زمانۂ طالب علمی میں ایک نسبتاً سیانے دوست نے محض علم کا رعب جمانے کی خاطر ہمیں بتایا تھا کہ یاد رکھنا بیویوں کی ہمیشہ تین قسمیں ہوتی ہیں : شوہر سے کم عمر ہو تو زوجۂ عزیزہ، ہم عمر ہو توزوجۂ محترمہ اور کم عمر ہو تو زوجۂ ماجدہ? لیکن اس تجربے سے ذاتی طور پر نبرد آزما ہونے کے بعد اندازہ ہوا کہ ایک قسم ان تینوں سے بھی بڑھ کے ہوتی ہے، اور وہ ہے زوجۂ معترضہ،۔ اس بوڑھے زمانے کی آنکھ نے بڑے بڑے جوان اور اڈّی مار کے دھرتی ہلا دینے والے سورما دیکھے ہوں گے، جن کا پوری دنیا نے لوہا مانا، نہیں مانا تو گھر میں بیگم نے نہیں مانا۔ چند برس قبل الحمرا میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، موضوع تھا: "بیتے دن یاد ہیں " اس میں ہر شعبۂ زندگی کے نامی گرامی لوگوں کو اپنی کامرانیوں کی داستان سنانا تھی۔ کانفرنس میں بڑے بڑے انکشاف ہوئے، رنگا رنگ کہانیاں سننے کو ملیں، نادر تجربات بیان ہوئے۔ جس دن جسٹس جاوید اقبال اپنے بچپن اور جوانی کی یادیں تازہ کر رہے تھے، تو ہال میں سے کسی نے درخواست کی کہ ذرا حضرتِ اقبال کی گھریلو زندگی کی بابت بھی کچھ بتائیں؟ جسٹس صاحب ہلکا سا مسکرائے، اور بولے : مجھے تو ایک ہی منظر بار بار یاد آتا ہے کہ ابا جی پلنگ پہ بیٹھے کچھ لکھ یا پڑھ رہے ہوتے اور اماں کی طرف سے ادرک، لہسن، پیاز وغیرہ ختم ہونے کے الاہمے سنائی دیتے رہتے، ساتھ ہی ہنس کے کہنے لگے: ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ گھر میں کوئی شاعرِ مشرق، بابائے قوم یا رستمِ زماں نہیں ہوتا، صرف شوہر ہوتا ہے اور بیوی کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے!!!
کہتے ہیں کہ ایک استاد نے اُردو کی کلاس میں طلبہ کو لفظ شدہ، کے لاحقے بنانے کا ٹیسٹ دیا۔ ایک طالب علم نے لکھا: شادی شدہ، گم شدہ، ختم شدہ، تباہ شدہ? استاد نے اس ذہین بچے کو دس نمبر کے اس سوال میں پندرہ نمبر دیے۔ بچے نے حیرت سے اس فراخ دلی کا سبب پوچھا تو شادی شدہ استاد آنکھوں میں آنسو بھر کے بولا: بچے دس نمبر تو تمھارے درست جواب کے ہیں اور پانچ نمبر صحیح ترتیب کے!! پھر آپ نے اس خاتون کا قصہ تو سنا ہوگا جو تیسری بار ڈرائیونگ کا امتحان دینے گئیں تو انسٹرکٹر نے پوچھا: میڈم آپ کے سامنے ایک طرف سے آپ کا بھائی آ رہا ہو اور دوسری جانب سے شوہر تو آپ کس کو ماریں گی؟ " ظاہر ہے شوہر کو" انسٹرکٹر سر پیٹ کے رہ گیا کہ میڈم آپ کو تیسری بار بتا رہا ہوں کہ آپ بریک ماریں گی!!!
دوستو! ہمیں تو پوری دنیا میں ایک ہی شعبہ ایسا نظر آتا ہے، جہاں یہ طبقہ کچھ خسارے میں ہے، اور وہ ہے اُردو شاعری۔ جس سے متعلق کسی نے کہا تھا کہ یہاں غیر منکوحہ محبوبہ کے لیے شاہکار نظمیں، غزلیں تخلیق ہوتی ہیں اور شرعی منکوحہ پر لطیفے گھڑے جاتے ہیں۔ یہاں تو ازدواجی اخلاص، کا یہ عالم ہے کہ مجال ہے قلی قطب شاہ سے لے کے کُلّی کتب شاہ، تک کی چار صدیوں میں کسی شاعر نے ایک بھی ڈھنگ کی نظم یا غزل اپنی ذاتی بیوی یا منکوحہ کے لیے لکھی ہو۔ کسی زمانے میں جناب اسلم انصاری نے فرمایا تھا کہ انھوں نے اپنی مشہورِ زمانہ غزل:
مَیں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
اپنی بیوی کی وفات پر لکھی تھی، اندازہ لگائیں کہ اگر کوئی ڈھنگ کی مثال میسر آئی بھی تو مری ہوئی بیوی کے لیے۔ ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ زندہ بیوی ایسی ہی خوف ناک ہوتی ہے کہ ہر دم بحرِ حزج، بحرِ رمل میں اٹکھیلیاں کرنے والے ہمارے یہ شعرا اُسے بحرِ حمل، کے سوا کسی شعری تکنیک کے قابلِ ہی نہیں سمجھتے؟ اور ٹُٹ پَینی محبوبہ چاہے کسی رقیب کے بھی ہم سفر ہو تو یہ گھر بیٹھے ہی صدقے واری جا رہے ہوتے ہیں، بقول رئیس امروہوی:
جب سے یہ سن لیا ہے مری جا رہی ہو تم
اپنا یہ حال ہے کہ مرے جا رہے ہیں ہم
مشہور ہے کہ مرزا غالب کی بیوی جب کوئی کرائے کا مکان دیکھ کے آئیں تو مرزا نے پوچھ لیا کہ کیسا ہے؟ کہنے لگیں : مکان تو اچھا ہے لیکن لوگ اس میں بلا بتاتے ہیں! مرزا جھٹ بولے : بھلی لوک بس وہ تو تمھارے جانے کی دیر ہے!! پھر ہم اپنے پُر مزاح جناب انور مسعود پہ داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والے تھے، جنھوں نے بیگم کے ایسے خطوطکتابی صورت میں چھپوا ڈالے، جن میں محبت اور وارفتگی کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ ایک دوست نے توجہ دلائی کہ میاں یہ بھی اس زمانے کے ہیں جب وہ محترمہ ابھی محبوبہ کے درجے پر فائز تھیں، بیوی نہیں بنی تھیں۔ حکیم جی فرماتے ہیں کہ انور صاحب کی چالاکی ملاحظہ ہو کہ اس وقت تک ان خطوط کو ہوا نہیں لگنے دی جب تک مزید محبوبہ کے حصول کے سارے امکانات معدوم نہیں ہو گئے!!ہمارے ایک شادی شدہ شاعر دوست کا دکھ تو دیکھا نہیں جاتا۔ کرونا کے دنوں میں بندے بندے کو بتاتا پھرتا تھا کہ بیگم نے گھر میں جو ایس او پیز رائج کر رکھے ہیں، ان کے مطابق صرف ان کے میکے والے ہمارے گھر آ سکتے ہیں، سسرال والوں کے آنے سے کورونا پھیلتا ہے۔ کہتا ہے مَیں نے ایک دن ایسے ہی باتوں باتوں میں کہہ دیا کہ عربی میں ایک بیوی والے کو مسکین کہتے ہیں۔ کب سے بھری بیٹھی بیگم جھٹ بولی: اور یہ بھی یاد رکھو کہ اُردو میں ایک سے زیادہ بیویوں والے کو مقتول، کہتے ہیں۔ ، ہم نے ایک دن اس کا جی ہلکا کرنے کی غرض سے باتوں باتوں میں پوچھ لیا کہ یار اس ازدواجی زندگی کا کوئی تو مثبت پہلو بھی ہوگا؟ کہنے لگا مجھے تو اب تک اس شادی کا بس ایک ہی فائدہ ہوا ہے کہ مَیں نے اُردو شاعری میں "شوہر آشوب" جیسی نئی صنف ایجاد کر لی ہے۔
استادِ محترم ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنی پہلی کتاب کا انتساب بیگم کے نام، کیاتو ہم اس پر بھی بہت خوش تھے لیکن پھر ان کے دوست جناب عطا الحق قاسمی نے اپنے کالم میں یہ لکھ کر تو شوہریت کے غبارے سے ساری ہو ا نکال دی کہ فراقی صاحب بہت چالاک ہیں، انھوں نے یہ تو لکھ دیا ہے : بیگم کے نام، لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ کس کی بیگم کے نام؟ اب آخر میں ذرا ہماری اپنی اور ذاتی زوجۂ معترضہ کی بھی سن لیجیے، جو ایک دن ہمارے سامنے ہمارے ہی پرس سے پوری آن بان شان سے پیسے نکال رہی تھی۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے دن دیہاڑے کی اس کرم نوازی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی: وہ جو آج آپ نے دھونے کے لیے کپڑے دیے تھے ناں، آج آپ ان میں پیسے چھوڑنا بھول گئے تھے!!! دوستو!شاعر بے چارے نے سچ ہی کہا تھا:
طاقتیں دو ہی تو ہیں جن سے میاں اس جہاں کا نظام جاری ہے
اک خدا کا وجود برحق ہے، دوجا بیگم کی ذاتِ باری ہے
سید ضمیر جعفری نے تو یہ کہہ کے حد ہی کر دی تھی:
میری بیوی قبر میں لیٹی ہے اس ہنگام سے
مَیں بھی ہوں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے