اسد محمد خان پاکستان کے ایک بڑے کہانی نویس ہیں۔ ان کا نام پہلی دفعہ برسوں پہلے اپنے گائوں میں پڑھا تھا جب سب رنگ میں ان کا طویل سلسلے کا ناول "ناخدا" شروع ہوا۔
ان دنوں سب رنگ عروج پر تھا۔ جب چار سو بازی گر اور جانگلوس کا ڈنکا بج رہا تھا اس وقت کوئی بھی لکھاری اس لٹریری دنگل میں تمہد باندھ کر اکھاڑے میں داخل نہ ہوتا کہ یہ لٹریری بھاری پتھر میں اٹھائوں گا۔ میں بھی شکیل عادل ذادہ اور شوکت صدیقی کے ساتھ یہ مہابھارت لڑوں گا۔ سب رنگ کے قارئین اس وقت بازی گر اور جانگلوس کے عادی ہوچکے تھے لہذا کسی نئے سلسلے کا شروع اور کامیاب ہونا ایک بڑا جوا تھا۔۔ سب رنگ کے لیے اور اس سے بڑھ کر اسد محمد خان کے لیے بھی۔
جب سب رنگ کے رنگ جم چکے تھے تو اس وقت ہی اسد محمد خان نے اپنا الگ سے رنگ جمانے کا فیصلہ کیا۔ اوپر سے سب رنگ کا شمارہ کم از کم دو سال بعد چھپ کر آتا تھا۔ سب سے بڑا چیلنج تو یہ تھا کہ اب نیا سلسلہ "ناخدا" بھلا اپنی پہلی قسط سے کیسے نئے قارئین کو دو سال تک اپنے ساتھ باندھ سکتا تھا تاکہ وہ ناخدا کا بھی بازی گر اور جانگلوس کی طرح انتظار کریں۔ مجھے یاد ہے گائوں میں ہی ناخدا کی پہلی قسط پڑھی اور جب تک سب رنگ بند نہیں ہوا سال دو سال کے وقفے سے پڑھتا رہا۔ اسد محمد خان نے پہلی قسط سے ہی سب رنگ کے قارئین کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور پھر بازی گر، جانگلوس کے ساتھ ناخدا کا بھی انتظار شروع ہوا کیونکہ اس کا لٹریری ذائقہ بازی گر اور جانگلوس سے بہت مختلف تھا۔
اسد محمد خان کے اس ناول کی کسک آج بھی باقی ہے کیونکہ یہ ناول بھی بازی گر کی طرح مکمل نہ ہوسکا۔ اس ناول کے کردار آج بھی زندہ ہیں۔ وہ سب کردار اپنے تخلیق کار کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ انہیں مکمل کرے۔
امر شاہد کراچی جارہے تھے تو انہیں بھی یہی کہا کہ جناب اگر اسد محمد خان سے ملاقات ہو توانہیں میری طرف سے درخواست ڈالیں کہ وہ ناخدا کو کتابی شکل میں چھپوا کر مکمل کریں۔ امر شاہد بولے آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی۔ اس سلسلے میں ہی کراچی جارہا ہوں اور ناخدا کو چھاپنا ہے۔
اور اب گگن شاہد نے کراچی بک میلے سے اسد محمد خان کے ساتھ میری نئی کتاب "کشمیر کہانی" کی تصویر بھیج دی ہے۔ اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے کہ برسوں پہلے جس سحرانگیز تحریروں کے مالک اسد محمد خان کے ناول کی قسط کا دو سال اتنظار کرتے تھے، آج ان کے ہاتھ میں آپ کی کتاب ہو۔