وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحا ت پر مذاکرات کی دعوت دے دی ہے۔ اپوزیشن کو آن بورڈ لینا ایک اچھی روایت بن سکتی ہے بشرطیکہ ہر اہم معاملے پر ایسا ہی کیا جائے۔ یقینا انتخابی اصلاحات جمہوریت کی بقا کیلئے وقت کی اہم ضرورت ہیں لیکن مذاکرات کا عمل ایک تسلسل کا حصہ ہونا چاہیے نہ کہ حکومت محض نمائشی طور پر اپوزیشن کو آن بورڈ لینے کا دعویٰ کرے اور عملی طور پر حقائق اس کے برعکس ہوں۔ مزید برآں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر تعلقات کا ر ہونے سے بھی نتیجہ خیز مذاکرات ہو سکتے ہیں لیکن یہ یکطرفہ طور پر ممکن نہیں۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ جہاں حکومتی جماعت اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم ایک دوسرے کے ساتھ زبانی طور پر دست و گریبان ہیں وہاں اعتماد کا بھی فقدان ہے ایسے میں مذاکرات کیونکر ہو سکتے ہیں۔ بہرحال وزیر اعظم کی طرف سے یہ دعوت خوش آئند ہے لیکن اپوزیشن کا یہ فیصلہ کہ ہم مذاکرات نہیں کریں گے، احسن نہیں ہے۔
اگرچہ اپوزیشن کی طرح کئی سیاسی مبصرین بھی حکومت کی نیت پر شبہ کر رہے ہیں لیکن مذاکرات ضرورہونے چاہئیں اور اگر مذاکرات ناکام بھی ہوتے ہیں تو ان کا ہوجانا ہی جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔ انتخابی نظام میں ترمیم لانے کے لیے اپوزیشن کا تعاون بہت ضروری ہے۔ وزیراعظم جہاں ہفتے میں کئی اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں وہاں اپوزیشن کو بھی ساتھ بٹھاکر انہیں بریف کریں تو اس سے ملک میں سیاسی ٹمپریچر نیچے لانے میں مدد ملے گی لیکن یہاں تو گالی گلوچ کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے اور اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کو شجر ممنوعہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی انتخابی اصلاحات میں الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام لانا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کوووٹ کا حق دینا بھی شامل ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی تفصیلی بریفنگ، سیاق وسباق اور اتفاق رائے کے بغیر اپوزیشن سینیٹ کا الیکشن شو آ ف ہینڈ کے ذریعے کس طرح قبول کرے گی؟ ۔ پہلا سوال تویہی پوچھا جائے گا کہ اس کی اس مرحلے پر ضرورت کیونکر پیش آئی۔ بادی النظر میں تو یہ اسی بنا پر کیا جارہا ہے کہ ووٹوں کی خرید وفروخت کی بیخ کنی کی جائے لیکن اس سے الٹا حکومت کی نیت پر شکوک پیدا ہو رہے ہیں، بہرحال اس بدعت، کوحکومت اور اپوزیشن کو اکٹھے بیٹھ کر ختم کرنا ہو گا۔ ہمارے ہاں ووٹ طاقتور ہی خریدتا ہے اور جہاں صرف 52سینیٹرز منتخب کرنے ہوں وہاں اور بھی آ سان ہوتا ہے۔ انتخابی عمل کی شفافیت کے لئے ضروری بات ہے کہ جس کو ووٹ ڈالا جائے وہ اسی کے لیے نکلے لیکن ووٹوں کی خریداری بند کرنا ہی اہم نہیں ہے، ووٹ خریدوفروخت کے علاوہ طاقت کے استعمال اور دھونس کی بنیاد پر بھی چرا لئے جاتے ہیں اور یہ ہوتاچلا آ رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب 2018ء میں سینیٹ کے انتخابات ہوئے تو طریقہ کار میں شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں تھی حتیٰ کہ چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی متنازعہ ہوگیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومتی جماعت کی تکنیکی طور پر اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں تحریک انصاف اور پی پی نے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرا لیا۔
اس مرحلے پر انتخابی اصلاحات لانے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید حکمران جما عت تحر یک انصاف کو اپنے ہی سا تھیوں پر اعتماد نہیں کہ وہ سینیٹ انتخابات میں کس کو ووٹ دیں گے اورووٹ ہائی جیک ہونے کے خدشے کے پیش نظر انہوں نے یہ مطالبہ داغ دیا ہے کہ ووٹنگ کے لیے شو آ ف ہینڈ کا طریقہ کا ر اپنایا جائے گا۔ دوسری طرف اپوزیشن کو غالبا ً یہ ڈر ہے کہ ووٹ چرا لئے جائیں گے بہر حال اس مرحلے پر انتخابی عمل میں اصلاحات اسی صورت میں لائی جائیں جب خلوص نیت سے انتخابی نظام کو ٹھیک کرنا مقصود ہو لیکن یہاں انتخابی نظام تو کیا پورے کے پورے جمہوری نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے بالخصوص الزام تراشی، انتقام کی ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا۔ گزشتہ دو برسوں میں حکومت اور اپوزیشن کے اند ازسیاست سے تو لگتا ہے کہ معاملات انتخابی اصلاحات کے نہیں بلکہ یک جماعتی نظام کی طرف جا رہے ہیں۔
ادھر پی ڈی ایم نے میثاق پاکستان کی منظوری دے دی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں اپوزیشن کے چیدہ چیدہ ارکان شریک تھے۔ میاں نواز شریف ناسازی طبع کی بنا پر ویڈیو لنک کے ذریعے اجلا س میں شریک نہیں ہو سکے۔ اپوزیشن ہو یا حکومت کاغذی طور پر تو اس قسم کی کا رروائی اچھی لگتی ہے لیکن عملی طور پر ایسی میٹنگ نشستن و گفتن و برخاستن سے آگے نہیں بڑھتی۔ مانسہر ہ میں مسلم لیگ (ن) نے بھرپو ر طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس امر کے باوجود کہ کورونا کی بنا پر انتظامیہ نے اس قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی تھی جلسے میں عوام کی بڑی تعداد شریک تھی۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا جب تک جعلی حکومت موجود ہے، ملک نہیں چلے گا، دھاندلی کے باوجود جعلی حکومت کو گلگت بلتستان کے الیکشن میں صرف 8 سیٹیں مل سکیں، ان 8 سیٹوں کی مبارکباد عمران کو نہیں سلیکٹرز کو دیتے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف نے ہزارہ موٹر وے کا وعدہ کیا اور پورا کیا، جس نے اینٹ تک نہ لگائی وہ نواز شریف کی موٹر وے پر چالاکی سے اپنی تختی لگا کر چلا گیا۔ دوسری طرف فیصل آباد میں تاجر برادری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں کا سب سے بہترین نظام لا رہے ہیں جس میں ہر شہر کا الگ الیکشن ہو گا اور ساتھ ہی میئر کومنتخب کیا جائے گا جس کے بعد وہ اپنی کا بینہ منتخب کرے گا۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ وزیر اعظم جلسے کریں یا نہ کریں کم از کم ان کی پارٹی کو تو این سی او سی کے فیصلے پرعمل درآمد کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بڑے اہم موقع پر کابل کا دورہ کیا ہے، اس کی ٹا ئمنگ خاصی اہم ہے۔ دورہ کابل کے اعلامیہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے انفرا اسٹرکچر، توانائی اور پاکستان و افغانستان کے نئے ریل منصوبوں پر بھی اتفاق کیا۔ عمران خان نے جمہوری اور خودمختار افغانستان کے لیے پاکستان کی حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ سے یہ موقف ہے کہ افغانستان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں، افغانستان میں امن و استحکام کا واحد حل مذاکرات اور سیاسی تصفیہ ہے، پاکستان امن عمل میں افغانوں کے فیصلوں کا احترام کرے گا۔ وزیر اعظم نے ایسے موقع پردورہ کیا جب امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا جاری ہے اور 7دسمبر تک صرف 2500فوجی رہ جائیں گے لیکن ٹرمپ کی مجنونانہ پالیسیوں کی بنا پر ابھی وہاں پر یہ عمل بھی گہنا سا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ ابھی تک عنان اقتدار چھوڑنے سے انکاری ہیں۔ اگر امریکہ جیسے جمہوری ملک میں منتخب صدر انتخابات جیتنے کے باوجود منصب صدارت سنبھالنے سے قا صر ہو تو دنیا کے دیگر ممالک میں جمہوریت کا کیا حال ہو گا جہاں پہلے ہی آوے کا آوا بگڑا ہو۔