک انصاف کی حکومت کو چھان پھٹک اور قومی اتفاق رائے کے بعد وزیراعلیٰ کاانتخاب کرنا چاہیے تھا۔