پاکستان ڈیموکریٹک الائنس پچھلے کئی ماہ سے حکومت کے خلاف تحریک لیے سڑکوں پر سرگرداں ہے لیکن اُسے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ہے۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں سے ہمارے یہاں کبھی کوئی حکومت ختم نہیں ہوتی۔ جسے ختم ہونا ہوتا ہے وہ کسی ایک معمولی غلطی سے ختم ہوجاتی ہے، بے شک وہ چاہے دوتہائی اکثریت رکھنے والی حکومت ہی ہو، مگر عوامی تحریکوں سے ہرگز ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے اپوزیشن تاحال اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اپوزیشن کی تحریک کے ابتدائی دنوں ہی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رویوں اور ارادوں پر شکوک اورشبہات ظاہرکیے جاتے رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے تو ایک ٹی وی انٹرویومیں برملا اِس کااظہاربھی کر دیا تھا، مگر وقت اورسیاست کی مجبوریوں نے اِس بات کو وہیں دبا دیا تھا۔ کیونکہ ایسا کہنے سے اپوزیشن کی تحریک شاید اُسی وقت دم توڑدیتی اور یوں منظم نہیں ہو پاتی، مگر جن شبہات کا اظہار خواجہ آصف نے اُس وقت کردیا تھا وہ آگے جاکے درست اورصحیح بھی ثابت ہوئے۔
آپ پیپلزپارٹی کی پالیسی کااندازہ اِسی بات سے لگاسکتے ہیں کہ اِس تحریک کے کئی اہم موقعوں پر اُس کی قیادت نے اپنے آپ کو اُس سے دور اور الگ رکھا۔ وہ کئی اہم جلسوں میں شرکت سے راہ فرار اختیارکرتی رہی اورکئی اہم میٹنگوں میں بھی غیر حاضر رہی۔ خاص کر اِسی مہینے میں جب ساری اپوزیشن ملکر الیکشن کمیشن اسلام آباد دفترکے باہر فارن فنڈنگ کیس کے سلسلے میں مظاہرہ کررہی تھی تو بلاول بھٹو، عمرکوٹ میں ایک چھوٹے سے ضمنی الیکشن کی جیت کا جشن منا رہے تھے۔ سیاست کے خدوخال پرگہری نظر رکھنے والے شیخ رشید بھی اُن کی اس ادا پر فقرے بازی کرتے ہوئے بے ساختہ فرما ڈالا کہ " اپوزیشن اسلام آباد میں مظاہرہ کررہی ہے اورمیرا جگر عمرکوٹ میں جیت کا جشن منا رہا ہے۔"
پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست کے پیچھے ابھی تک صرف ایک شخص کی ذہانت کار فرما ہے اور وہ ہیں آصف علی زرداری۔ اُن کی ذہانت اور قابلیت کوسمجھنے کے لیے ہم جیسے بہت سے لوگوں کوشاید پھر سے جنم لینا پڑے گا، وہ جس طرح سیاست کی شطرنج پر اپنی چالیں کھیلتے ہیں کوئی اُن کو ہرانھیں سکتا۔ انھیں اِس سے ہرگزکوئی سروکارنہیں کہ عمران خان پانچ سال پورے کریں یا پھر قبل از وقت گھر بھیج دیے جائیں۔ انھیں اگر غرض ہے توصرف اپنے صوبے اور اپنی پارٹی سے ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عمران خان کوگھر بھیج کر بھی اُن کے حصے میں سندھ کی حکومت کے علاوہ کچھ نہیں ملنے والا۔ پھر بھلاکیوں وہ اپنے پرانے حریف کے برسر اقتدار آنے کی کوششوں میں اپنی توانائی ضایع کریں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کی ناکامی میں بھی سب سے بڑی وجہ بھی یہی سوچ ہے۔
ہاں البتہ وہ اپنے موجودہ سیاسی حلیفوں کو مکمل طور پرمایو س بھی نہیں کرناچاہتے اورآس و اُمید کا دیا جلائے رکھتے ہوئے کبھی کبھار ایک آدھ بیان اُن کے حق میں داغ دیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو دلاسہ دینے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے بعد وہ صرف ایک چائے کی پیالی سے سیاست کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے اور یہ چائے کی پیالی وہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت کو پلائیں گے۔ ایسی ہی چائے کی پیالی وہ پہلے بھی بہت سی سیاسی جماعتوں کو پلاتے رہے ہیں جب وہ 2008سے 2013 تک وفاق میں برسراقتدار تھے۔
اِسی چائے کی پیالی کی برکتوں اورکرامتوں کی وجہ سے وہ اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کر پائے تھے اوراپنے بارے میں یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب وکامران بھی ہوئے تھے کہ دوستی اور مفاہمت کی سیاست کے وہ بہت بڑے گرو ہیں، جس طرح انھوں نے اِسی چائے کی پیالی سے پہلے ایم کیوایم کو پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمی کوپوراکرنے کے لیے جوڑے رکھااوربعد ازاں اُس کے نکل جانے کے بعد مسلم لیگ (ق) کوساتھ ملا لیا، اُسی طرح اُن کا اب بھی یہی خیال ہے کہ وہ جب چائے پلانے کے مشن پر نکل پڑیں گے توبہت سی چھوٹی سیاسی جماعتیں اُس کی تاثیر اورسحرکے سبب مدہوش ضرور ہوجائیں گی۔
ہماری قومی سیاست میں چائے کی پیالی کی اہمیت اور افادیت رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے، جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں آصف علی زرداری چائے پلا پلاکرکرشمات دکھاتے رہے ہیں اُسی طرح پی ٹی آئی میں جہانگیر ترین بھی ایسی ہی چائے پلانے کے بہت بڑے ماہر سمجھے جانے لگے ہیں۔ جوں جوں سینیٹ کے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں، پارٹی میں اُن کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کی جانے لگی ہے۔ پنجاب کے پرانے سیاستداں راجہ ریاض نے توکھل کرانھیں واپس لانے کامطالبہ بھی کردیا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے کہ 2018 انتخابات کے بعد جس طرح جہانگیر ترین نے ہنگامی دورے کرکے پی ٹی آئی کی عددی کمی کونہ صرف وفاق میں بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی پوراکیا تھا وہ پارٹی میں کوئی اور کرہی نہیں سکتا تھا۔ انھوں نے تمام آزاد اورکچھ دوسری پارٹیوں کے منتخب ارکان کو جس طرح چائے پلا پلاکراپنے ساتھ ملا لیا تھا وہ اُس سحر انگیز چائے کا ہی کمال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سمجھا جا رہا ہے کہ اگرجہانگیر ترین کو میدان میں نہ اتارا گیا تو پارٹی کے ناراض ارکان کوقابو میں رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ یہی ڈراورخوف ایک طرف خفیہ رائے شماری کے خلاف آئینی ترمیم لانے کاسبب بنا ہے تو دوسری طرف ارکان اسمبلیوں کو ترقیاتی فنڈ دلانے کی وجہ بنا بھی ہے۔
تین سال پہلے سینیٹ کے ایسے ہی ایک الیکشن میں آصف علی زرداری نے بھی ایک ڈاکٹرکو جو جیل کے دنوں میں اُن کا معالج اور دوست بنا ہوا تھا اِسی طرح چائے پلانے کے لیے میدان میں اُتارا تھا اورجس نے اپناکام بطریق احسن اوراِس خوبی سے سر انجام دیا تھا کہ خیبر پختون خوا میں توچائے کی پیالی سے فیض یاب ہونے والوں نے سر عام کیمرے کو دکھا دکھا کر اپنا ووٹ کاسٹ کیا تھا۔ یہ منظر آج بھی ہمارے چینلوں کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
چائے کی ایک پیالی کی دعوت تو ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپوزیشن کو دے رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں جب پی ڈی ایم کی قیادت نے اپنے لانگ مارچ کواسلام آباد کے بجائے راولپنڈی لے جانے کا عندیہ دیا تو اُن کی جانب سے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ایسی ہی ایک چائے کی پیالی کا وعدہ کیاگیا۔
مگرکیا کریں اپوزیشن کو اِس کے بعد وہاں جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ وہ چائے کی پیالی کس قدر ذائقہ دار ہونی تھی یہ توچائے پینے کے بعد ہی پتا چلنا تھا مگر بیچاری اپوزیشن اُس کے پینے سے نہ صرف محروم رہ گئی بلکہ اب تو اسلام آباد جانے سے بھی کترا رہی ہے۔ اُس نے اپنے تمام پروگرام اورلائحہ عمل جن میں دھرنا، لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا بھی شامل تھا کو التواء میں ڈال کرنہ صرف ضمنی الیکشنوں بلکہ سینیٹ کے انتخابات میں بھی حصہ لینے کا ارادہ کرلیا، اب جوکچھ بھی ہوگا اُس کی پیشن گوئی ہمارے یہاں سوائے شیخ رشید کے کوئی اور نہیں کرسکتا۔