کئی لوگ مجھ سے استفسار کر رہے ہیں کہ آج تک اسلام آباد کا محاصرہ ہوتے تو سنا تھا، پھر اس شہرِ ستم ظریف کا متاثرہ بھی تقریباً ہر پاکستانی ہے لیکن یہ بیٹھے بٹھائے مناثرہ، آپ کہاں سے نکال لائے؟ ان خواتین و حضرات سے گزارش ہے کہ وفاق کا محاصرہ صرف اپوزیشن کی ناکام حسرتوں کااعلانیہ ہوتا ہے، جب کہ مناثرہ، ادب کے فروغ کی ایک دل فریب کاوش کا نام ہے۔ ہمارے ہاں آج تک قلم کاروں کی ادبی صلاحیتوں کا خلقِ خدا کے سامنے اظہار محض مشاعرے کی صورت ہوتا تھا۔ مشاعرے کا تذکرہ تو تقریباً سب لوگوں نے سن رکھا ہوگا بلکہ بہت سوں نے تو ذاتی طور پر بھگتا بھی ہوگا۔
اسلام آباد والوں کو ہمیشہ دُور کی سوجھتی ہے۔ انھوں نے وہاں کے سیاسی اور مشاعراتی ماحول کا دَف مارنے کے لیے محافلِ مناثرہ، کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جن میں شہر بھر اور کبھی کبھی ملک بھر سے قابلِ ذکر نثر نگاروں کو جمع کر کے ان کے منتخب نثر پارے سنے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ یہاں پورا پنڈال اپنا کلام سنانے کے لیے پھاوا نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ کچھ چنیدہ لوگ سناتے ہیں، بقولِ شاعر:
پڑھتے، ہیں منتخب ہی یہاں روزگار کے
اور بقیہ پورا مجمع جو خود نہایت باوقار ادبی منظرنامے کا حصہ ہوتا ہے، پورے انہماک سے سامعین کا کردار عطا کرتا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ یہاں تقدیم و تاخیر کے مرض کا داخلہ بھی بند ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی ہو جاتا ہے کہ فتح محمد ملک جیسے نامور پہلے پڑھ دیں اور کوئی نوجوان مفتوح ان کے بعد آ کے ملکۂ نثر کے ناز اٹھائے۔ پھر یہاں سیکرٹری، صدر کا بھی کوئی رَولا نہیں، محترمہ نعیم فاطمہ علوی ہی اس غیر روایتی فورم کی سیکرٹری، صدر، بانی، کرتا دھرتا اور خادم ہیں۔ سماجی حوالے سے بھی محترمہ نے اس دارالحکومت میں کئی روگ پال رکھے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ آل پاکستان گرلز گائیڈ کی چیئر پرسن پبلی کیشنز ہیں، فیض الاسلام، کے پانچ کیمپسز کے ادبی مجلے کی مدیر ہیں، پاکستان فیڈریشن آ ف ویمن یونیورسٹیز کی وائس پریزیڈنٹ ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوبصورت سفرنامہ نگار اور اہم افسانہ نویس بھی ہیں۔"عقیدتوں کا سفر" ان کے سفرِ حجاز کی دل گداز داستاں ہے۔"دیارِ گنگ و جمن" ان کی ہند یاترا کی رنگا رنگ تصویر ہے۔"مسیحا" ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے جب کہ ان کی حال ہی میں منظرِ عام پہ آنے والی کتاب "حیرت کو تصویر کریں " ان کے برطانیہ امریکا اور آسٹریلیا کے چار اسفار کی مزے دار کہانی ہے۔ انسانوں سے محبت اور مروت ان کی کتاب کی بھی سطر سطر سے پھوٹی پڑتی ہے۔
جہاں تک ان کے شوہرِ نامدار ڈاکٹر ایوب علوی کا تعلق ہے، وہ بھی عجیب پُر عزم اور پُر عجز شخصیت ہیں۔ مانچسٹر سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری لی اور وہیں پڑھانا شروع کر دیا لیکن پھر وطن کی محبت اور اہلِ وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار کھِنچے چلے آئے۔ ۱۹۸۲ء میں فاسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہو گئے۔ ۸۷۔ ۱۹۸۶ء بی سی سی آئی والے آغا حسن عابدی نے دس کروڑ کی ڈونیشن دی۔ اس رقم کو اس سلیقے سے استعمال کیا گیا کہ ۲۰۰۰ء میں اسی ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دلوا دیا۔ اسی رقم کی برکت سے لاہور، پشاور، کراچی، فیصل آباد میں فاسٹ یونیورسٹی کے کیمپس قائم کیے گئے، جن میں تقریباً چودہ ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ اب ڈی ایچ اے ملتان میں بھی نئے کیمپس کے لیے بھی بیس ایکڑ زمین خرید لی گئی ہے۔
جہاں تک اسلام آباد کے پندرہ ایکڑ والے کیمپس کا تعلق ہے، اس پہ ٹوٹ کے پیار آیا۔ دن تو دن، وہاں رات کو بھی دن کا سماں تھا۔ عاشق کے دل کی طرح جگ مگ کرتی اور دور تک پھیلی لائبریری، محبوب کے ظاہر کی مانند صاف ستھرا وسیع و عریض کیفے، اسلام آباد بننے سے بھی پہلے کا مہیب برگد، جسے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ کر لیا گیا ہے۔ درختوں کے نیچے دور دور تک بینچ رکھوا دیے گئے ہیں تاکہ دلِ وحشی کو کنارہ گیر ہونے کے لیے بھی جنگلوں اور ویرانوں کا رُخ نہ کرنا پڑے۔ جگہ جگہ ایسے خوبصورت ہوادار ہَٹ بنوائے گئے ہیں کہ جن کے اندر پُر فضا ماحول میں بیٹھ کر بارہ چودہ دوستوں کی منڈلی شاعری، موسقی، لطیفہ بازی، گپ سازی کی محافل برپا کر سکتی ہیں۔ ہم نے خود خوبصورت شام اور ریکٹر کی موجودگی ایک محفل قائم کی اور ڈاکٹر عزیز فیصل سے ان کے گرائیں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا خوبصورت گیت "سانبھ سانبھ رکھیاں تیریاں نشانیاں " سنا۔
مذکورہ یونیورسٹی کے جو خصائص ہمیں سب سے زیادہ پسند آئے، ان میں ایک تو یہ ہے کہ یہ بغیر کسی حکومتی یا بیرونی مدد کے، محض ایمپلائز کی مساعی سے چل رہی ہے بلکہ یہاں بے شمار طلبہ کو سکالرشپ بھی دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر علوی نے جب ریکٹر شپ کا عہدہ سنبھالا تو اس عہدے کی خدمت کو کئی معاون موجود تھے، انھوں نے سب کی خدمات دوسرے شعبوں کو سونپ دیں، چنانچہ اب وہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں، اپنا فون خود ملاتے ہیں، اٹھ کے پانی بھی خود پی لیتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے ملاقاتیوں کا خود ہی استقبال کر لیتے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی جب یونیورسٹی کیفے سے کھانا کھانے لگے تو بیگم سے کہا: آپ برتن لگوائیں، مَیں پارکنگ سے گاڑی یہاں لے آتا ہوں۔ مَیں نے ایسا خود کار افسر زندگی میں پہلی بار دیکھا۔ لاہور میں واقع اپنی یونیورسٹی کے امریکی ریکٹر کو دیکھ کے بھی مجھے خوشگوار حیرت ہوتی ہے، جب وہ پون کلومیٹر پہ واقع اپنی رہائش گاہ سے پیدل واک کرتے ہوئے پانچ منٹ پہلے اپنے دفتر پہنچتے ہیں۔ ایک دن مَیں نے ایک معروف یونیورسٹی چھوڑ کے آنے والی سپورٹس انسٹرکٹر سے دونوں یونیورسٹیوں کا موازنہ کرنے کو کہا تو بولی: بس ایک واقعے سے فرق جان جائیے کہ اُس یونیورسٹی میں ایک انتہائی ایمرجنسی کے سلسلے میں مجھے وائس چانسلر سے ملنا تھا لیکن مہینے تک وقت نہیں ملا لیکن یہاں جب مَیں پہلے دن گراؤنڈ میں بچوں کو پریکٹس کروا رہی تھی، ریکٹر صاحب دفتر جانے سے قبل سیدھے گراؤنڈ میں چلے آئے اور آتے ہی پوچھا: مِس عظمیٰ اینی پرابلم؟
پھر مزے کی بات یہ انکوائری کے تمام معاملات کلرک نما مخلوق پہ چھوڑنے کی بجائے یونیورسٹی کے کیمپس ڈائریکٹر ڈاکٹر زوہیب خود نمٹاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی طلبہ کا ہر معاملہ بشمول (ڈگری کلیئرنس، ٹرانسکرپٹ، بونا فائیڈ لیٹر، کریکٹڑ سرٹیفکیٹ، انٹرنشپ لیٹر، فنانشل اسسٹنس، لون، فیس انسٹالمنٹس، کیریئر سپورٹ اور کونسلنگ، سوسائٹیز، ایونٹ فنڈ ریکویسٹ) ٹوکن حاصل کرنے کے تین منٹ کے اندر اندر حل کر دیا جاتا ہے۔ وگرنہ تو یہاں لاہور میں میری مادر علمی کی صورتِ حال یہ ہے کہ تیس سال پہلے ہم جب یونیورسٹی سیل پوائنٹ سے کتاب خریدنے جاتے تو وہ ہمیں بیس تیس روپے کا ووچر تھما کے کہتے کہ پہلے اسے بنک میں جمع کروا کے آؤ، پھر کتاب ملے گی۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ لائن میں لگ کے پیسے جمع کروا کے آتے تو سیل پوائنٹ بند ہو چکا ہوتا۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی یہ سسٹم ایسے ہی چل رہا ہے!! آج اگر کسی کار پرداز کو دوسری جامعات یا جدید دفاتر کا حال سناتے ہیں تو وہ جھنجھلا کے کہہ اٹھتے ہیں:
رکھیا نئیں کدی اسیں کوئی وی توازنہ
دنیا دے نال کاہنوں کریے موازنہ
(ختم شد)