اپوزیشن کی حکومت کے خلاف تحریک سے سیاسی ٹمپریچر بڑھتا جا رہا ہے، ابھی تک تین بڑے جلسے ہو چکے ہیں۔ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں ہونے والے جلسوں نے یہ بات تو طے کر دی ہے کہ ملک میں جاندار اپوزیشن موجودہے جس کو عوام کی طرف سے پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ پہلے تو حکومتی ناقدین کا خیال تھا کہ اپوزیشن ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی نہیں ہو پائے گی اور اگر ہو بھی گئی تو اتحاد زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا۔ حزب اختلاف نے جب دیکھا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ناقص گورننس، بے روزگاری اور روزمرہ مسائل سے عوام تنگ آ چکے ہیں لہٰذا اس نے محسوس کیا کہ اب احتجاج کیلئے ٹائمنگ درست ہے اور وہ جلسے کرنے نکل پڑی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ ملک کی فیصلہ کن طاقتیں اپوزیشن کو اظہار رائے دینے کی راہ میں مزاحم ہو جائیں گی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ماسوائے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی لند ن سے تقریریں براہ راست ٹیلی ویژن چینلز پر نہیں دکھائی جا رہیں باقی تما م لیڈرز فرنٹ فٹ پر نکل کر تقریریں کر رہے ہیں اور طوہا ً وکرہا ً وز یر اعظم عمران خان کو یہ سب کچھ برداشت کر نا پڑ رہا ہے۔
خان صاحب کی اس گردان کہ چوروں ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا، لوٹی دولت واپس لاؤں گا کی گونج میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے۔ تاہم یہ امکانات معدوم لگتے ہیں کہ حکومت اپوزیشن کے جلسوں کے نتیجے میں گھر چلی جائے گی یا فوری طور پر نئے انتخابات ہو جائیں گے۔ یہ بھی تو نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان کو مقتد رقوتوں کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ تکنیکی طور پر فوج حکومت کے تابع ہوتی ہے۔ ما ضی میں عملی طور پر ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے اور سیاسی ماحول اتنا بدل چکا ہے کہ اسے اب ہائبرڈ سسٹم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ خان صاحب کو یقینا اندازہ ہوگاکہ مقتدرا دارے رول آ ف گیم کو مدنظر رکھ رہے ہیں اور اپوزیشن کی آواز کو دبایا تو جا رہا ہو گا لیکن کچلا نہیں۔
دوسری طرف اگرچہ عدلیہ کے رول کے بارے میں بعض باتوں کا اظہار ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے حکومتی حلقوں اور ان عنا صر کو جو ہر قیمت پرپاکستان میں آزاد عدلیہ کی آواز کچلنے کے درپے رہتے ہیں یقینا مایوسی ہو ئی ہو گی کیو نکہ سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے اپنے 224صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو خا رج کردیا ہے۔ ان عناصر کے لیے بھی یہ فیصلہ یقینا مایوس کن ہو گا جنہوں نے ریا ستی دباؤ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو فارغ کرنے پر صرف کیا تھا۔ اس ریفرنس میں سب سے قابل ذکر کردار صدر مملکت عارف علوی، وزیر قانون فروغ نسیم اور سابق اٹارنی جنرل انور منصور کا ہے۔ فروغ نسیم کئی مرتبہ منہ کی کھا چکے ہیں لیکن حکومتی ٹیم کا یہ خاصا بن گیا ہے کہ انہوں نے نالائقوں کا ٹولہ اپنے ارد گرد اکٹھا کیا ہو ا ہے۔ فروغ نسیم کئی بار قلا بازیاں کھا چکے ہیں، انہیں حکومت کے چیف آف لا افسر کے طور پر اپنے رول کا صحیح علم ہی نہیں ہے۔
نومبر 2019میں بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سپریم کورٹ میں مدت ملازمت سے متعلق کیس کی پیروی کرنے کے لیے فروغ نسیم نے وفاقی وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن چند دنوں کے بعد دوبارہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا۔ اس کے بعد فروغ نسیم نے جسٹس قا ضی فائز عیسٰی کیس میں حکومت کی وکالت کے لیے استعفیٰ دیا تھا، کیس مکمل ہونے پردوبارہ وفاقی وزیر قانون وانصا ف کا حلف اٹھایا۔ سرکار کو تو ایسی اہم اور حساس اسائنمنٹس کے لیے خوب سے خوب تر کی تلاش ہونی چاہیے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے حالانکہ کسی بھی حکومت کو فنڈز کی کمی نہیں ہوتی لیکن نہ جانے کیوں جہاں بھی قانونی معاملہ سا منے آیا حکومت کی تان فروغ نسیم پر ہی کیوں ٹو ٹتی ہے۔ با لکل اسی طرح سابق اٹارنی جنرل، وزیر قانون شریف الدین پیرزادہ تھے۔ لیکن ایک فرق واضح تھا کہ شریف الد ین پیرزادہ جن کو ممتاز کالم نگار اردشیر کاؤس جی نے قانونی مہارت کی بنا پر جادوگر قرار دیا تھا۔ شریف الد ین پیرزادہ بھی ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیتے تھے۔ وہ قابل وکیل تھے یہی ان کا طرہ امتیاز تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے میں حکومت کو منہ کی کھانا پڑی۔ فیصلے سے صاف ظاہر ہے کہ اصل مسئلہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کی اہلیہ سرینا قاضی عیسیٰ پرمبینہ مالی بے قاعدگیوں کا الزام ثابت کرنا تھا لیکن حکمران اپنے اس مشن میں بری طرح ناکام ہوئے۔ یہ واضح ہے کہ قاضی صاحب کو منصب سے ہٹانا ایک ضد تھی جس کے پیچھے یہ سوچ کا ر فرما تھی کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یا ر پھرے۔ کون کون سے مرزے اس سازش میں شریک تھے اب راز نہیں رہا بلکہ یہ سب طشت ازبام ہو گیا ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ تکنیکی طور پر پاکستان کے سب سے بڑے منصب پر فائز صدر عارف علوی نے کوئی مثالی کردار ادا نہیں کیا اور وہ بھی اس میں فریق بن گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ملک کے چیف ایگزیکٹو عمران خان کے ایما پر ہوا ہو گا۔ اس میں حکومتی ٹیم اور بعض ان لیڈروں کے بھی دانت کٹھے ہو گئے جو اپنے مشن کی ناکامی کے بعد منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ وقتی فائدے کی خاطر ہمارے اعلیٰ سرکا ری اہلکا ر نتائج کی پروا کئے بغیر آخری حد تک جانے کو تیا ر ہوجاتے ہیں۔ دراصل ملک میں ماحول تبدیل ہو رہا ہے، عوام قانون کی عملداری چاہتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ماضی میں آمریتوں کے سامنے کورنش بجا لاتے رہے ہیں کسی صورت ٹس سے مس ہونے کو تیا ر ہی نہیں ہیں لیکن بالآخر نام نہاد بھاری ستون بھی رائے عامہ کے سامنے سجدہ سہو کرنے پر مجبور ہو گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ کو جس انداز سے فارغ کرنے کی سازش کی گئی اگر وہ کامیاب ہو جاتی تو یہ ہمارے ملک میں قانون کی عملداری پر گہرا گھاؤ لگانے کے مترادف ہوتا۔ ایک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے ایماندار جج کے خلاف ایک Witch Hunt سازش کامیاب ہو جاتی تو اس کے قانون کی عملداری پر منفی اثرات پڑتے لیکن اس کا بلوچستان سے تعلق رکھنے والی عیسیٰ فیملی جس نے تحریک پاکستان میں قابل قدر کردار اد اکیا کو پورا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے دھونس کے ذریعے راستے سے ہٹنے سے انکار کردیا اور بھرپور انداز سے قاضی صاحب نے اپنا کیس لڑا اور نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کیس لڑا اور انصاف حا صل کیا بلکہ سرخرو بھی ہوئے۔