Thursday, 26 December 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Oriental, Amjad Islam Amjad Aur Main

    Oriental, Amjad Islam Amjad Aur Main

    آج سے چونتیس برس قبل جب مَیں شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے، پڑھ لکھ کے باؤ بننے کی غرض سے اورینٹل کالج آیا تو یہاں کے چپے چپے، ٹہنی ٹہنی، پتے پتے پر امجد اسلام امجد بکھرا پڑا تھا۔ لائبریری سے کوئی کتاب لینے جاتے تو یا تو وہ کتاب ہی امجد اسلام امجد کی ہوتی، یا اس کے خالی صفحات پہ بعض دل جلوں یا من چلوں کے ہاتھ سے لکھے امجد صاحب کے اشعار ملتے۔ لاہور کی کسی ادبی تقریب میں جاتے تو بھی اس کے کرتا دھرتا امجد صاحب ہوتے یا وہ تقریب ہی امجد صاحب کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہوتی۔ کسی غیر روایتی محفل میں لطیفوں کا مقابلہ چل رہا ہوتا تو خبر ملتی کہ عطاء الحق قاسمی کے مقابلے میں امجد صاحب ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہاسٹل میں جا کے ٹی وی آن کرتے، تو پتہ چلتا کہ امجد صاحب مشاعرہ پڑھ رہے ہیں، بلکہ پڑھ کیا رہے ہیں، دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں یا پی ٹی وی پہ امجد صاحب ہی کا کوئی ٹریفک اور سانس روک قسم کا ڈراما چل رہا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے اسی زمانے میں تو کہا تھا کہ: ؎

    اللہ کے کاموں کی نسبت اللہ کا نام زیادہ ہے

    اسلام تو کم ہے ٹی وی میں امجد اسلام زیادہ ہے

    کالج کی سیڑھیوں کی طرف بڑھتے تو سکھیوں کے سنگ سیڑھیاں اترتی اجنبی سے اجنبی حسینہ کو دیکھ کے بھی ایک لڑکی، دھڑا دھڑیاد آنے لگتی:

    گلاب چہرے پہ مسکراہٹ/ چمکتی آنکھوں میں شوخ جذبے/ وہ جب بھی کالج کی سیڑھیوں سے/ سہیلیوں کو لیے اترتی/ تو ایسے لگتا /کہ جیسے دل میں اُتر رہی ہو?ہم نے یونیورسٹی کا نیا نیا کام سیکھا تھا، بلکہ یوں سمجھ لیں نرے پینڈو تھے، اس لیے ہمیں تو مکالمہ کرتی ہر مٹیار اپنے سے زیادہ پُر اعتماد لگتی، بلکہ: کچھ اس تیقن سے بات کرتی / کہ جیسے دنیا اسی کی آنکھوں سے دیکھتی ہو / وہ راہ چلتی تو ایسے لگتا/ کہ جیسے چاندی پگھل رہی ہو

    اس زمانے میں یار لوگوں نے بہتیری کوشش کی کہ کہیں نہ کہیں سے امجد اسلام امجد کو سمیٹ کر، تھوڑ ابہت لپیٹ کر کسی کونے کھدرے میں اپنا ٹھِیا لگانے کی کوشش کریں، لیکن دوستو! گلی گلی مری یاد بچھی ہے، والا معاملہ تھا، کہاں کہاں سے سمیٹتے؟ تھک ہار کے تمام دوستوں نے یہی فیصلہ کیا کہ اس ظالم شاعر کو نظر اندازکرنا یا اس کے اثرات کو زائل کرنا ہمارے لیے تقریباً ناممکن ہے، اس لیے جہاں تک ہو سکے اس کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ پھر تو کچھ نہ پوچھیں دن رات، صبح شام، ہمارا کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا امجد اسلام امجد بن گیا۔ ہمیں پوری طرح احساس ہو گیا بلکہ آج بھی یہاں ہال میں بیٹھے طلبہ بلکہ اساتذہ بھی دل پہ ہاتھ رکھ کے اقرار کریں گے کہ حیاتِ مستعار کے اس جذباتی دور میں اتنا تو جدِ امجد کام نہیں آتا جتنا امجد اسلام امجد کام آتا ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ:

    اگر کبھی میری یاد آئے / تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں / کسی ستارے کو دیکھ لینا / اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر / تمھارے قدموں میں آ گرے تو / یہ جان لینا / کہ وہ استعارہ تھا میرے دل کا / اگر نہ آئے / مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے / کہ تم کسی پہ نگاہ ڈالو / اس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے / وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے

    جیسی لائنیں سن کر اگر کوئی حسینہ رام نہ ہو تو وہ کوئی فرعون کی بچی ہی ہو سکتی ہے۔ امجد صاحب کو ان کی دو معروفِ زمانہ نظموں "محبت" اور " ایک لڑکی" کی بابت تو اپنا مخلصانہ مشورہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں اورینٹل کالج میں در آنے والے ہر زندہ نوجوان (ڈاکٹر قمر علی زیدی اور ڈاکٹر زاہد منیر عامر سمیت) سے حلف اُٹھوا کے رائلٹی کلیم کرنی چاہیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے زمانۂ طالب علمی میں ہم تمام دوستوں کے سر بلکہ اعصاب پہ امجد اسلام امجد اس قدر سوار ہو چکا تھا کہ اگر کسی دوست سے ادھار دیے پیسے بھی واپس لینے جاتے تو وہ اَدھ پچدی رقم ہماری ہتھیلی پر رکھ کر ایسی رعونت بھری نظروں سے دیکھتا جیسے کہہ رہا ہو: ع

    وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا

    ہمارا ایک دوست کہ جس کے سر پہ نئی سے نئی کتابیں پڑھنے اور اکٹھی کرنے کا بھوت کچھ ایسا سوار تھا کہ بازارِ حسن بھی جاتا تو یہی پوچھتا : "کوئی نیا ایڈیشن آیا؟ " اس نے اردو شاعری سے بالعموم اور امجد اسلام امجد کی نظموں سے بالخصوص زندگی کی بہت سی مشکلات آسان کیں۔ جو بھی لڑکی ملتی اسے یہی باور کرانے میں لگا رہتا: ع

    چیر کے دیکھو دل میرا تو تیرا "بھی" نام لکھا رکھا ہے

    عام لڑکیوں کو تو وہ امجد صاحب کی کتابوں کے "ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا؟ ، سپنوں سے بھری آنکھیں، آنکھوں میں تیرے سپنے" جیسے ناموں کی فنکارانہ ادائیگی ہی سے رام کر لیتا۔ امجد صاحب کے معروف اور زبان زدِ عام مصرعے تو آپ یوں سمجھ لیں کہ نٹ کھٹ سے نٹ کھٹ ناریوں کے سینوں میں بھی ناوکِ نیم کش کی مانند ترازو رہتے۔ پھر مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے، جب ہ ایک دن روتا بسورتا میرے کمرے میں داخل ہوا۔ مَیں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: یار کیا بتاؤں میرے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا۔ مَیں نے لمحۂ موجود تک جس لڑکی کو امجد صاحب کی دو دھاری نظمیں سنا سنا کے گھائل کیے رکھا، آج حسبِ معمول اس سے ملنے گیا تو کیا دیکھا، مذکورہ مقام پہ اُس کی جگہ اس کی لنگوٹیا سہیلی کھڑی تھی، جس نے داہنے ہاتھ کی دو شریر انگلیوں میں کسی ماہر جیب تراش کی طرح ایک نیم وا کارڈ یوں اُڑس رکھا تھاکہ کوئی پوچھے تو چھپائے نہ بنے۔ میری پھٹی پھٹی متلاشی آنکھیں، مختل حواس، سینے میں آری کی مانند چلتا سانس بھی جب اس کی بے نیازی، لب بستگی اور سرد مہری میں دراڑ نہ ڈال سکے تو ہم نے چپ کی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بالآخر زبان کو زحمت دینے کا مشکل فیصلہ کیا۔ ہمارے باقاعدہ استفسار پر بھی منھ سے کچھ بتانے کی بجائے اس خواہ مخواہ کی مطمئن سمٹیار نے وہی مشکوک کارڈ میری طرف بڑھا دیا۔ مَیں نے جلدی جلدی کھول کے دیکھا، تو وہ اس کی سہیلی کی منگنی کا کارڈ تھا۔ پتہ نہیں اس میں کیا کچھ لکھا تھا؟ مجھے تو اس کارڈ میں بھی امجد صاحب ہی کی شبیہہ دکھائی دی، جو ایک شریر مسکراہٹ کے ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے: ؎

    وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

    دلِ بے خبر میری بات سن، اُسے بھول جا، اُسے بھول جا

    بس دوستو! اس مختصر سے وقت میں امجد صاحب کے کن کن کمالات کا ذکر کیا جائے، اُردو نظم کو اس زمانے میں مشاعروں کی رانی بنایا، جب محترمہ غزل صاحبہ بلا شرکتِ غیرے سامعین و قارئین ِ ادب کے دلوں کی دھڑکن بنی بیٹھی تھی ? اوپر سے ان کا حافظہ ایسا ہے کہ ہر مشاعرے میں دیوارِ چین جتنی طویل نظمیں بھی بچپن میں یاد کیے دُونی کے پہاڑے کی طرح منھ زبانی سناتے چلے جاتے ہیں ?

    ہاضمہ ایسا کہ دنیا جہان سے ملنے والی عزت و تکریم کو بڑے سکون سے پَچا کے بیٹھے ہیں ? یہاں تو لوگوں کو دو تولے بھی ہضم نہیں ہوتی ?سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے اپنی زندگی میں امجد صاحب جیسا حاضر جواب، بذلہ سنج، خوش مزاج، نرم گفتار، شگفتہ خیال، معاملہ فہم، نفیس طبیعت، اعلیٰ ظرف اور نستعلیق شخص آج تک نہیں دیکھا:ع

    پیدا کہاں ہیں ایسے "فراخندہ طبع" لوگ

    (پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں پرو وائس چانسلر جناب ڈاکٹر سلیم مظہر کی صدارت میں، جناب امجد اسلام امجد کو برادر ملک ترکی سے ملنے والے نجیب فاضل ایوارڈ کی خوشی میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا )