سعودی عرب ہمارا دوست ملک ہے۔ چین بھی ہمارا دوست ہے۔ سعودی عرب مذہبی ریاست ہے، چین لامذہب ملک ہے۔ ہم بھی مذہبی ملک ہیں۔ کسی مذہبی ملک کا دوسرے مذہبی ملک سے دوستی اور یگانگت و الفت قابل فہم تعلق ہے لیکن ایک مذہبی ملک کا کسی لامذہبی ملک سے دوستی کیا حیران کن نہیں؟ ہم عقیدۂ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، چین نہیں رکھتا۔ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں، جنت اور جہنم پر ایمان ہے ہمارا۔ چین کا عقیدہ ایسا نہیں۔ پتہ نہیں چینی عوام خدا کے بارے میں سوچتے ہیں یا نہیں۔ ان کا سماجی مصلح اور پیمبر کنفیوشس تھا جس سے وہ آج بھی عقیدت رکھتے ہیں۔ لیکن کیا کنفیوشس کا خدا پر ایمان تھا؟ میں نے جتنا اس چینی مفکر و مصلح کو پڑھا ہے اس میں خدا کا تذکرہ اسی طرح نہیں ملا جیسے گو تم بدھ کے ہاں۔ گوتم بھی خدا کا نہ انکار کرتا ہے اور نہ اقرار۔ وہ خدا کے باب میں خاموش ہے۔ غالباً یہی معاملہ کنفیوشس کا بھی تھا۔ اہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی امت ایسی نہیں گزری جہاں خداوند تعالیٰ نے ہدایت کے لیے نبی نہ بھیجے ہوں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کی بعث کے بھی یہی معنی ہیں۔
آج مسلمان اور مسلم ممالک جن بحرانوں سے گزر رہے ہیں اس لیے ایک بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ خدا انصاف پسند ہے اور اکثر اوقات جزا و سزا کا فیصلہ دنیا میں ہی کردیتا ہے۔ ہمیں آزادی چین کے ری پبلک بننے سے دو سال پہلے ملی لیکن آج بھی مدد کے معاملے میں، ہر طرح کی سیاسی اور معاشی مدد کے لیے چین پر ہی ہمارا انحصار ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ چین کو ایسی مخلص اور بابصیرت قیادت ملی جس نے چینی عوام کو افیون سے نجات دلائی اور بقول اقبال گراں خواب چینی سنبھل گئے اور ایسے سنبھلے کہ جب ہم گرنے لگتے ہیں تو وہ ہمیں بھی سنبھلنے میں مدد دیتے ہیں۔ سعودی عرب ہمارا دوست اور ہمارا محسن ہے۔ ہمیں جب بھی معاشی امداد کی ضرورت پڑی ہے اس نے دل کھول کر امداد دی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اس کی دفاعی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن تازہ ترین صورتحال میں، جب ہماری حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے جغرافیائی نقشے میں شا مل کیا تو سعودی حکومت کو یہ عمل پسند نہ آیا اور اس نے اپنی وہ امداد واپس مانگ لی جو اس نے حال ہی میں کی تھی۔ مذہبی ملک نے یہ رویہ دکھایا اور لامذہبی ملک نے ہماری مدد کی اور ایک ارب ڈالر یہ کہہ کر دے دیا کہ اپنے محسن کو واپس کردو۔ یہ کیا ہے؟ عقل اس کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ جو جاہلیت میں اچھے تھے وہی اسلام لا کر۔ اسلام لانے کے بعد وہی اچھے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اچھائی انسان کے خمیر میں ہوتی ہے۔ جب حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جب تم یہ سنو کہ ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو تم اس پر یقین کرسکتے ہو لیکن جب یہ سنو کہ کسی آدمی کی فطرت بدل گئی ہے تو کبھی یقین نہ کرنا۔۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلاں قوم کو فطرت ایسی ہے، اچھی یا بری۔ چین اور حکمت عین تاریخ میں مشہور رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث چاہے ضعیف ہی سہی کہ علم حاصل کرنے کے لیے تمہیں چین بھی جانا پڑے تو ضرور جائو، یہ بتاتی ہے کہ چین ہر زمانے میں علم و حکمت کا منبع و ماخذ رہا ہے۔ آج کے چین اور اس کی حکمت عملی میں بھی وہی تدبر اور فراست نظر آتی ہے۔ چین کسی بھی ملک پر اپنے طاقت کے زعم میں حملہ آور نہیں ہوتا لیکن جو اس پر حملہ آور ہو وہ اس کے دانت کھٹے ضرور کردیتا ہے۔ کسی کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی طرح مداخلت نہیں کرتا۔ اسے خطے کا چوکیدار اور تھانیدار بننے کا بھی شوق نہیں۔
وہ اپنی اندرونی حالت کو بھی وقت اور زمانے کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ اشتراکیت خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کر رہی تو اس نے سرمایہ دارانہ معیشت کی اجازت دے دی اور اس نظام کو قبول کرلیا۔ اس نے جب دیکھا کہ کمیونسٹ پارٹی کو تن تنہا حکومت کا حق دینا مفید نہیں تو اس نے دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی کام کرنے کی اجازت دے دی لیکن طریقہ کار ایسا وضع کیا کہ حکومت کو کامیاب کرنے اس کی پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے دوسری جماعتیں بھی اپنی تجاویز اور مشورے دیں۔ جو تجاویز قابل قبول ہوں گی ان کو پالیسی کا حصہ بنا لیا جائے گا۔ اس طرح انہوں نے جمہوریت میں جوہری تبدیلی لا کے اس کی خرابیوں کو دور کیا اور اپنے لیے مفید بنا لیا۔ چین خارجہ پالیسی میں جب کسی کو دوست بناتا ہے تو اسے دوست ہی رکھتا ہے، اپنا غلام نہیں بناتا۔ وہ دوست کی آزادی کو اپنی مرضی کے تابع نہیں کرتا اس کی آزادی دیتا ہے کہ تم جس سے چاہے دوستی کرو یہاں تک کہ اس سے بھی دوستی کرسکتے ہو جو ہمارا دشمن ہے۔ کیا یہ آزادی ہمارے بہت سے مسلم ممالک ہمیں دیتے ہیں۔ کوئی مسلم ملک ہم سے اس لیے ناراض ہے کہ ہم امریکہ کے اتحادی کیوں ہیں؟ کوئی اس لیے خفا ہے کہ ہم نے اس ملک کے مفادات کو نقصان کیوں پہنچایا جس سے ہمارا تجارتی معاہدہ ہے؟ لیکن چین ایسا نہیں کرتا۔
اب سی پیک سے ہمارے اور چین کے تعلقات اور گہرے ہو گئے ہیں۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر نے اس دوستی کو اور مضبوط بنایا ہے لیکن اصل بات جس کے لیے ہم نے یہ سطور لکھی ہیں کہ آخر ہم چین سے اور اس کی حالیہ تاریخ سے کچھ سیکھتے کیوں نہیں۔ چین سے ہم اپنی معیشت کی بحالی کے لیے، اندرونی نظم و ضبط اور قوانین کے صحیح معنوں میں نفاذ اور دوسرے مسائل پر مشورے کیوں نہیں کرتے۔ دوست کس دن کے لیے ہوتے ہیں؟ کیا مشورہ کرنے میں کوئی سبکی ہے؟ اور وہ بھی ایسے دوست سے جس کی دوستی کے بارے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہ دوستی پہاڑوں سے بلند، شہد سے زیادہ میٹھی اور سمندروں سے زیادہ گہری ہے۔ ہاں اس خاکسار کی رائے میں ہمارے حکمرانوں کو چین سے نہ صرف سیکھنا چاہیے بلکہ اس سے اپنے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے مشورہ کرنا چاہیے۔