جعلی ڈگری پرنادرامیں ڈی جی بن کرلوگوں سے اصلی ڈگریاں مانگنے والے صاحب بہادر کی جعلسازی کے بارے میں پڑھااورسناتواپنے قاری نوازصاحب یادآگئے۔ قاری صاحب ہزارہ کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں بطورپلمبراپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک بارکسی محفل اورمجلس میں اداروں کی تباہی اوربربادی کاذکرخیرچلاتوقاری صاحب گویاہوئے۔ یہ تباہی اوربربادی کوئی آسمان سے نازل نہیں ہوتی یہ سب ہمارے ان ہی ہاتھوں کاکیادھراہے۔
یہ چور، ڈاکو، فراڈی اوربے ایمان صرف ہمارے اس ملک میں نہیں باہرکی دنیابھی ایسے عجوبوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ باہراورترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں چوروں، ڈاکوؤں اوربے ایمانوں کی سرکوبی نہیں کی جاتی بلکہ یہاں ان کے پھلنے پھولنے کے لئے ہرمحاذومقام پر سرگوشیاں کی جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگردس چور، ڈاکواوربے ایمان ہوں اورصرف ایک ایمانداراورامانت دارہوتووہی ایک ایماندارکوان دس بے ایمانوں کاسربراہ اورنگران مقررکیاجاتاہے پھروہی ایک ایماندارسب بے ایمانوں کوبدل کے رکھ دیتاہے مگرہمارے ہاں یہ نظام، سسٹم اورطریقہ ہی الٹ ہے۔
یہاں تورواج یہ ہے کہ جوسب سے بڑاچور، ڈاکواورفراڈی ہوگاوہی دس اوربیس نہیں سوبلکہ ہزاروں ایمانداروں کاسربراہ ونگران مقررہوگا، باہرکی دنیامیں وہ ایک ایماندارجب دس، بیس اورسووہزاربے ایمانوں وفراڈیوں کاسربراہ وکپتان مقررہوتاہے تووہی ایک ایماندارپھرنہ صرف ان سب چوروں اورفراڈیوں کوبلکہ پورے سسٹم ونظام کوسیدھاکرلیتاہے مگرہمارے ہاں چونکہ ہم ایک فراڈی اورنوسربازکوہزاروں ایمانداروں پرمسلط کردیتے ہیں پھروہی ایک نوسربازوفراڈی پورے سسٹم ونظام کوایسے تباہ اوربربادکردیتاہے کہ اللہ کی پناہ۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایک نوسربازاورفراڈی جب جعلی ڈگری پرکسی محکمے اورادارے کاڈی جی، کپتان، ایم ایس، چیف ایگزیکٹیواورمنیجرمنتخب ہوگاتوپھروہ اس محکمے اورادارے کاکیاحشرنشرنہیں کرے گا؟ نادرامیں انتہائی حساس قسم کے کاعذات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے۔ یہی وہ محکمہ اورادارہ ہے جوکسی کوقومی شناخت دے بھی سکتاہے اورکسی سے قومی شناخت لے بھی سکتاہے۔ اب اگراس ادارے میں کوئی شخص جعلی ڈگری پرڈی جی بن سکتاہے توپھرسوچنے کی بات ہے وہی شخص پھراس ادارے میں کیاکچھ نہیں کرسکتا۔
ایک بات جوسمجھ سے بالاترہے وہ یہ کہ نادرامیں اس ملک کے اصلی اورنسلی شہری کوصرف پہلی بارقومی شناختی کارڈبنانے کے لئے ہی نہیں بلکہ شناختی کارڈرینیوکرانے کے لئے بھی اٹھارہ گریڈآفیسرکے پاؤں پکڑنے کے ساتھ بہت سی جگہوں کی خاک چھاننی پڑتی ہے۔ ایک ایسے محکمے اورادارے جس سے شناختی کارڈرینیوکرانے کے لئے ایسے شہری کوبھی جواس ملک کااصلی ونسلی شہری ہواوراس کاپہلے قومی شناختی کارڈبنابھی ہوپھربھی کئی مراحل سے گزرناپڑے اس محکمے اورادارے میں کوئی شخص جعلی ڈگری پرڈی جی کیسے بن سکتاہے؟ ہمیں اچھی طرح یادہے آخری بارجب ہم اپناشناختی کارڈرینیوکرانے نادرا گئے توایک کمپیوٹرازفارم ہمیں تھمانے کے ساتھ یہ افسرشاہی احکامات بھی ساتھ جاری ہوئے کہ اس فارم کوگریڈاٹھارہ کے کسی افسرسے تصدیق کرکے لایاجائے۔
جس محکمے اورادارے کواپنے ہی جاری کردہ شناختی کارڈوکاعذات اورمتعلقہ شخص کے اصلی ونقلی کاپتہ نہ ہووہاں پھرجعلی ڈگریوں پرڈی جی بھرتی نہیں ہوں گے تواورکیاہوگا؟ یہ ہمارے اداروں کاحال ہے کہ اپنے ہی جاری کردہ کارڈاورکاعذات پربھی انہیں یقین نہیں ہوتا۔ ان ہی کے جاری کردہ کارڈاورکاعذات جب دوبارہ ان کی طرف جاتے ہیں تویہ انہی کاعذات کوپھرسے گریڈاٹھارہ کے افسرسے تصدیق کروائے بغیرنہیں رہ سکتے۔
کیاگریڈاٹھارہ کاایک آفیسران اداروں اورمحکموں کے جاری کردہ کارڈ، اسناداورکاعذات سے زیادہ طاقتورہوتاہے۔ جوکارڈ، اسناداورکاعذات گریڈانیس اوربیس کے آفیسرکے دستخط اورحکم سے جاری ہوئے ہوں انہیں پھرگریڈاٹھارہ کے افسرسے تصدیق کرانے کاکیاتک بنتاہے؟ نادراکی طرح تعلیمی بورڈاوردیگرکئی اداروں ومحکموں کابھی یہی حال ہے۔ جواسنادوکاعذات ان بورڈاوراداروں سے جاری ہوتے ہیں وہی اسناداورکاعذات جب دوبارہ ان کی طرف جاتے ہیں توآگے سے گریڈاٹھارہ کے آفیسرسے تصدیق کرانے کے ایسے احکامات جاری ہوتے ہیں کہ جیسے یہ اسناداورکاعذات پہلے کسی اوربورڈیاادارے سے جاری ہوئے ہوں۔
کارڈ، اسناداورکاعذات کی اس طرح تصدیق پرتصدیق کرانے کے بعدبھی ان اداروں اورمحکموں کااپنایہ حال ہے کہ نہ صرف لوگ جعلی ڈگریاں اٹھاکران میں ڈی جی اوراے ڈی بھرتی ہوجاتے ہیں بلکہ ان اداروں ومحکموں سے دونمبرلوگوں کواصلی کارڈ، اسناداورکاعذات بھی جاری ہوجاتے ہیں۔ اس ملک کے اصلی ونسلی باسیوں وغریب لوگوں کوایک ایک کاعذتصدیق کرانے کے لئے گریڈاٹھارہ کے آفیسرکے پیچھے دوڑانے اورگھمانے کے بعدبھی ان اداروں اورمحکموں کااگراصل ونقل پہچاننے کایہ معیاراوریہ حال ہے توپھرہمیں ان اداروں کی کارکردگی پرایک بارفاتحہ پڑھ لینی چاہئیے۔
نادرامیں جعلی ڈگری پرلوگوں کا اصل شجرہ نسب چیک کرانے والے ڈی جی نے اس نظام سے نقاب اتاردیاہے۔ اب ہماری آنکھیں کھلنی چاہئیے کہ مسئلہ باہرسے آنے والے غریب سائلین یاان کے کاعذات میں نہیں بلکہ مسئلے کی اصل جڑکہیں اندرہی ہے۔ جہاں ادارے کے اپنے ہی جاری کردہ کاعذات پرگریڈاٹھارہ کی دوبارہ مہرلگنے کے بغیرکسی کاکارڈنہ بنے وہاں جعلی ڈگری پرکوئی ڈی جی کیسے بن سکتاہے؟ سرکاری اداروں اورمحکموں میں آنے والے غریب سائلین کے کاعذات کی جس طرح سختی کے ساتھ جانچ پڑتال کی جاتی ہے اس سے ڈبل بلکہ ٹرپل سختی اورسنجیدگی سے ان اداروں میں بھرتی ہونے والوں کی تحقیقات ہونی چاہئیے۔
ان اداروں میں دونمبریاں، فراڈاورنوسربازیاں بھی تب ہوتی ہیں جب ان اداروں میں جعلی ڈگریوں اورغیرقانونی طریقوں سے اعلیٰ عہدوں پرافسرآتے ہیں۔ جوبندہ خودجعلی ڈگری کاسہارہ لیکرافسربنے گاوہ پھراس محکمے اورادارے میں جعلسازی کوفروغ نہیں دے گاتواورکیاکرے گا؟ یہ ادارے، محکمے اورہمارایہ نظام غریبوں کے کاعذات گریڈاٹھارہ کے آفیسرسے تصدیق کرانے سے ٹھیک نہیں ہوگااس نظام، اداروں اورمحکموں کوٹھیک کرانے کے لئے ہمیں نوسرباز، فراڈی، جعلسازاوربے ایمانوں کی جگہ دل ودماغ میں خوف خدارکھنے والے ایمانداروں کوآگے لاناہوگاجب تک جعلی ڈگریوں پران محکموں اوراداروں میں ڈی جی بنتے رہیں گے تب تک اس نظام کاکچھ نہیں ہوسکتا، یہ غریب اوراس ملک کے اصلی ونسلی شہری گریڈاٹھارہ کے آفیسرسے سائن کرانے کے لئے یونہی ذلیل وخوارہوتے رہیں گے۔