اُردو لسانیات کی دنیا میں فرد ہے
اُردو ولی ہے، میر ہے، سودا ہے، درد ہے
میرا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ بہ حیثیت قومی زبان ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم اس زبان کے تحفظ و فروغ کے لیے اپنی سی کاوش کرتے رہیں لیکن بالخصوص وہ لوگ جن کا رزق براہِ راست اس زبان سے وابستہ ہے، اگر وہ اس کے استعمال و فروغ کے سلسلے میں کسی قسم کے تساہل، تجاہل یا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو سچ بات یہی کہ وہ اپنے رزق کو حلال نہیں کر رہے۔ مجھے بہت افسوس اُن ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور اساتذہ پہ ہوتا ہے جو سوشل میڈیا پہ اپنے پیغامات انگریزی یا رومن میں لکھتے ہیں۔ اس زمانے میں جب ہر قسم کے فون پہ اُردو کی بورڈ کی سہولت میسر ہے۔ دوستو! ہم سے تو وہ ٹیلی فون کمپنیوں والے زیادہ مخلص ہیں، جو ہر سیٹ میں اُردو کا خاص اور آسان سے آسان استعمال ممکن بنانے میں لگے رہتے ہیں۔
اس وقت وطنِ عزیز کی مختلف جامعات کے شعبہ ہائے اُردو کی اعلیٰ سطحی کلاسز میں اعلیٰ کم اور سطحی مضامین زیادہ پڑھائے جا رہے ہیں۔ اُردو کے نام پر الم غلم کورسز ترتیب دیے گئے ہیں۔ وہی سو سال پرانے روایتی کورسز، اگر موجودہ دور میں ان کی عملی افادیت پوچھ لیں تو شاید کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ مغربی تنقید کے چبائے ہوئے نوالے، تحقیق و حواشی کے غیر موزوں مغربی انداز، مجھے حیرت اس بات پہ ہوئی جب پاکستان کی ایک معروف جامعہ کے پی ایچ۔ ڈی کے طالب علم نے بتایا کہ اس کا خاکہ(Synopsis) حتمی منظوری کے لیے کسی سائنس کی استاد کے پاس گیا ہوا ہے جو اسے دیگر زبانوں کے وضع کردہ ضوابط کے مطابق پرکھ کے بتائیں گی کہ تربوز کچا ہے یا پکا، شرم ہم کو مگر نہیں آتی!!!
مقتدرہ قومی زبان کے ایک سابق منظم جناب عرش صدیقی نے اُردو اطلاعیات، کے عنوان سے ایک پروگرام تیار کروایا تھا، جس کے ذریعے، جدید ٹیکنالوجی کامکمل استعمال اردو کے ساتھ سکھایا جاسکتا تھا لیکن شاید ہی کسی جامعہ نے اسے در خورِ اعتنا سمجھا ہو، ا کثر جامعات میں یہی عذر تراشا جاتا ہے کہ ہم "اُردو اور ٹیکنالوجی" کا کورس بنا تو لیں لیکن اسے پڑھائے گا کون؟ استغفراللہ!!!حالانکہ اگر اُردو کے اساتذہ اب تک اس سے نابلد ہیں تو ان کے لیے بھی ٹریننگ کا اہتمام کیا جاتا۔ ستم تو یہ ہے کہ ہر یونیورسٹی میں انگریزی اور سائنسی مضامین کے تقریباً تمام طلبہ اپنا تھیسز خود ٹائپ کرتے ہیں اور قومی زبان والے مقالہ مکمل ہونے کے بعد گلیوں گلیوں کمپوزر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
پھر کوئی ماہرِ تعلیم یہ بتانا پسند کرے گا کہ جن طلبہ و طالبات کی ڈاکٹر یا انجنیئر بنانے کی غرض سے جبری ٹیوشن اور الٹے سیدھے انگریزی نوٹسز کے ذریعے سات آٹھ سال تک مت ماری جاتی ہے، ان کی وہ انگریزی کس ہسپتال یا کلینک میں کس طرح کے مریضوں کو چیک کرنے میں کام آتی ہے؟ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر طرح کے لوگوں کو بخار، نزلہ، کھانسی، ہیضہ، قبض، پیچش، ڈھڈ پیڑ، کانوں میں شاں شاں، آنکھوں میں ککرے، پیٹ میں گڑاؤں گڑاؤں، سب کچھ اپنی مقامی زبانوں میں ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی وضاحت کی جائے کہ وہ کون سا انجنیئرنگ کا پراجیکٹ ہے، جہاں کے عوام، مزدور، ٹھیکے دار انگریزی کے فراق میں مرے جا رہے ہوتے ہیں؟ ایک ذہین طالب علم کو یہاں انگریزی کا تڑکہ لگا کے سی ایس پی افسر بنایا جاتا ہے، اور اے سی یا ڈی سی حتّیٰ کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر لگ کے بھی اُس کا واسطہ ان لوگوں سے پڑتا ہے، جو اُردو بھی بمشکل سمجھ سکتے ہیں، تو یہ سب تردد کس لیے؟ میرے گاؤں کا ایک سیدھا سادہ دوست پوچھنے لگا کہ جب ہم چولھے پہ روٹیاں دیسی انداز سے پکاتے ہیں تو گیس کا بل انگریزی میں کیوں آتاہے؟ جب ہم بیمار مقامی جراثیموں سے ہوتے ہیں تو دوائیں انگریزی میں کیوں چھپتی ہیں؟
پھر جن جامعات میں صحافت، ابلاغیات یا مواصلات کا مضمون انگریزی زبان میں پڑھایا جا رہا ہے، ذرا ان سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ طلبہ و طالبات اس کا استعمال پاکستان کے کون سے پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا پہ کر سکیں گے؟ یہاں تو کوئی اخبار اٹھا کے دیکھ لیں یا چینل لگا لیں، کوئی دھواں دار ٹاک شو ہو یا سکینڈل دارپریس کانفرنس، خود کُش دھماکے کی بریکنگ نیوز ہو یا سیلاب کی تباہی کی اطلاع، معاشقہ دار ڈراما ہو یا بازاری قسم کی جگتوں والا کامیڈی شو، سب کچھ اُردو یا مقامی زبان میں ہوتا ہے۔ یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی کے شعبے مواصلات و خبریات کے زیرِ انتظام "اُردو زبان کی اہمیت و افادیت اور اس کا مستقبل" کے موضوع پر ایک آن لائن سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت شعبے کے چیئرمین جناب ڈاکٹر وقار ملک نے کی۔ سیمینار کی منتطم ماریہ اشرف تھیں، جب کہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنے والوں میں راقم کے علاوہ جناب تاثیر مصطفیٰ، ڈاکٹر جمیل الرحمن، ڈاکٹر اے آر خان، ڈاکٹر قاسم محمود، عامر سہیل، مجاہد حسین اورصاحبِ صدر شامل تھے۔ تمام مقررین نے متفقہ طور پر حکومتِ پاکستان سے عدالتِ عظمیٰ کے ۲۰۱۵ء والے فیصلے کے مطابق وطنِ عزیز کے ہر شعبے میں اُردو کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا۔
ہمارے لاہور میں اس وقت ایک ایسی یونیورسٹی موجود ہے، جہاں زیادہ تر انگریزی زدہ طالب علم ہی داخلہ لیتے ہیں لیکن مزے کی بات یہ کہ یہی وطنِ عزیز کی واحد یونیورسٹی ہے، جہاں گریجویشن کی سطح پر بھی اُردو زبان لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جا رہی ہے اور پھر ادب سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ و طالبات کے لیے اُردو ادب کے پچیس مزید کورسز ہیں، جنھیں سائنس اور انفرمیشن ٹیکنالوجی حتّیٰ کہ انگلش لٹریچر کے طلبہ طالبات بھی جنرل کورسز کے طور پر بہ رضا و رغبت پڑھ سکتے ہیں۔ سب سے مزے کی بات یہ کہ اس یونیورسٹی کی انتظامیہ امریکن ہے۔ ایک بار اس یونی کے امریکی ریکٹر سے اس انوکھی منطق کی بابت دریافت کیا گیا تو اس نے بلا حیل و حجت جواب دیا کی ہم اپنی یونیورسٹی میں جو بائیو ٹیکنالوجسٹ، کیمسٹ ماہرینِ نفسیات یا فارماسسٹ تیار کر رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نے اپنے ملک میں نوکری یا بزنس کرنا ہے جہاں ان کا زیادہ تر واسطہ ایسے لوگوں کے ساتھ پڑے گا، جو اُردو کے علاوہ کسی زبان میں مفہوم نہیں سمجھتے۔ اس لیے ان طالب علموں کو ہماری زبان سے پہلے اپنی زبان آنا ضروری ہے۔
حکیم جی تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کسی مستند جامعہ سے (اگر وہ اس کی تاب لا سکے) پی ایچ۔ َ ڈی کی سطح کے ایک ایسے جدید اور شدید مقالے کی ضرورت ہے، جس میں تحقیق کر کے بتایا جائے کہ قیامِ ملک سے اب تک اُردو زبان کے حوالے سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے رنگ برنگے تمغے سمیٹنے والے، بڑی بڑی کرسیوں کے جھونٹے لینے والے، اعلیٰ ترین اسناد کے حامل، وہ کتنے فیصد اساتذہ، شعرا، ادبا اور میڈیا پرسنز ہیں، جو اپنی اُردو سے وابستگیکو اپنی اگلی نسل میں منتقل کر پائے ہیں، اگر یہ تناسب ایک فیصد سے بھی کم نکلے تو جان لینا چاہیے کہ یا تو ہم نے ایک ناکام زندگی گزاری ہے، یا اس زبان کے ساتھ دل سے مخلص نہیں ہیں اور اس کے سب سے گھُنّے دشمن ہم خود ہیں!!!