مہذب معاشرہ کسے کہا جاتا ہے؟ تہذیب و تمدن کے باب کہاں وا ہوتے ہیں؟ کیا سنگین ترین جرم پر مٹی ڈال دی جائے ورنہ مہذب افراد کے پر سکون سماج میں بے وجہ کی باتیں بنائی جائیں گی یا پھر مجرم کو نشان عبرت بنانا ضروری نہیں ہے کیونکہ دلیل کا وزن پلڑا جھکا دیتا ہے کہ "اس سے کون سا معاشرہ سدھر جائے گا " مان لیا حضورکہ سرعام سزا دینے سے جرم کہاں رکیں گے؟ ملزم کہاں سنبھلیں گے، یہ تو جانوروں کا قانون ہے، انسان کہاں انسان کو سر عام پھانسی دیتا ہے۔
قرآن کی مثالیں تو معاذ اللہ فرسودہ ہیں، وہ دورکچھ اور تھا یہ دورکچھ اور ہے۔ ظاہر ہے اس دور میں تہذیب و ارتقا کے علمبردار نرم قوانین کا پرچم تھامے بدلاؤ لا رہے ہیں، وہ تو ابوبکر، عمر، عثمان و علی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا دور تھا، وہ کیا جانیں کہ انسانیت کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے کہ معصوم و کم سن بچی یا بچے کے ساتھ جنسی درندگی کرنے والے کو سر عام سزا دی جائے(معاذ اللہ)۔ ارے ہم بہتر جانتے ہیں، ہم قبائلی رسم و رواج سے لوگوں کو باہر نکالنا چاہتے ہیں، بنی ہاشم کوئی قبیلہ تھا تو ہوگا۔
ہمیں کیا؟ قبیلے اچھے نہیں ہوتے پتہ نہیں پروردگار نے ہمیں قوموں، گروہوں اور قبیلوں میں کیوں تقسیم کیا؟ اور پھرکتنا گھناؤنا مطالبہ ہے کہ کم سن بچیوں کی عصمت دری کرنے والوں کو طائفے کے سامنے سزا دی جائے! اف اف ہم کہاں جارہے ہیں؟ بھئی یہ کوئی خلفائے راشدین کا دور تھوڑی ہے؟ یہ تو لکھے پڑھے رنگ برنگے بالوں والے وزرا اور طمانچے مارنے والے تہذیب یافتہ انسانوں کا دور ہے۔
کسی کی بچی لٹتی ہے تو لٹے! گھر سے باہر ہی کیوں جانے دیا؟ کیا ضرورت تھی انصاری صاحب کو عمرے پر جانے کی؟ دیکھ لیا روضہ رسول ﷺ اورگنوا دی نا بچی؟ اور غیرذمے داری کے بعد مطالبہ یہ کہ بچی کے ساتھ زیادتی کر کے قتل کرنے والے کو سر عام سزا دی جائے! ارے او عقل کے اندھو! سزا دے کر احسان کر تو رہے ہیں اب اس پر یہ کیا تْک بنتی ہے کہ سزا سب کے سامنے دی جائے! اگر فاروق اعظم نے دی ہے تو ہم کیا معاذ اللہ فاروق اعظم بن جائیں؟ مولا علی نے یہی راہ اختیار کی تو کیا ہم بھی معاذ اللہ پیچھے پیچھے ہی چلتے رہیں۔ یہ ہستیاں صرف ضرورت پڑنے پر کسی قول کا حوالہ دینے کے لیے ہیں، حکومت تو ہم وزرا کی ہے جو پچھلے ادوار سے زیادہ ذہین، فطین اور صائب رائے رکھنے والے جدید اذہان کے پر تو ہیں۔
ویسے بھی جن کی بچیاں جاتی ہیں فکر انھیں کرنا چاہیے، سب اپنی اپنی عزت کا سوچیں، عزت اور عفت کے قاتلوں کو نشان عبرت بنانے کا حکم قرآن میں ہے، دستور پاکستان میں کہاں لکھا ہے کہ ایسا ہی کیا جائے؟ ماہرین نفسیات اور امور قانون میں مشاق شخصیات کے نزدیک سر عام پھانسی غیر انسانی سزا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان ہستیوں کو بھی اسی ہستی نے بنایا ہے جس نے یہ قانون اپنی کتاب بلاغت میں نازل فرمایا۔ طائفے کا کہاں مطلب ہے کہ سر عام پھانسی دی جائے؟ وہ الگ بات ہے کہ کوفے میں مولائے کائنات خود اعلان کیا کرتے تھے کہ " لوگ سزائیں دیکھنے گھروں سے نکلیں "… المائدہ کی ۳۳ ویں آیت میں مفسد الارض کے لیے چار سزائیں مقررکی گئی ہیں۔
اب یہ کس نے کہہ دیا کہ عزتیں لوٹنے والے فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں، قصور میں ہنگامے بپا ہوجائیں، لوگ سڑکوں پر نکل آئیں، املاک کو نقصان پہنچے، مظاہرے ہوں، بد دعائیں دی جائیں۔ کچھ بھی تو فساد فی الارض نہیں ہوا۔ وسایل جلد ۱۸ کے صفحہ ۵۵۶ میں یہ عبارت غلطی سے لکھ دی گئی کہ " پھانسی اور جلا وطنی کے بارے میں تو شک ہی نہیں کہ یہ سرعام اور علی الاعلان ہیں " پھر اس شخص کے بارے میں کیا فرمائیے گا جو ایک بار نہیں کئی بار کئی بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور پھر انھیں بے رحمی سے قتل کر کے نعشیں ادھر ادھر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتا ہے، ماں کبھی چپل سے پہچانتی ہے تو کبھی اکھڑی اکھڑی نیل پالش سے، کبھی انگلی میں انگوٹھی پہچان بن جاتی ہے تو کبھی راج دلارے کا بستہ!
بس کیجیے! تہذیب و تمدن کی بات کرنے سے قبل قرآن اور ناطق قرآن کی رائج کردہ تہذیب سے باہر نہ نکلیے، یہ ہمارا ملک ہے، ہم نے دْنیا کو خوش کرنے کے لیے پاکستان نہیں بنایا تھا، عوام خوش ہوں، مظلوموں کے چہرے انصاف ملنے کے بعد دمک اٹھیں، ماں کی آرزو پوری ہوکہ جیسے میری بیٹی کو قتل کیا گیا ویسے ہی اس درندے کو مارا جائے، پاکستان اس لیے بنا تھا، عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی غلط اطلاعات پر اتحادی افواج سیکڑوں بچے قتل کرنے کے بعد سوری کہہ دیں تو دْنیا مان جاتی ہے آپ بھی ایک دو درندوں کو لٹکانے کے بعد سوری کہہ دیجیے گا دنیا مان لے گی، جیسا کہ ہر طمانچے کے بعد آپ کہہ دیتے ہیں " ہو جاتا ہے، کوئی نہیں جی " سمجھ لیجیے یہ بھی ہوگیا تو پھر کوئی نہیں جی!
مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں یہ دْنیا والے! ہماری دْنیا تو ہمارے بچے ہیں، ہمیں ویسے بھی دْنیا نے دیا ہی کیا ہے؟ do more کے طعنے، دہشت گردی کے تازیانے اورخود ساختہ انتہا پسندی کے فسانے، ٹولوں کے گولوں پر نگاہ مت رکھیے، قوم کی امید بن کر سوچیے، یہ سزا وقت کی ضرورت ہے اور حالات کا مطالبہ! کس نے کہہ دیا مستقل نافذ کر دیجیے، کچھ ہوس پرستوں کو ایک بار نگاہوں کے سامنے جھولنے دیجیے، مجھے یقین ہے کہ پھرکسی بچی کی جانب غلیظ ارادے سے بڑھنے والے ہاتھ انجام سوچ کر رْک جائیں گے۔ یوں لگتا ہے کہ انسان کی عافیت لاعلمی ہی میں ہے، وہ ہی وقت اچھا ہوتا ہے جب آپ کسی کی اصلیت نہیں جانتے، بے بسی کو شعور تو آنے دو رہنما پھر اسی سے نکلیں گے…!