پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی ساری سیاست کا محور مسلم لیگ نون کی مخالفت اور اُس پر شدید تنقید ہے، ایسا کیوں ہے؟ بقول خان صاحب کے وہ کرپشن کے بہت بڑے مخالف ہیں، اگر ایسا ہے تو اُنہیں پیپلز پارٹی کی بھی اتنی ہی مخالفت کرنی چاہیے تھی جتنی وہ مسلم لیگ نون کی کرتے آئے ہیں۔ اگر نواز لیگ کی حکومت پر کرپشن کے الزامات ہیں تو پیپلز پارٹی پر بھی ایسے الزامات تھے اور ہیں۔
قرضے سب نے لیے، خود پی ٹی آئی قرضے لینے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی ہے، بلکہ حالات کا بے باکانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو پی ٹی آئی حکومت نے اپنے اِن ڈھائی سالوں میں پچھلی دونوں حکومتوں سے زیادہ قرضے لے لیے ہیں جب کہ " لگایا بھی کچھ نہیں۔" یہ لنگر خانے اور شیلٹر ہومز قومی ترقی کے پروجیکٹس ہرگز شمار نہیں کیے جاسکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو اِن سے قوم کو مفت کی روٹی توڑنے کا عادی اور محتاج بنایا جارہا ہے۔ قائد تحریک انصاف کا دعویٰ تھاکہ قوم میٹرو بس، سڑکیں اور شاہراہیں بنانے سے نہیں بنتی۔ قوم کو اچھے اسکول اور اسپتال چاہیے ہوتے ہیں۔ ہم برسر اقتدار آئیں گے تو عوام کو اُن کی ضروریات کی چیزیں فراہم کریں گے۔ اُنہیں اچھی تعلیم کے موقعے فراہم کریں گے، ایسے اسکول بنائیں گے جن میں امیر اور غریب کے بچے یکساں طور پر تعلیم حاصل کر پائیں۔ ایسا نہیں ہوگا کہ غریب کے لیے کوئی اور اسکول اور امیرکے بچوں کے لیے کوئی اور اسکول۔
پی ٹی آئی کے اِن ڈھائی سالوں میں ہم نے کوئی ایسا قابل ذکر پروجیکٹ نہیں دیکھا جس سے قوم کو کوئی دور رس فائدہ ہوتا دکھائی دیتا ہو۔ وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے ایسے پروجیکٹس شروع کیے جن سے اُنہیں اگلے الیکشن میں جیتنے کا موقع ملے۔ کسی نے اگلی نسلوں کے لیے نہیں سوچا۔ حالانکہ دیکھا جائے توموٹر وے کا منصوبہ کوئی چند سالہ منصوبہ نہیں تھا۔ یہ 1990 میں میاں نوازشریف نے شروع کیا تھا اور جس سے ہم سب آج بھی مستفید ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ آیندہ بھی ہوتے رہیں گے۔
شروع شروع میں اُن کے سیاسی مخالفوں نے اِس پروجیکٹ کی مخالفت کی تھی لیکن آج یہ ہمارا ایسا سرمایہ بن چکا ہے جو ہماری اگلی نسلوں کے لیے بھی مفید اورکارآمد ثابت ہوگا۔ میاں نوازشریف نے اگر قرضے لیے تواُنہیں کسی حد تک ملکی ترقی کی مد میں استعمال بھی کیے، وہ جب 2013ء میں برسراقتدار آئے تھے تو ملک بھرمیں دہشت گردی کا راج تھا۔ کراچی شہر اپنے لوگوں کی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا تھا۔ سارے ملک میں بجلی کی قلت کی وجہ سے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔ اِن سب مسائل سے بہتر انداز میں نمٹنے کے علاوہ میاں صاحب کی حکومت نے مہنگائی کو بھی کافی حد تک قابو میں رکھا ہوا تھا۔ ڈالر کی قیمت بھی بڑھنے نہیں دی تھی۔ سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر بھی تیزی سے کام ہورہا تھا۔ یہ کوئی ایسا عارضی منصوبہ نہیں تھاجسے پانچ برس میں مکمل کرکے اگلے الیکشن میں کوئی کامیابی حاصل کرنا مقصود ہوتا، اِسے 2030 میں مکمل ہونا تھا۔
پی ٹی آئی کی مسلم لیگ سے مخالفت کی اصل وجہ کرپشن ہرگز نہیں ہے۔ کرپشن ہوتی تو وہ پیپلزپارٹی کی بھی اتنی ہی مخالف ہوتی جتنی وہ مسلم لیگ نون کی ہے۔ اِس کی اصل وجہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اُس کی وہ مقبولیت ہے جو تمام ترکوششوں اور مخالفتوں کے باوجود ابھی کم نہیں کی جاسکی۔ یہ بات قطعی طور پردرست نہیں ہے کہ پنجاب میں تیس سالوں سے مسلسل حکومت کرنے کی وجہ سے بیوروکریسی اور انتظامیہ اُس کے تابعدار بن چکی ہے۔ اول تو یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ نواز لیگ مسلسل تیس سالوں سے پنجاب میں حکومت کرتی آئی ہے۔
پرویزمشرف کے نو سالہ دور میں وہ ہرگز پنجاب میں برسراقتدار نہ تھی۔ اُس کی مقبولیت کی وجہ وہ کام ہیں جو میاں شہباز شریف کے دور میں ہوئے۔ پی ٹی آئی اگر چاہتی تو اُن سے اچھے کام کرکے عوام پر چھایا ہوا اس کا یہ اثر ختم کرسکتی تھی، لیکن سوچاجائے کہ آخرکیاوجہ ہے کہ پنجاب تو پنجاب باقی سارے ملک میں بھی عوام موجودہ حکومت سے نالاں اور خفا دکھائی دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں اگر عوام پر مہنگائی کاعذاب نہ ا ہوتا اور انھیں سابقہ ادوارکی نسبت بہتر سہولتیں فراہم کی ہوتیں توکوئی وجہ نہ تھی کہ لوگ میاں نوازشریف کوبھول جاتے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتیجے سے یہ بات اور بھی واضح ہوتی ہے کہ اگرپی ٹی آئی نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا اور عام لوگوں کو ریلیف فراہم نہیں کیا تو2023 کے انتخابات میں اُسے بڑی مشکل کا سامنا کرنا ہوگا۔
اپنی ناکامیوں اورنا اہلیوں کا ملبہ مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت پر ڈالنے کا حربہ اب مزید کار آمد نہیں رہے گا۔ عوام کارکردگی اورریلیف مانگتے ہیں۔ اُنہیں اِس سے کوئی سروکارنہیں کہ موجودہ حکومت ایمانداروں کے ہاتھ ہے۔ اُنہیں تو دو وقت کی روٹی چاہیے، جب روزگارہی باقی نہ رہے اورگھر میں چولہا نہ جلے توایسے غریبوں کے لیے تو ہر حکومت بری ہوگی۔ سابق دور میں اُنہیں 35روپے کلوآٹا، 53 روپے چینی اور155روپے گھی مل جایاکرتا تھا۔
آج یہ ساری چیزیں تقریبا دگنی قیمت پر مل رہی ہیں اور ذرایع آمدنی بھی ناپید کردیے گئے ہیں۔ ایسے میں عوام کیونکر جئے عمران کے نعرے لگا سکتے ہیں، جس دور میں بجلی کے ریٹ ہرہفتے بڑھ رہے ہوں اور پٹرول بھی عام آدمی کی پہنچ سے بار ہوتا جا رہا ہو۔ وہاں غریب کے دل اورانتڑیوں سے حکومت کے لیے دعائیں کیونکر نکلیں گی۔
رہ گیا سوال کہ کرپشن کس دور میں زیادہ تھی توعالمی ادارے کی ایک رپورٹ سے ثابت ہوچکا ہے کہ آج کرپٹ ممالک کی فہرست میں ہمارا نمبر میاں صاحب کے دورسے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ کس نے کتنے قرضے لیے اورکتنے ملک اور عوام پرخرچ کیے۔ یہ بھی سب کے سامنے واضح ہوتا جا رہا ہے۔ اِن سارے قرضوں کے بعد اگرعوام پر مہنگائی کو بوجھ نہ ڈالا جاتا تو شاید عوام برداشت کرلیتے۔ آج اگر ایک مکمل غیر جانبدارانہ سروے کیا جائے تو یقینا معلوم ہو جائے گاکہ اِس ملک کا غریب اور متوسط طبقہ موجودہ حکومت کے دور میں سخت مالی مشکلات سے دوچار ہوا ہے، موجود حکومت کے حامی امیر اور مالدار گھرانے ہوسکتے ہیں جنھیں اپنے گھرکے خرچ کے لیے کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔
یہی وہ ماڈرن فیمیلیز ہیں جو دھرنے والے دنوں میں ہر شام خان صاحب کے دھرنے کی رونقیں بڑھانے ڈی چوک پہنچ جایا کرتی تھیں، وہ فیمیلیز پہلے بھی خان کی پرسنلٹی اور اسٹارڈم سے بے حد متاثر تھیں اور ابھی تک متاثر ہیں، پی ٹی آئی کے جلسوں میں جوق درجوق شرکت کرنے والے ماڈرن گھرانوں کے لوگ ہمیں پی ڈی ایم کے جلسوں میں نظر نہیں آتے۔ عوام کے اندر اگر اپنی جڑیں مضبوط کرنی ہے اور مسلم لیگ نون کا توڑ پیدا کرنا ہے تو پھر کارکردگی دکھانا ہوگی۔ غریب کے سکھ وچین کا سامان پیدا کرنا ہوگا۔
ملک میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا ہوں گے اور نفرت و اشتعال کی سیاست کو خیر باد کہنا ہوگا۔ بیان بازی اور پروپیگنڈہ کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لینا ہوگا۔ کسی دوسرے کی بیساکھی استعمال کرنے کے بجائے خود اپنے پیروں پرکھڑا ہونا ہوگا۔