Thursday, 26 December 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Hat Tere Ki

    Hat Tere Ki

    ویسے تو اس واقعے یا وقوعے کو بارہ چودہ سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ مَیں گھر سے جانے کیا لینے یا کرنے نکلا تھا کہ گلی کی نکڑ پر ہی اس سے آمنا سامنا ہو گیا، آمنا کم، سامنا زیادہ۔ عجیب سی وحشت برس رہی تھی اس کے چہرے سے، بالوں کی بے ترتیبی کو تو کسی چیز سے تشبیہ بھی نہیں دی جا سکتی۔ شیو غریب آدمی کی خستہ حالی کی مانند اُلجھی اور امرا کی بے مہار خواہشات کی طرح بڑھی ہوئی۔ آنکھیں لال امرود، لہجہ صفت بارود۔ کپڑوں پر یاد نہیں سلوٹیں زیادہ تھیں یا پیوند؟ اسے اچانک اپنے سامنے دیکھ کر محسوس ہوا کہ ہوَنق، مہاتڑ یا گرے پڑے کی اس سے بہتر تصویر کشی کیا ہو سکتی ہے؟ یوں لگا جیسے منٹو کا کوئی چلتا پھرتا افسانہ یک لخت میرے سامنے آ گیا ہو۔

    اس کے چہرے مُہرے کے نقوش تو بھبھول بنتی زمانے کی دھول کی بنا پر اب یادداشت کے اِن باکس میں محفوظ نہیں، البتہ اس کی گز بھر لمبی زبان سے روانی اور ہذیانی کیفیت میں ادا ہونے والی بدتمیزی اور درُشتی میرے حافظے کی سلو لائیڈ پر اب تک محفوظ ہے۔ وہ غصے، نفرت، چیخ پکار، فریاد اور بے بسی کے ملے جلے انداز میں کہہ رہا تھا:

    اُلّو کے پٹھے!?

    مذاق بنا رکھا ہے میرے ملک کو!

    حرام خور ہیں یہ سب کے سب!

    جینا حرام کر دیاہے نالائقوں نے!

    لخ دی لعنت خنزیرو!

    مَیں تمھیں چوک میں اُلٹا لٹکا دوں گا!

    تم نے میری مریادہ کی بے حرمتی کی ہے!

    موسیٰ ؑکی قوم نے کچھ عرصہ بعد من و سلویٰ تک کھانا چھوڑ دیا تھا، لیکن ان کی طمع کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتی۔ ان کے من و سلویٰ سے بھی پیٹ نہیں بھرتے اور ہوس ہے کہ گرمی کے دنوں کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اُلو کے پٹھے ہیں سب? ان کی بد نسلیں، کئی نسلوں کا مقدر کھا گئی ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے، ان کی جہنم نما توندیں قبر کی مٹی سے بھی نہیں بھریں گی!

    نہیں چھوڑوں گا مَیں ان کو ? انھوں نے میری پیاری ماں کو پامال کیا ہے۔ تم دیکھ لینا ایک دن ان کا گریبان ہوگا اور میرا ہاتھ!? ہاتھ کا لفظ ادا کرتے ہوئے وہ ہاتھ کو خلا میں اس زور سے جھٹکا دیتا کہ مجھے لگتا وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے گا۔ ان دنوں کسی نہ کسی گلی بازار میں اس کی جھلک دیکھنے کو مل جاتی، اس کے جذبات پہلے سے بھی زیادہ بھڑکے ہوئے محسوس ہوتے۔ شہر کے لڑکے بالے اس کو پاگل اور دیوانہ سمجھ کے اس کا ٹھٹھہ بھی اڑانے لگے تھے۔ میرے جاننے والوں میں سے کسی کو اس کے کھانے پینے اور ٹھکانے سے متعلق کچھ پتہ نہ تھا۔ اس کے بعد وہ شخص طویل عرصے کے لیے نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ لیکن اس کی شعلہ بار آنکھیں، حلیہ اور لہجہ ذہن کی سکرین پہ جیسے ہینگ سا ہو گیا۔

    انھی دنوں مَیں اپنا قصبہ نما شہر چھوڑ کے ایک بڑے شہر لاہور میں آ گیا، جس کا جغرافیہ پطرس بخاری کے مضمون والے جغرافیے سے بھی دلچسپ نکلا اور تاریخ قدم قدم عبرت سے عبارت۔ یہ ایسا شہر ہے جہاں آ کے نئے سرے سے ہوش سنبھالنا پڑتے ہیں۔ پھر میری اس شہر میں آنے کی وجہ بھی رحمان فارس والی رومانی قسم کی نہیں تھی کہ:

    جب اس کی زندگی میں کوئی اور آ گیا

    تب مَیں بھی گاؤں چھوڑ کے لاہور آ گیا

    بلکہ میرا اصل مسئلہ تو سرکاری قسم کے کالجوں کی روایتی نوکری والے یبوست زدہ ماحول سے ہر صورت نکل بھاگنا تھا۔ اپنا شہر، ذاتی گھر، بہت سے رشتے دار، آبائی گاؤں کی قربت اور پکی، نوکری کو الوداع کہنا اگرچہ مشکل کام تھا لیکن خدا کی مدد اور تھوڑی سی کوشش سے مَیں بہت جلد ایک ایسی یونیورسٹی سے منسلک ہو گیا، جس کے کام کام کام کے طلسم کدے سے جاں بر ہوتے ہوتے کئی سال بیت گئے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہجوم میں دھوم مچانے اور رش میں لش پش کی خواہش لیے کتنے ہی لوگ اپنی اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو گئے۔

    چند سال بعد اپنے علاقے میں کچھ دن گزارنے کی نوبت آئی تو مانوس لوگوں سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ ایک دن وہ بھی مجھے شہر کے ایک مصروف چوک میں اچانک مل گیا، چوک کا نام تو ذہن سے نکل گیا ہے، آپ اُسے اپنی آسانی کے لیے بھول چَوک، کہہ سکتے ہیں۔ اس عرصے میں کئی کلینڈر بدل چکے تھے لیکن اس کی حالت اور لہجہ نہیں بدلا تھا۔ گفتگو کی شدت اور حدت بھی ویسی کی ویسی تھی لیکن باتوں کے ابہام زدہ چہرے سے اب نقاب سرک رہا تھا۔ پاس بیٹھ کے تھوڑی دیر اس کی گفتگو سنی تو علم ہوا کہ وہ نِرا جھلّا نہیں تھا بلکہ خاصا معقول اور پڑھا لکھا لگتا تھا۔ وہ اب جمہوریت، کرپٹ لیڈروں، سست عدالتی نظام کو منھ بھر بھر کے گالیاں دے رہا تھا۔ وہ کرپشن کے مجرموں کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے والوں کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا: تم مجھے ایک گاؤں کا نمبردار بنا کے دیکھو مَیں پورا گاؤں بیچ کے کھا جاؤں گا تم ثبوت ڈھونڈ کے دکھانا۔

    یہ جو طویل عرصے تک ملک کے سفید و سیاہ کے مالک بنے رہتے ہیں، وہ اپنے ثبوتوں کے تھیلے لاکرز میں رکھوا کے جائیں گے سالو! کسی محکمے کا ریکارڈ جل جانا ثبوت نہیں ہے؟ سڑکوں کا اپنی معیاد سے پہلے ٹوٹ جانا ثبوت نہیں ہے؟ ججوں اور سیاست دانوں کو وڈیوز کی دھمکیاں دینا ثبوت نہیں ہے؟ سرے محل، ایون فیلڈ، ایان علی، پیٹ پھاڑ کے لوٹا ہوا خزانہ نکالنا ثبوت نہیں؟ "میری لندن تو کیا" ثبوت نہیں؟ نسل در نسل موروثی سیاست کرتے چلے جانا اور ڈھٹائی سے اسے جمہوریت کا نام دینا ثبوت نہیں؟ سرکاری تعلیمی اداروں کی ابتری اور پرائیویٹ اکیڈمیوں کی چمک دمک ثبوت نہیں؟ جعلی ادویات اور مریضوں کی جانوں سے کھیلنا ثبوت نہیں، صرف زیادہ فیس کی خاطر نوجوان حاملہ لڑکیوں کے پیٹ پھاڑنا ثبوت نہیں؟ ماڈل ٹاؤن کی وڈیوز، موٹر وے کا گرفتار مجرم، نور مقدم کا جسم سے اُترا ہوا سر ثبوت نہیں؟ ہرعلاقے سے چھٹے ہوئے بدمعاشوں کا کروڑوں روپے خرچ کر کے الیکشن جیت جانا ثبوت نہیں؟ دن دہاڑے کی جانے والی اقربا پروری ثبوت نہیں؟ امیر کا امیر تر اور غریب کا غریب کا غریب ترین ہوتے جانا ثبوت نہیں؟ حکمرانوں کا الیکشن کے دنوں میں نوکریوں کے دروازے کھول دینا ثبوت نہیں؟

    وہ ارضِ وطن اور پاک فوج کے بارے میں مُودی اور یہودی کی زبان بولنے والوں سے بھی بہت ناراض لگتا تھا۔ کہتا تھا کہ ان ملک کی جڑیں کھودنے والوں کو سرحد پار کرا کے آقاؤں کی طرف دھکیل دینے میں کیا امر مانع ہے؟ پھر روتے روتے کہنے لگا میرا سگا بھائی چار سال سے بغیر کسی جرم کے جیل میں ہے اور یہاں اربوں کی لوٹ مار کے مجرم روزانہ تفریح کے انداز میں پورے علاقے کی ٹریفک بند کر کے صحافیوں کی فوج کے ساتھ عدالت کے ساتھ مسخریاں کرنے جاتے ہیں۔ ہت تیرے اس نظام کی?

    پھر شدتِ جذبات اور لہجے سے ٹپکتی مایوسی سے اس کا گلا رُندھ گیا، مجھے قتیل شفائی یاد آ گیا:

    اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دُور اُفق میں ڈوب گیا

    روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی