Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Balai Tabqay Ki Mout Zyada Balai Khane Se Hoti Hai

Balai Tabqay Ki Mout Zyada Balai Khane Se Hoti Hai

مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ اکثر بالائی طبقے کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بالائی طبقہ آخر چیز کیا ہے جس نے ہم سب کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں؟ میرے خیال میں سوال کنندہ کو علم ہے کہ بالائی طبقہ کیا ہوتا ہے، اگر انہیں واقعی علم نہیں تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ یہ طبقہ وہ ہے جو دودھ پر سے "بالائی" اتار کر کھا جاتا ہے اور باقی جو "پھوک" بچتا ہے اس میں چھپڑ کا پانی ملا کر 22 کروڑ عوام میں تقسیم کر دیتا ہے۔ تاہم یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میرا اشارہ گجروں کی طرف نہیں ہے کیونکہ گجر تو بڑے بھلے مانس لوگ ہوتے ہیں۔ وہ دودھ میں پانی ملاتے ہیں تو گاہکوں کو بتاکر ملاتے ہیں۔ نیز اپنی بڑائی کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے بلکہ خود کو گنہگار سمجھتے ہیں اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لئے ہر سال داتا صاحبؒ کے عرس پر زائرین کو خالص دودھ مفت سپلائی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بالائی طبقہ دودھ پر سے بالائی اتارنے اور بچی کھچی دودھ نما چیز میں چھپڑ کا پانی ملانے کے باوجود خود کو ملک و قوم کا محسن بھی قرار دیتا ہے۔ معزز بن کر اعلیٰ مسند پر فائز بھی ہوتا ہے، حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ بھی بانٹتا ہے اور فراعنہ مصر کے بعد یہ واحد طبقہ ہے جس کے افراد کو یقین ہے کہ انہوں نے مرنا نہیں ہے اور خدا کے حضور بھی پیش نہیں ہونا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طبقے کے افراد انسانوں سے خدا کے لہجے میں بات کرتے ہیں، بہت سے انسان تو انہیں خدا سمجھ بھی بیٹھتے ہیں چنانچہ ان کے قصیدے لکھتے ہیں اور ان کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں لیکن جب سجدے سے سر اٹھاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کا "خدا" تو مر چکا ہے۔ پھر انہیں افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک فانی انسان کے قصیدے کیوں لکھے۔ ان کی تو ساری مناجاتیں ضائع چلی گئیں۔ مگر حیرت ہے کہ اس کے باوجود وہ کسی نئے "خدا" کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور از سر نو مناجات کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔

بالائی طبقے کے افراد کی موت کے حوالے سے جو تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق ان کی موت بھی زیادہ مقدار میں بالائی کھانے سے ہوتی ہے۔ جب تک یہ تھوڑا تھوڑا کھاتے رہتے ہیں، چاق و چوبند رہتے اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب بھی رہتے ہیں کہ ملک و قوم کی بقا کے لئے ان کی بالادستی ضروری ہے لیکن جب یہ دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کرتے ہیں اور عوام نان جویں کے لئے بھی ترسنے لگتے ہیں تو ایک طرف عوام میں ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے اور دوسری طرف زیادہ تعداد میں بالائی کھانے سے ان کے جسم اور دماغ پر اتنی چربی چڑھ جاتی ہے کہ وہ عوام کو بے وقوف بنانے والے فیصلے عقلمندی سے نہیں کر پاتے، جس کے نتیجے میں ان کے خلاف بغاوت ہو جاتی ہے اور تخت کی جگہ تختہ ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ روس، چین، ایران، فرانس اور دوسرے بہت سے ملکوں میں بالائی طبقے کی موت زیادہ بالائی کھانے کی وجہ سے ہوئی۔ ان واقعات کے نتیجے میں بالائی طبقہ پر دنیا کی بے ثباتی کا اس درجہ اثر ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے بچے کھچے دن قوم کی بچی کھچی بالائی پر بھی ہاتھ صاف کرنے میں بسر کر دیتے ہیں کہ اگر مرنا ہی ہے تو کیوں نا بالائی کھاتے ہوئے مرا جائے۔ یہ سوچ ان کی کم فہمی کا نتیجہ ہے۔ دراصل پسماندہ ممالک کا بالائی طبقہ ذہنی طور پر بھی پسماندہ ہوتا ہے چنانچہ آخری گھنٹی بجنے پر بھی وہ ہوش میں نہیں آتا، جس کا خمیازہ اسے بہرحال بھگتنا پڑتا ہے۔

بالائی طبقے کے بارے میں بتانے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کچھ عرصہ سے اس طبقہ کے افراد خود کو عوامی ثابت کرنے کے لئے نچلے طبقے کے چند افراد کو بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ اس نچلے طبقے کے افراد اپنے طبقے کے مفادات کی حفاظت کے بجائے اپنے آقائوں کے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ یقین دلانے میں لگے رہتے ہیں کہ ان کی موجودگی میں بالائی طبقہ ان کے حقوق پر چھاپہ نہیں مار سکتا۔ کچھ عرصہ تک ان نمائشی پہلوانوں کی حکمت عملی بہت کامیاب رہتی ہے یعنی عوام انہیں اپنا سمجھتے رہتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے کہ ان کٹھ پتلیوں کی حقیقت عوام پر واضح ہو جاتی ہے مگر اس وقت تک نچلے طبقے کے یہ افراد بنفس نفیس بالائی طبقے میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں اور یوں بیچارے عوام صرف دانت کچکچا کر رہ جاتے ہیں۔

یوں تو بالائی طبقے کے بارے میں بتانے کی اور بہت سے باتیں ہیں لیکن طوالت سے بچنے کے لئے آخر میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ بالائی طبقہ کسی ایک طبقے کا نام نہیں بلکہ اس میں بہت سے مفاداتی اور طاقتور گروپ شامل ہوتے ہیں۔ اس کے متنوع ہونے کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ بالائی طبقہ بیک وقت چوروں اور "سادھوئوں" پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے اور یہ ان کی بقا کے لئے ضروری ہے، تاہم واضح رہے بقا صرف خدا کی ذات کو ہے، باقی سب کو فنا ہونا ہے اور ایمان والوں کو اس میں کوئی شک نہیں۔

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.