سجاد جہانیہ کی کالم نگاری کا میں ہمیشہ معترف رہا ہوں۔ اس کے ہاں ندرت خیال بھی ہے اور پیشکش کا اسلوب بھی۔ ملتان کے لوگوں سے مجھے ویسے بھی بڑی محبت ہے۔ سجاد جہانیہ سے طویل عرصہ بعد ملتان میں گلِ نوخیز کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں ملاقات ہوئی تو مجھے وہ ہمیشہ کی طرح ترو تازہ اور پرتپاک لگا۔ میں نے اس کی کتاب ادھوری کہانیاں کا سرسری سا مطالعہ کیا ہے۔ سرسری سا اس لئے کیونکہ لگ بھگ یہ سارے کالم میں پہلے ہی اخبار میں پڑھ چکا ہوں۔ اس کے باوجود مجھے لگتا ہے یہ کتاب مجھے دوبارہ اپنا آپ پڑھانے پر تلی ہوئی ہے۔ سچی بات ہے مجھ سے کبھی بھی ثقیل موضوعات نہیں پڑھے جاتے۔ بات جتنی آسان ہو، وہ مجھے بھی سمجھ آتی ہے اور میرے قاری کو بھی۔ سجاد جہانیہ اس فن سے مکمل طور پر آشنا ہیں۔
مجھے ان کے ہاں تصوف کا رنگ بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ بندہ ملتان کا ہو، لکھاری ہو اور اس کی تحریروں میں تصوف کی جھلک نہ ہو، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں میں نے سوال کیا کہ یہ راہ سلوک کیا ہے اور اس پر کیونکر چلا جائے۔ شاہ صاحب اک ذرا توقف کے بعد بولے صرف اور صرف رب سے دل لگانا ہی سلوک نہیں، دنیا کی ذمہ داریاں بھی ادا کریں تو یہ تصور اور خیال ذہن میں رہے کہ جیسا اس کا حکم ہے اس کے مطابق یہ ذمہ داری نبھائی جائے۔ سلوک اور شریعت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ عام لوگ زیادہ تر ایسے تکیوں اور پیر خانوں کی طرف امڈتے ہیں جہاں نماز روزے کا اہتمام نہیں ہوتا اور اگر کبھی پوچھ بیٹھیں تو پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ہم تو خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے ہیں یا یہ کہ ہم دیگر کاموں میں مصروف رہ کر روحانی طور پر نماز ادا کر لیتے ہیں، یہ درست نہیں۔
سجاد جہانیہ نے اس کتاب کے ذریعے ہمیں ایسے لوگوں سے ملوایا ہے جو بظاہر عام لیکن درحقیقت بہت خاص ہیں۔ ان میں بابے بھی ہیں، مائیاں بھی اور عام انسان بھی۔ کہیں کہیں انہوں نے پُراسرار واقعات کو بھی اپنے کالموں کا حصہ بنایا ہے لیکن اس پر اپنی رائے دینے کے بجائے نتیجہ حاملین عقل و فہم پر چھوڑ دیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب مصنف کسی بات کا نتیجہ عاقلین پر چھوڑ دے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ مصنف خود بھی اس واقعے سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ سجاد جہانیہ کے کالم بتاتے ہیں کہ انہیں موسیقی کا بھی شوق ہے۔ میں ذاتی طور پر ابھی تک ان کے اس جوہر سے فیض یاب نہیں ہو سکا لیکن فیس بک پر ان کی اکثر پوسٹیں نظر سے گزرتی ہیں جس میں وہ موسیقی کے پروگرامز کے لائیو ٹوٹے دکھاتے نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ سجاد جہانیہ ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ہیں۔ ایسے شخص کو یقیناً ایسی ہی جگہ پر ہونا چاہئے تھا۔ ملتان آرٹس کونسل خوش قسمت ہے جسے سجاد جہانیہ جیسا محنتی، مخلص اور فن کا شیدائی نصیب ہوا۔
مجھے جب نوخیز نے بتایا کہ سجاد جہانیہ کی کتاب کی تقریب رونمائی لاہور میں رکھی گئی ہے تو بیک وقت مجھے پر خوشی اور خوف کی کیفیت طاری ہو گئی۔ خوشی اس بات کی کہ ایک باکمال لکھاری کے فن کو خراجِ تحسین پیش کیا جانا ہے اور خوف اس بات کا کہ یہ تقریب چھٹی کے دن یعنی اتوار کو صبح رکھی گئی ہے۔ لاہوریے تو عام دنوں میں بھی 11 بجے سے پہلے نہیں اٹھتے۔
گل نوخیز مجھے بتا رہا تھا کہ سجاد جہانیہ اور وہ بچپن میں بچوں کے اخبارات میں کہانیاں لکھا کرتے تھے اور تب بھی سجاد جہانیہ کی تحریریں انتہائی شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں جو لکھاری بچوں کے رسائل سے اوپر آئے ہیں ان کی تحریروں میں پختگی دور سے ہی نظر آ جاتی ہے ورنہ آج کل تو یہ حال ہے کہ میرا ایک دوست جس کی عمر 60 سال سے تجاوز کر چکی ہے اب کالم نگار بننا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سے پہلے اس نے کچھ نہیں لکھا لیکن اب وہ باقاعدگی سے کالم لکھنا چاہتا لہٰذا اس کا کالم کسی قومی سطح کے روزنامہ میں شروع کرایا جائے اور سات آٹھ لاکھ تک معاوضہ دیا جائے۔ میں نے اس پر قہقہہ لگایا تو اس نے کمال مہربانی سے معاوضے میں 30 فیصد کمی کی پیشکش کر دی۔ سجاد جہانیہ کی کتاب پڑھتے ہوئے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا یہ نوجوان ابھی میری طرح ناسٹیلجیا کا عاشق ہے۔ مجھے بھی امرتسر، وزیر آباد، ماڈل ٹائون اور اقبال ٹائون کا ذکر خمار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سجاد جہانیہ کو بھی ماضی سے عشق ہے کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ یہ ماضی سے نکلتے نکلتے دوسرے ماضی میں پھنس جاتا ہے۔ یہ ماضی بہت شاندار ہے۔ اس میں کلاس فیلوز ہیں، بچپن کے دوست ہیں، لڑائیاں ہیں، جھگڑے ہیں، قصے ہیں اور مجنوں کی داستانیں ہیں۔ میں سجاد جہانیہ کو ان کی کتاب پر بھرپور مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان رائٹرز کونسل کے مرزا یاسین بیگ اور الطاف احمد کو بھی مبارک دیتا ہوں یہ نوجوان ادبی فنکشنوں کے گرو بن چکے ہیں اور اتنی شاندار تقریبات کرواتے ہیں کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔