اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مادری، پدری، برادری اور خواہری زبان پنجابی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کے بقول ہمیں گالی گانا اور گنتی اسی زبان میں مزہ دیتے ہیں۔ گھر، برادری، رشتے داروں اور دوستوں سے گفتگو میں آج بھی پنجابی کا راج ہے۔ جب سکول میں پہنچے تو تمام مضامین اُردو میں ہوتے تھے، جنھیں ماسٹر صاحب ٹھیٹ پنجابی میں پڑھاتے۔ یعنی گھر میں پنجابی، کتاب میں اُردو اور سکول میں دونوں!! ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان دونوں زبانوں کو کبھی ایک دوسری کے رستے میں حائل ہوتے نہیں دیکھا بلکہ جب ذرا بڑے ہوئے تو ماں جی کواپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ اُردو، اور بچوں کو اپنی دادی سے نہایت سہولت سے پنجابی بولتے دیکھا۔ اس لیے یہ دونوں زبانیں مجھے ہمیشہ مادری ہی محسوس ہوئیں اور ان کا ہمیشہ برابری کی سطح پہ احترام بھی کیا۔ دو تین سال قبل جب عالمی سطح پر مادری زبان کا دن نہایت شدو مد کے ساتھ منایا جا رہا تھا تو مَیں نے دونوں زبانوں کے لیے انتہائی محبت اور عقیدت کے ساتھ قطعات تحریر کیے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب اُردو کی محبت میں لکھا گیا یہ قطعہ سوشل میڈیا پہ وائرل ہوا:
کہیں ریشم، کہیں اَطلس، کہیں، خوشبو، رکھ دوں
یہ تمنا ہے تِری یاد کو ہر سُو رکھ دوں
یہ تبسم، یہ تکلم، یہ نفاست، یہ ادا
جی میں آتا تِرا نام مَیں اُردو رکھ دوں
تو اپنے حکیم جی علی الصبح مارننگ واک سے بھی قبل ہمارے غریب خانے پہ آن وارد ہوئے اور آتے ہی چڑھ دوڑے۔ فرمانے لگے:
عزیزی! مَیں نے پہلے بھی کئی بار تمھیں سمجھایا تھا کہ شاعری تمھارے بس کی بات نہیں، کیوں اب کیا ہوا؟ ، ہم نے ہمیشہ کی طرح خفیف ہوتے ہوئے پوچھا۔ یہ جو تم نے جوشِ جذبات میں آ کے کسی عفیفہ کو اُس کا نام "اُردو" رکھنے کی وعید سنائی ہے، اس کے نتائج و عواقب پہ بھی کچھ غور کیا ہے؟ ، حکیم جی! پہلی بات تو یہ کہ اس قطعے میں محض اپنی قومی زبان سے لگاؤ کا شاعرانہ اظہار ہے، یعنی مجھے اس زبان سے اس قدر محبت ہے کہ مَیں اپنی سب سے پیاری دوست کا نام بھی اُردو رکھنا پسند کروں گا اور فرضَ محال اگر یہ کسی عزیزہ کو براہِ راست بھی کہہ دیا جائے تو اس میں برائی والی کیا بات ہے؟ ،
میاں ہمیں معلوم ہے کہ تم نے کرنی تو ہمیشہ کی طرح اپنی ہی مرضی ہے لیکن جس طرح کے ملکی اور لسانی حالات جا رہے ہیں، ذرا اپنی اس شدید قسم کی جذباتی کومنٹ منٹ پہ غور ضرور کر لینا۔ پھر اس بات پہ بھی تأمل برت لینا کہ اُس وقت تمھارے دل پر کیا گزرے گی، جب تمھیں پتہ چلے گا کہ تمھاری چہیتی اُردو، اپنے والدین کی شدید خواہش پرانگریزی میں ایم اے کر رہی ہے! تم شام کو اُس کے گھر پہ فون کرو تو وہ کہے، جانو!ذرا ٹھہر کے کرنا، مَیں ایف ایس سی کی لڑکیوں کو انگریزی کی ٹیوشن پڑھا رہی ہوں!! ? اور پھر ذرا اس صورتِ حال کے لیے بھی تیار رہنا، جب ایک دن تمھیں اچانک خبر ملے گی کہ ملک میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیشِ نظر تمھاری"اُردو" نے کینیڈا کی شہریت کے لیے اپلائی کر دیا ہے!!!،
دوستو! یہ ہلکی پھلکی تمہید تھی تو اپنی قومی زبان سے متعلق اچانک پیدا ہو جانے والی ایک دلچسپ صورتِ حال کی لیکن اس کے بین السطور زبان کو درپیش بہت سے مسائل کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اُردو کو انگریزی ہی سے نہیں بلکہ انگریزانہ رویوں، اُردو کے مستقبل سے متعلق دلوں میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والے خدشات اور محض انگریزی سے وابستہ روزگار کے مواقع سے بھی ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ جب تک کسی زبان کو روزگار سے منسلک نہیں کیا جاتا، اس سے عوام الناس کی شدید وابستگی کی توقع کرنا عبث ہے۔ اور یہ جو ہمارے کار پردازان آئے دن سوالات اٹھاتے ہیں کہ اُردو زبان ابھی دفتری معاملات، اور سائنسی تعلیم کے لیے تیار نہیں ہے، وہی اس کے اصل دشمن ہیں۔ ہمارا تو دعویٰ بلکہ یقین ہے کہ آپ اپنے ہاں ملازمتوں کے لیے ہونے والے تمام امتحانات اُردو میں کر دیجیے، پھر معجزہ دیکھیے کہ جو کام انگریزی سے تہتر سالوں میں نہیں ہو سکا، وہ اُردو تہتر دنوں میں کر کے دکھا دے گی۔
آج ہمیں اس منافقت کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے جو ہم نے ہر دفتر، ہر عدالت اور ہر تعلیمی ادارے میں روا رکھی ہوئی ہے۔ مجھے پاکستان کی کوئی ایک عدالت بتا دیجیے، جس میں تمام قانونی کارروائی انگریزی زبان میں ہوتی ہو؟ کوئی سروے کر کے بتا دے کہ ملک میں کتنے وکیل ایسے ہیں جو تین منٹ تک روانی سے انگریزی بول سکتے ہیں؟ کس عدالت میں مقدمے کی بحث انگریزی میں ہوتی ہے؟ وہ کون سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزم اور مجرم ہیں جو اپنی گواہیاں انگریزی میں دینے پر اِصرار کرتے ہیں؟ کس تھانے میں تفتیش اس بدیسی زبانمیں ہوتی ہے؟ کیا صرف مقدمات کے رٹے رٹائے فیصلے لکھوانے کے لیے انگریزی ناگزیر ہوئی پڑی ہے؟ اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیا جائے کہ مدعی یا مدعا الیہان کے کتنے وارثان ہیں، جن کو وہ زبانِ غیر میں لکھے ہوئے فیصلے پڑھنے آتے ہیں؟
اسی طرح ہمارے ہاں ایک مالی اور خاکروب تک کی بھرتی اور تبادلے کے آرڈرز انگریزی زبان میں جاری ہوتے ہیں، حالانکہ اسی مالی اور خاکروب سے آپ ساری عمر اس زبان میں پھولوں کو گوڈی دینے یا دفتر میں صفائی کرنے کا حکم جاری نہیں کر سکتے۔ آپ کسی بھی سرکاری دفتر کا دورہ کر کے دیکھ لیجیے سوائے بد قسمت سائلوں کی فائلوں پہ پُٹھے سِدھے نوٹ لکھنے کے کہاں انگریزی کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے؟ کون سا دفتری، چپراسی، کلرک، پی اے یا صاحب ایسا ہے، جسے انگلش بولے بنا بھوک نہیں لگتی؟ میرا اعلیٰ سطح کے سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا تین دہائیوں کا تجربہ ہے، کوئی بتا دے کہ کس کالج یا یونیورسٹی میں انگریزی زبان و ادب سمیت کون سا سائنسی مضمون ہے جو طلبہ کو اُردو بلکہ ساتھ پنجابی کا سہارا لیے بغیر پڑھایا جا رہا ہے؟ میرے دوستو! ہمیں پون صدی سے انگریزی کے نام پر بیوقوف بنایا جا رہا ہے، جب کہ اس کی عملی افادیت کا یہ عالم ہے کہ ہم سات دہائیوں میں اس قابل بھی نہیں ہو سکے کہ انگریزی زبان میں بازار سے آلو یا بھنڈیاں خرید سکیں، اس زبان میں آپ کنڈیکٹر سے بقایا نہیں مانگ سکتے، ماں سے لاڈ نہیں کر سکتے، دوستوں سے شکوہ نہیں کر سکتے، اللہ سے دعا نہیں مانگ سکتے، مکمل اظہارِ محبت نہیں کر سکتے، گھر سے کُوڑا اٹھانے والے سے شکایت نہیں کر سکتے۔ درزی سے سوٹ نہیں سلوا سکتے۔ ضد کر کے قصائی سے پُٹھ کا گوشت نہیں خرید سکتے۔ تربوز کچا نکلنے کی شکایت نہیں کر سکتے۔ ضمیر جعفری نے سچ ہی کہا تھا:
انگریزی جو مِرے باہر چھلکی پڑتی ہے
شاید مِرے اندر ابھی انگریز بہت ہے