احد کادن تھا…..آزمائش بڑی کڑی تھی کیونکہ ہستی بہت بڑی تھی، اتنی بڑی کہ آوت جاوت کے لیے گھڑی رُک جائے…."عمل الیوم واللیلہ"میں امام نسائی نے ایک بڑی جامع روایت نقل کی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی شہادتوں کے بعد آقا دل گرفتہ تھے۔
عم رسول یعنی سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر پیارے ساتھیوں کی تدفین مکمل ہوتے ہی آپ احد سے نیچے پہنچے اُس وقت 14خواتین بھی موجود تھیں مگر یہ استثنائے مصطفی ﷺ ہے، آپ جو چاہیں جیسا چاہیں وہی ہوگا، بے شک آپ خواہش نفس سے کچھ نہیں کرتے بلکہ اس میں رب کی رضا شامل ہوتی ہے۔
لہٰذا تدفین کے موقع پر خواتین کی موجودگی کو اس روایت سے متصل کر کے راہ نہ نکالی جائے…..سلسلہ جوڑتا ہوں، امام نسائی لکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا "تم سب صف بناؤ تاکہ میں اللہ جَلَّ جَلَالُہ، کی ثنا کروں "آقا کے پیچھے َمردوں نے صف بنائی اور اُن کے پیچھے خواتین نے، پھرآقا نے یہ کلمات ادا فرمائے "اے اللہ تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ اے اللہ جس چیز کو تو کشادہ کردے اور جس کو تو قبض کردے اُس کو کوئی کشادہ کر نہیں سکتا اور جس کو تُو گمراہ کردے اُس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جس کو تو ہدایت دے اُس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جو چیز تُو روک لے اُس کا کوئی عطا کرنے والا نہیں اور جو تُو عطا کرے اُس سے کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو تو دور کردے اس کو کوئی قریب کرنے والا نہیں اور جس کو تو قریب کردے اُس کو کوئی دور کرنے والا نہیں ….اے اللہ ہم پر اپنی برکات اور رحمت اور اپنے فضل و رزق میں سے کشادگی کر! اے اللہ ہم تجھ سے تیری ایسی قائم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں جو نہ پھریں اور نہ زائل ہوں، اے اللہ ہم فقر کے دن تجھ سے نعمتوں کا سوال کرتے ہیں۔
اے اللہ ہم تجھ سے خوف کے دن امن کا سوال کرتے ہیں اور فاقے کے دن غنا کا…..اے اللہ میں تجھ سے ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو تُو نے ہمیں عطاکیں اور اس کے شر سے جس سے تُو نے ہمیں منع کیاہے….اے اللہ ایمان کو ہماری طرف محبوب کر دے اور اس کو ہمارے دلوں میں مزین کردے اور ہماری طرف کفر، فسوق، اور نافرمانی کو ناپسند کردے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے والوں میں سے بنادے، اے اللہ ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اورہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ کر اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ اس طرح لاحق کر دے کہ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں پڑیں، اے اللہ ان کافروں کو ہلاک کردے جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے راستے سے روکتے ہیں اور ان پراپنی سزا اور عذاب نازل!"
کیا ہی جوامع الکلم نبی کاحسین انداز بیان ہے، کیا ہی فصاحت وبلاغت کی سوندھی سوندھی تسبیح ہے جس سے ختم نبوت کا نور پھوٹ رہا ہے، گویا ہر لفظ ادائیگی کے لیے مچل رہا ہے، یہ ثنائے ربی ان پژمردہ دلوں کے لیے سامان حیات ہے جو آزمائشوں کو مصیبتوں کی لڑی میں پرو کرناکام و مایوس ہوجاتے ہیں ….ارے آزمائش سے کیا گھبرانا آپ اور میں ہیں ہی کیا، فقط سانسوں سے مزین چلتا پھرتا گوشت کا لوتھڑا جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے اورپھر اتنی سلوٹیں پڑ جاتی ہیں کہ خاک میں چھپانا ہی پڑتا ہے اسی لیے کہتے ہیں "سپرد خاک"شکست و ریخت اورلغزش و غلطی خمیر انسانی کا لازمی جزو ہے مگر جو پلٹ آئے اور اللہ سے روٹھنا بند کردے کیونکہ اللہ تو کبھی اپنے بندوں سے نہیں روٹھتا تو استاد بہلول مجذوب کی طرح روٹھے ہوئے بندوں کی اللہ سے دوستی نہ کرانا پڑتی…..اسی موقعے پر مولائے کائنات، خزینہ حیات علی المرتضی نے کیا خوب شعر کہا۔
الم تر ان اللہ ابلی رسولہ بلاء عزیز ذی اقتدار وذی فضل
"کیا تجھے خبر نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی آزمائش کی جیسا کہ عزت والے ذی اقتدار اور صاحب فضل کی آزمائش کی جاتی ہے"
تھوڑی دیر کے لیے بس اتنا سوچیے کہ ایک صحابی عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی اجتہادی غلطی کے سبب اور عزتِ خالد بن ولید کی خاطر کیونکہ اللہ کے رسول نے انھیں آنے والے دنوں میں سیف اللہ کا لقب عطا کرنا تھا اور چونکہ اللہ کی تلوار ٹوٹ ہی نہیں سکتی، اب چاہے وہ ذوالفقار ہو یا خالد کی تلوار دونوں حفاظت دین کے لیے عطا کی گئیں، پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ احد میں یہ تلوار ٹوٹ جاتی، وہ تو ان ناراض بندوں کی بھی لاج رکھتا ہے جن کے بارے میں اپنے حجابات عظمت میں رہ کر بھی اُسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں بندہ کب پلٹ جائے گا اور کب دوڑا دوڑا اس کے جبیبﷺ کی بارگاہ میں آجائے تاہم اس کے باوجود آقا کی ثنا گوئی میں نہ شکوہ ہے نا حالات کا دباؤ کیونکہ کالی کملی والے بھی جانتے تھے یہ شکست نہیں۔