دنیا میں کوئی سخت سے سخت قانون، کڑے سے کڑا اخلاقی ضابطہ مزاح اور مذاق میں کہی ہوئی بات پہ حد جاری نہیں کرتا بلکہ کسی بھی آئین میں لطائف اور ظرائف کا سنجیدہ نوٹس ہی نہیں لیا جاتا کیونکہ مزاح تو سماج کی گری پڑی جزئیات کو پلکوں سے اٹھا کے ہونٹوں پہ سجانے کا عمل ہے۔
تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجیے کہ قیصر و کسریٰ کا کِبر ہو یا کسی بھی ملک میں آمریت کا پھیلایا ہوا جبر، ہر جگہ دلقک، مسخرے اور مجنون کی بات کا برا نہیں مانا جاتا بلکہ باذوق قسم کے بادشاہ تو تفننِ طبع کے لیے معروف مسخروں کی خدمات بامعاوضہ حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت آج تک جاری ہے۔ بادشاہ مزاج لوگوں کی خیاشیوں (خیاشی: ایسی خوشی جس میں عیاشی بھی شامل ہو) کا سامان کرنے والوں کو کس کس طرح سے نہیں نوازا، گیا۔
لیکن دوستو!اٹھارھویں صدی کا سورج طلوع ہوتے ہوتے مغلیہ سلطنت کی انتظامی صلاحیت اور سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ اخلاقی حالت اور حسِ لطافت کا بھی اس قدر دیوالیہ نکل چکا تھا کہ ان میں ایک چلبلی پیروڈی کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت بھی باقی نہ رہی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ جعفر زٹلی جیسا جگ ہنسوڑ محض ہلکی سی بذلہ سنجی کی پاداش میں بدلہ سنجی کا شکار ہو گیا اور مزاحیہ ادب و صحافت کا پہلا شہید قرار پایا۔ کہتے ہیں کسی بھی حریف کے لیے ظریف اور شریف کی بد دعا تو فقیر اور مسکین سے بھی زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ اسی خونِ ناحق اور بد دعا کا نحس سایہ برِصغیر کی سرزمین پہ ڈیڑھ سو برس تک مسلط رہا۔ یوں لگتاتھا کہ ہنسی اس دھرتی سے روٹھ سی گئی ہے۔ ۱۸۵۷ء کے تلخیے، کے بعد شاید خدائے لطیف و خبیر کو ٹیس بھرے ہندی مسلمانوں پر ترس آ گیا اور اس نے رِستے ہوئے زخم کی طرح لَو دیتے اس خِطے کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہاں غالب اور اکبر کو ظرافت کی پیامبری عطا کی۔
اکبر سے پہلے اُردو مزاح کے پَلّے شاعروں کی واعظ و زاہد سے روایتی چھیڑ چھاڑ، میر و سودا کی تلخی بھری ہجویات، نظیر کے عوامی چونچلوں اور جرأت و انشا و مصحفی کی ذاتی قسم کی چشمک ومسخرگی کے سوا کچھ نہ تھا۔ برِ صغیر کی معاشرت جدت سے پیار، اور قدامت پر اصرار، کے دوراہے پہ کھڑی تھی۔
نوجوانوں میں اپنی تہذیب سے بیگانگی اور مذہب سے بے زاری تیزی سے رواج پا رہی تھی۔ ایسے میں حالی کی بھلمنساہٹ، داغ کی فصاحت، سرسید کی جھنجلاہٹ اور ریاض خیر آبادی کی خمریانہ مسکراہٹ بھی زیادہ کارگر نہ تھی۔ ایسے دُھبدھبے اور گُمگمے میں اکبر کے اندر کا ظریف ہی حالات کا سب سے بڑا نبّاض اور سماج کا مردِ میدان قرار پاتا ہے کہ جس نے مزاح ہی مزاح میں حکمت و بصیرت کی اتنی اہم باتیں کہہ دیں کہ سنجیدہ و روایتی ادب جس کی تاب ہی نہ لا سکتا تھا۔ اکبر کے ایک اِک شعر پہ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ وہ محض تفننِ طبع کے لیے نہیں لکھا گیابلکہ اس کے باطن میں کوئی نہ کوئی گھمبیر سمسیا اور سنجیدہ مقصد پوشیدہ ہے۔ اس کے قہقہاتے شعروں کے بھیترانوکھے اور نرالے پن کے ساتھ خاص طرح کا خلوص، مسکراتی متانت اور گدگداتی معقولیت بھی کار فرما ہے۔ جب وہ کہتے ہیں:
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منھ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مَرے ہسپتال جا کر
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
شوقِ لیلائے سول سروس نے مجھ مجنون کو
اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو
تو اس کے اندر سے محض ظرافت کی چنگاریاں ہی نہیں پھوٹتیں بلکہ ایک گھمبیر قسم کا تأسف بھی نمودار ہوتا ہے۔ اکبر جیسا زیرک یہ راز جان چکا تھا کہ نئے دَور میں چٹ پٹی اور ہر دم لشکارے مارتی انگریزی تہذیب کو مرغوب مزاجی سے دیکھتی نسل کو سمجھانے کے لیے پرانی طرز کے وعظ و نصائح یا بزرگوں کی روایتی ڈانٹ ڈپٹ کام نہیں آنے کی بلکہ انھیں ہدایت و درایت کی کونین چٹانے کے لیے، اس کے اوپر ظرافت و لطافت کا لذیز شِیرا نہایت احتیاط اور مہارت سے پوتنا ازحد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ہماری مقدس مذہبی روایات اور دینی لوازمات کو ہنگامی اور وقتی خرافات میں گَڈ مَڈ ہوتا دیکھتے ہیں، تو اس کی تصویر کشی حقارت کی بجائے مہارت اور شرارت سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مصیبت میں بھی اب یادِ خدا آتی نہیں اُن کو
دعا منھ سے نہ نکلی، پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں
تاکیدِ عبادت پہ یہ اب کہتے ہیں لڑکے
پیری میں بھی اکبر کی ظرافت نہیں جاتی
خلافِ شرع شیخ کبھی تھوکتا بھی نہیں
لیکن اندھیرے اجالے میں یہ چُوکتا بھی نہیں
آگے انجن کے دین ہے کیا چیز
بھینس کے آگے بین ہے کیا چیز
ایمان بیچنے پہ ہیں سب تُلے ہوئے
لیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سے
ہندمیں تومذہبی حالت ہے اب نا گفتہ بہ
مولوی کی مولوی سے روبکاری ہو گئی
اسی لطیف ہنرمندی کی آمیزش کی بنا پر یہ تلخابے روایت کی ڈسٹ بِن میں نہیں، وسیع طبقے کی ٹرسٹ بِن میں جاتے تھے کیونکہ یہ شریر اظہاریے ظرافت کی چاشنی میں لپٹے ہوتے تھے۔ آج بھی دنیا کے بڑے سے بڑے وید حکیم سے پوچھ لیجیے، کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرلیجیے، معروف سے معروف دانش مند کی رائے لے لیجیے، آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس کائنات میں مزاح سے بہتر تھراپی اور ظرافت سے کارگر مرہم ایجاد ہی نہیں ہوا۔ خود اکبر کی فکر کے مطابق:
ہوتا ہے انبساط غذائے لطیف سے
غنچے کو دیکھیے کہ ہوا کھا کے کھل گیا
اسی لیے لسان العصر اکبر الہٰ آبادی جب جدید سائنسی ایجادات، معاشی و معاشرت تضادات اور سوسائٹی میں تیزی سے نمو پاتی منافقانہ عادات کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان پہ غصہ نہیں آتا بلکہ ان کے اچھوتے خیالات کی بلائیں لینے کو دل مچلتا ہے۔ خود ملاحظہ کیجیے:
مکے تک ریل کا سامان ہوا چاہتا ہے
لو اب انجن بھی مسلمان ہوا چاہتا ہے
بُوٹ ڈاسن نے بنایا، مَیں نے اِک مضموں لکھا
شہر میں مضموں نہ پھیلا اور جوٹا چل گیا
اب شیخ جی مقیم برہمن کے پاس ہیں
گائیں اُچھل رہی ہیں قصائی اداس ہیں
مے خانۂ رفارم کی چکنی زمین پر
واعظ کا خاندان بھی آخر پھسل گیا(جاری ہے)