اِسے ہم تماشہ نہ کہیں تو اورکیا کہیں جو دو ڈھائی برس سے ہمارے ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔ کوئی بھی کام عوام کی بہبود اور بھلائی کے لیے نہیں کیا جا رہا۔ بس حکومت اور اپوزیشن کبڈی کبڈی کا میچ کھیل رہی ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق کی ٹیم کو زک پہنچا کر اپنی جیت کا جشن مناتا ہے اور پھر دوسرا فریق پہلے فریق کو اِسی طرح شکست دیکر ہاہوکرتا دکھائی دیتا ہے۔
سینیٹ کے ارکان کے انتخاب سے لے کر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن تک کبھی اپوزیشن معرکا سرکرتی ہے توکبھی حکومت اپنا ہاتھ دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی بڑا کام سر انجام نہیں دیا جا رہا۔ ملک میں کوئی بڑا اور قابل ذکر پروجیکٹ ابھی تک شروع ہی نہیں ہوسکا۔ سارے منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود اور محفوظ ہے۔ ہاں اگر وزیراعظم کے ہاتھوں کسی پروجیکٹ کا افتتاح ممکن ہوا ہے تو وہ شیلٹر ہومز اور لنگر خانوں کا ہے جو اِس سے پہلے ہمارے بہت سے فلاحی ادارے بخوبی سر انجام دیتے آئے ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک کو اپنے ملک کے بنائے ہوئے موبائل فون ایکسپورٹ کررہی ہیں اور ہم زکوٰۃ و خیرات جیسے ادارے بنانے میں اپنی توانائی خرچ کررہے ہیں۔ نہ پی آئی اے کی حالت بدلی ہے اور نہ ریلوے کی۔ سڑکوں اور شاہراہیں بنانے سے تو حکومت کو پہلے ہی چڑ تھی اور وہ اِسے کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری نہیں سمجھتی ہے۔
وزیراعظم کہا کرتے تھے کہ اسکول اور اسپتالوں کی تعمیر حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، مگر اِس شعبہ میں بھی ہم نے ابھی تک کوئی کام ہوتا نہیں دیکھا۔ توانائی کے جو منصوبے گزشتہ حکومتوں نے لگائے تھے اُن میں نقائص اورکرپشن کے سراغ تو ضرور لگائے گئے لیکن پشاور میٹرو بس پروجیکٹ پر ہونے والے اخراجات کے بارے میں مکمل خاموشی اختیارکر لی گئی ہے۔ کراچی شہر جس نے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں دلوائی تھیں اُس کے لیے بھی 1100 ارب روپے دینے کا وعدہ بھی ابھی تک وفا نہیں ہوسکا۔ کے فور منصوبہ جو پہلی حکومتوں نے بنایا تھا، اُس کے لیے بھی فنڈزکے اجراء کی ابھی صرف منظوری ہی دی گئی ہے۔ فنڈزکے ریلیز ہونے میں نجانے کتنے سال اور لگیں گے۔ ریلوے کے دہرے ٹریک کا M1 منصوبہ بھی شیخ رشید کے جاتے ہی فائلوں میں گم ہوچکا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی تماشوں کی۔ ایسے تماشے جن سے قوم کے لوگوں کو تفریح تو مل سکتی ہو لیکن دیرپا فوائد حاصل نہ ہوسکتے ہوں۔ 2014 میں ڈی چوک سے شروع ہونے والا تماشہ ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔ کبھی قوم کو مرغی انڈوں اور بھینسوں، کٹوں کے پروجیکٹس کی اہمیت کا بتایا جاتا ہے توکبھی گائے سے 12 کلو دودھ نکال کر انقلاب لانے کی نوید سنائی جاتی ہے۔
اپوزیشن کو NRO نہ دینے کا سنتے سنتے لوگوں کے کان پک چکے ہیں، اپوزیشن کے بہت سے لوگوں کو گرچہ کچھ مہینوں کے لیے پابند سلاسل تو کر دیا گیا لیکن پھر وہ سارے کے سارے عدم شواہد اور ثبوت کی وجہ سے اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوتے چلے گئے۔ اب صرف ایک شہباز شریف اور خورشید شاہ حکومت کی تحویل میں ہیں لیکن لگتا ہے وہ بھی باقی افراد کی طرح ایک دن پھر عوام کے بیچ ہوں گے۔ اُن سے لوٹے گئے ایک پیسے کی بھی وصولی ممکن نہیں ہو پائی، اُلٹا سارے ملزمان نیب کی واشنگ مشین سے دھل دھلا کر اور پاک صاف ہوکر عوام کی نظروں میں پہلے سے زیادہ معتبر اورسرخرو ہوتے جارہے ہیں۔
ڈھائی سال اِسی معرکا آرائی میں گذرچکے ہیں اور اگلے دو ڈھائی سال بھی اسی طرح گذر جائیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں کبھی کبڈی، کبھی ملاکھڑا اورکبھی پنجہ آزمائی میں وقت گذار دیں گے اور قوم کو 2023 میں پتا چلے گا کہ وہ باقی دنیا سے دس پندرہ سال پیچھے رہ گئی۔
معیشت کا حال پہلے سے بھی زیادہ بد تر اور برا ہوگا اور قوم کے گلے میں آئی ایم ایف کا طوق یونہی لٹکا رہے گا۔ عالمی قوتوں کی مرضی ومنشاء کے مطابق ہم کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کے دنوں سے نہ کبھی باہر نکل سکیں گے اور نہ کبھی ایک باعزت قوم کی طرح زندگی گزار پائیں گے۔ یہ سی پیک کی بدولت سنہرے دنوں کے خواب نہ صرف تشنہ تعبیر ہی رہیں گے بلکہ شاید جگ ہنسائی کا بھی باعث بنیں گے۔ برادر دوست ملک چائنا مایوس اور بدگماں ہوکرکسی اور روٹ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوگا اور پھر ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ اِن ساری ناکامیوں کا ذمے دار قوم کسے ٹہرائے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ہم ابھی تک سقوط ڈھاکا کے اصل ذمے داروں کا تعین نہیں کر پائے تو پھر یہ توبہت معمولی سا گناہ قرار پائے گا۔
قومیں اپنی ترقی وخوشحالی کے پانچ دس سالہ منصوبے بنایا کرتی ہیں مگر ہم اپنی بربادی اور تباہی کے منصوبے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے ہیں۔ ہماری ساری کوشش اور توانائی اِسی میں خرچ ہوتی ہے کہ کس طرح سابقہ حکومتوں کے منصوبوں کوتباہ و برباد کیا جائے۔ موٹر ویز سے گذرتے ہیں لیکن اُس منصوبے کے کار سازکی کوششوں کا اعتراف کرنے میں اپنی ناکامی اور رسوائی کا خدشہ اور احتمال رہتا ہے۔ ہم میں اتنی جرأت وہمت ہی نہیں کہ خوشدلی سے اس کے کارناموں کا ذکرکر پائیں۔
پی ٹی آئی اب دونوں پارلیمانی ایوانوں میں اپنی عددی برتری کا مقابلہ جیت چکی ہے۔ لہٰذا اب اُسے قوم کی حالت زارکی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ قوم مہنگائی اور بیرروزگاری سے تنگ آچکی ہے۔ وہ اب مزید دلکش اور سنہرے وعدوں پرزندگی گذار نہیں سکتی۔ اُسے ریلیف چاہیے، ایسا ریلیف نہیں جو صرف یوٹیلٹی اسٹوروں سے ملتا ہو اور جو صرف چند دنوں کے لیے ہو۔ وہ 2018ء میں جن سہولتوں سے مستفید ہو رہی تھی وہی اُسے لوٹا دی جائیں۔ چینی اور آٹے، گھی اور تیل کی جو قیمتیں آج سے دو ڈھائی سال قبل تھیں وہ اگر نہیں دے پاتے تو کم ازکم دگنی تو نہ کریں۔ جنوبی ایشاء کے جس خطہ میں ہم رہ رہے ہیں، اطراف کے تمام ممالک میں اشیاء ضروریہ کے دام سب سے زیادہ ہمارے یہاں ہی ہیں۔
کوڈ 19 کی تباہی اور اُس سے نمٹنے میں ناکامی پر بھارت کا ذکر تو ہم بڑی تندہی سے کرتے ہیں لیکن مہنگائی کے اعداد و شمار ظاہرکرتے ہوئے ہمارے پیمانے نجانے کیوں چپ ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے مہنگی بجلی ہماری قوم استعمال کررہی ہے۔ خدارا کچھ کیجیے۔ اپوزیشن سے مقابلہ کرنا ہے تو قوم کوریلیف دیکر ہی کیا جائے۔ ورنہ یاد رکھیں اِس ساری لڑائی اور محاذ آرائی کا نتیجہ خود حکومت کی تباہی کی شکل میں سامنے آئے گا۔