Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Aik Clerk Ki Diary

Aik Clerk Ki Diary

کبھی کبھی اس طرح زندگی گزارنے کو بہت جی چاہتا ہے کہ گھر کے مین گیٹ پر جب میری گاڑی پہنچے اور باوردی شوفر ہارن دے تو تین چار نوکر ہانپتے ہانپتے آئیں اور ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے گیٹ کھولنے میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ دبیز قالینوں پر پائوں دھرتا ہوا جب میں ڈرائنگ روم میں پہنچوں تو بٹلر نے میز پر کھانا سجایا ہو اور شیف، سفید لمبوتری ٹوپی پہنے کھانے کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے اردگرد موجود ہو۔ دنیا کے مختلف ملکوں سے امپورٹ کئے گئے سامانِ آرائش سے مزین بیڈ روم کے آخری سرے پر بچھے واٹر بیڈ پر لیٹوں تو مجھے یوں لگے جیسے کوئی سوئمنگ پول کے فلوٹنگ رافٹ میں آنکھیں بند کئے لیٹا ہچکولے لے رہا ہو۔ صبح ناشتے کی میز پر اخبارات کی سمری میرے سامنے دھری ہو جس میں مختصر طور پر قومی و بین الاقوامی صورت حال سے متعلق خبریں درج ہوں۔ نیز یہ بتایا گیا ہو کہ اخبارات نے کس موضوع پر اداریہ لکھا ہے، کسی اہم کالم نگار کے کالم کا نچوڑ کیا ہے، اسٹاک ایکسچینج کی کیا صوررت حال ہے، گھوڑوں اور گدھو ں کی تجارت کیسی جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد ملاقاتیوں کا سلسلہ شروع ہو، ان کی تلاشی یا گہری نظروں سے جائزہ لے کر ایک ایک کر کے انہیں اندر بھیجا جائے۔ ملاقات کے لئے طے شدہ ٹائم پورا ہونے پر سیکرٹری کمرے میں داخل ہو اور جھک کر کہے"سر آپ کا اگلا پروگرام یہ ہے" جس پر وہ ملاقاتی اشارہ سمجھ کر رخصت ہو اور دوسرا ملاقاتی حالتِ رکوع میں اندر داخل ہو، یہ سب لوگ میری باتیں اس طرح سنیں جیسے بولنے کا حق اور سلیقہ قدرت نے صرف مجھے ودیعت کیا ہے۔ ہفتے میں ایک آدھ دن گھر میں پارٹی کا اہتمام ہو جس میں دوست (اور دشمن) ملکوں کے سفیر، اعلیٰ فوجی افسران اور سیاست دان شریک ہوں۔ اس پارٹی کے لئے صرف ممیاہٹ کے انداز میں حکم دینا پڑے کہ فلاں دن اس کا اہتمام کیا جائے۔ سیکرٹری آکر اطلاع دے کہ سر آپ فلاں تاریخ کو ہالیڈے پر تین مہینے کے لئے ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ امریکہ، اسپین اور سوئٹزر لینڈ کے لیے ٹکٹ اور ہوٹلوں کی بکنگ ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں کوئی خصوصی ہدایات جاری فرمانا چاہیں تو حکم دیں۔

یہ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے کے باقی لوازمات (جن سے میں پوری طرح واقف نہیں ہوں) مجھے میسر ہوں تاکہ جو زندگی میں اب گزار رہا ہوں اس سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ان دنوں صبح سویرے جب نہانے کے لیے باتھ روم میں داخل ہوتا ہوں اور خاصے خوشگوار موڈ میں خاصی ناخوشگوار آواز میں کوئی گانا گنگناتے ہوئے چہرے پر صابن ملتا ہوں تو نلکے میں پانی آنا بند ہو جاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد آنکھوں میں صابن جانا شروع ہو جاتا ہے۔ ہفتے میں دس بارہ دفعہ ٹیلی فون ٹھیک کرانے کے لیے شکایت درج کرانا پڑتی ہے، بجلی، گیس اور پانی کا بل جمع کرانے کے لیے لمبی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گردوغبار سے اٹی فضائوں میں سے گزر کر چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے دفتروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ معمولی معمولی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دو دو سال کی کمیٹی ڈالنا پڑتی ہے۔ بیمار پڑنے پر بھاری فیسوں کا خیال بیماری کی شدت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کے مسائل اس متوسط طبقے کے ہیں جس سے میں تعلق رکھتا ہوں جبکہ عوام "کالانعام" کے لئے تو سانس لینا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

مگر سچی بات یہ ہے کہ میں جس طبقے سے پھسل کر جس طبقے کی طرف جانا چاہتا ہوں اس کے بارے میں ایک بات تو میں نے سوچی ہی نہیں تھی اور وہ یہ کہ ان تمام آسائشوں اور پروٹوکول میں جو میں نے کالم کے شروع میں بیان کیں وہ سب کچھ موجود ہے، جس کی میں نے خواہش کی ہے لیکن اس میں میری فیملی کہیں دکھائی نہیں دیتی، اس طبقے میں داخل ہونے کے بعد ایک بیٹا امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے، دوسرا بیٹا آسٹریلیا میں ہوتا ہے، بیٹی لندن میں ہوتی ہے اور بیوی فوٹو گرافروں میں گھری سماجی خدمات میں مشغول دکھائی دیتی ہے۔ اس طبقے میں دوست بھی نہیں ہوتے، مصاحب ہوتے ہیں یا باس ہوتے ہیں، رات کو واٹر بیڈ پر ہچکولے کھانے کے باوجود وہ نیند میسر نہیں ہوتی جو دن بھر کی مشقت کے بعد سر کے نیچے بازو کو سرہانہ بنا کر میسر ہوتی ہے۔ شیف اور بٹلر، ڈائننگ روم کی زیبائش اور کراکری کا سامان بھی معدے کو اس قابل نہیں بناتا کہ دنیا جہاں کی نعمتیں اس کے لیے قابلِ قبول ہو سکیں۔ اس طبقے میں بے شمار لوگ عزت کرنے والے ہوتے ہیں لیکن محبت کرنے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ اس طبقے میں شمولیت کے بعد خود اپنی عزت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ انسان دوسروں کی نسبت خود کو زیادہ جانتا ہے۔ مرنے پر جنازے میں لوگ شامل ہوتے ہیں مگر رونے والا کوئی نہیں ہوتا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں مقیم بچے فون پر ممی سے تعزیت کرتے ہیں اور پھر چند دنوں بعد وطن واپس آکر جائیداد کے مسئلے حل کرنے میں لگ جاتے ہیں۔

یہ سب باتیں بھی اپنی جگہ درست ہیں لیکن کوئی بات تو ہے کہ روبوٹ جیسی زندگی گزارنے کے لیے لوگ بھرپور انسانی زندگی اس پر سے تیاگ دیتے ہیں۔ بلکہ اس کے لیے کئی انسانی زندگیاں قربان کر دیتے ہیں انسانوں پر ظلم کرتے ہیں، ملک اور قوم کے مفادات سے غداری کرتے ہیں اور اس کے عوض وہ ایک بڑے سائز کی کیسپول میں زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ خواہشوں کے کیسپول میں بند اور روبوٹ کی طرح زندگی بسر کرنے والا کوئی بڑا آدمی میری یہ الجھن حل کرے کہ انسانی جذبوں سے عاری ہونے کے بعد اسے انسان کیسے لگنے لگتے ہیں، وہ دھرتی کیسی لگتی ہے جہاں انہوں نے غیر انسانی جزیرے قائم کر رکھے ہیں۔

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.