ستائیس دسمبر 2020ء کی شام لاڑکانہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعہ پر سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے ایک مختصر سے خطاب میں جس طرح کھل کر پی ڈی ایم کے لوگوں کو سمجھایا تھا کہ حکومت مخالف تحریک اِس طرح نہیں چلائی جاسکتی ہے۔
کچھ سیکھنا ہے تو ہم سے سیکھو۔ ہم تمہیں بتائیں گے کہ تحریک کس طرح چلتی ہے، جس کے بعد پی ڈی ایم بھی کچھ سنبھل گئی اور نہ صرف سینیٹ کے الیکشن سے پہلے استعفے دینے سے باز آگئی بلکہ ضمنی انتخابات میں بھی حصہ لینے پر آمادہ ہوگئی۔
دسمبر کی ڈیڈلائن گذر جانے کے بعد پی ڈی ایم کی صفوں میں مایوسی پھیلنے لگی تھی اور جس کی وجہ سے ایسا لگنے لگا تھاکہ وہ حکومت پردباؤ ڈالنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، ایک بار پھر سے اُس میں جان پڑ گئی اور وہ حکومت جو اپوزیشن کے جلسوں سے گھبرانے کے بجائے فرنٹ فٹ پرکھیلنے لگی تھی، پچھلے ایک ماہ سے کچھ کچھ گھبرانے لگی ہے۔
خاص کر سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں حفیظ شیخ کی شکست نے تو اُسے ہلاکررکھ دیا، وہ عمران خان جو اس الیکشن سے پہلے کہاکرتا تھا کہ اگرالیکشن خفیہ بیلٹ کی بنیاد پر لڑے گئے تو اپوزیشن پہلے سے زیادہ روئے گی، مگر سب نے دیکھا کہ الیکشن کے نتائج آجانے کی بعد کون رویا اورکون پریشان ہوا۔ حفیظ شیخ اپنی شکست سے اتنے غم زدہ اور پریشان نہ تھے جتنے وزیراعظم صاحب۔ انھیں غم تھا کہ حکومت میں رہتے ہوئے اورقومی اسمبلی میں عددی برتری کے باوجود وہ یہ ایک انتہائی اہم سیٹ ہارگئے۔
وہ اپنی ناکامی کی ساری وجہ الیکشن کمیشن پر ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ چاہتے تو اتنا غم وغصہ دکھانے کے بجائے نتائج کو خوشدلی سے قبول کر لیتے اور جو انھیں بالآخر قبول توکرنا ہی پڑے اورخواتین کی مخصوص نشست پرکامیابی ہی کو اپنا ووٹ آف کانفیڈینس سمجھ لیتے تو بہتر ہوتا۔
آصف علی زرداری نے جس دن سے پی ڈی ایم کو اپنی بتائی ہوئی تدابیر کے مطابق چلنے پر آمادہ کیا ہے، اُس دن سے ملکی سیاست میں کچھ ہلچل سی مچ چکی ہے، وہ وزیراعظم جسے اپنے مضبوط اورناقابل شکست ہونے کا بہت زیاد ہ ہی یقین تھا وہ اب کچھ کچھ لڑکھڑانے لگا ہے۔ جب کہ دوسری جانب پی ڈی ایم کے اندر اعتماد قائم اور مستحکم ہونے لگا ہے۔ آصف علی زرداری کی سوچ اور بصیرت کے ہم تو پہلے ہی سے قائل اور معترف ہیں۔ پاکستان میں کوئی اور سیاستداں اُن کی دوراندیشی اور سمجھ داری کو پہنچ ہی نہیں سکتا۔
تمام سیاستدانوں کی سوچ اورمنصوبہ بندی جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے آصف علی زرداری کی شروع ہوتی ہے۔ اُن کی ساری زندگی اورساری سیاست اُن کی ایسی ہی ماہرانہ کارکردگی کامجموعہ ہے، وہ جس طرح سیاسی میدان میں داخل ہوئے اورکامیابیاں سمیٹتے ہوئے ملک کے سب سے اہم منصب یعنی عہدہ صدارت کے لوازمات سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہ ہم سب کے لیے حیران کن اور ناقابل یقین ہی ہے۔ انھوں نے جس طرح 2008 میں محترمہ کی ناگہانی شہادت کے غم کو اپنے اوراپنی پارٹی کے حق میں بدل ڈالااور پھر پرویز مشرف کو طوعا ً وکرہاً استعفیٰ پرمجبورکردیا، وہ اُن کی ذہانت اور حکمت عملی کی عمدہ مثال ہے۔
انھوں نے میاں نوازشریف کی تمام زیادتیوں کا بدلہ بھی جب جب موقعہ ملا اچھی طرح چکا دیا۔ سابقہ نواز شریف دور میں خان صاحب کے دھرنے والے دنوں میں انھوں نے اگر میاں صاحب کی حکومت کا ساتھ دیا تھا تو وہ اُن سے یہ توقع بھی کرتے تھے کہ میاں نوازشریف اُن کے ساتھ ایسے ہی جذبہ خیرسگالی کا مظاہرہ کریں گے، لیکن میاں صاحب نے ایک موقعہ پرطے شدہ ملاقات سے اچانک انکار کردیا۔ اُس انکار کے پس پردہ محرکات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن زرداری صاحب نے اُسی وقت ٹھان لیا تھاکہ وہ میاں صاحب کے ساتھ حساب ضرور برابر کریں۔
بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا ایک ممبر بھی نہ ہونے کے باوجود وہاں نون لیگی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے تحریک لاکر میاں نوازشریف کے زوال کی بنیاد رکھ دی۔ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی غرور اورتکبر نہیں کرنا چاہیے۔ اپنی پارٹی کے وہ ارکان جنھیں وہ بکاؤ مال کہہ کرنکالنے کا سوچ رہے تھے حالات کی ستم ظریفی نے اُنہی سے ووٹ آف کانفیڈینس لینے پر مجبورکردیا، وہ گرچہ آج جیت توگئے ہیں لیکن اگلے دوسال اُن کے لیے بہت کٹھن اورمشکل ہیں۔