سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ایک سرکاری خط کی نقل بہت سے لوگوں نے مجھے واٹس ایپ کے ذریعے بھیجی۔ اس خط کے ذریعے ہمارے ہاں امن وامان یقینی بنانے والا ایک ادارہ ہمارے ذہنوں کو سیدھی راہ پر رکھنے والے ایک اور ادارے کو آگاہ کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی بے پناہ تعداد انٹرنیٹ کو فحش مواد ڈھونڈنے کے لئے جنونی انداز میں استعمال کررہی ہے۔
ہمارے اخلاق کے سرکاری محافظوں نے نہایت لگن سے فحاشی پھیلانے والی ویب سائٹس تک رسائی ناممکن بنادی تو فحش مواد کی علت کے مارے افراد نے وی پی این استعمال کرنا شروع کردئے۔ انٹرنیٹ کنٹرول کرنے والے اداروں کا لہٰذا یہ فرض ہے کہ وہ غیر قانونی وی پی این کا تن دہی سے تعاقب کریں۔ ان کی ایک حوالے سے چن چن کر ٹارگٹ کلنگ کرتے ہوئے اس امر کو یقینی بنائیں کہ وی پی این اسلام کے نام پر قائم ہوئے ملک میں فحاشی کو فروغ دینے کا سبب نہ بنے۔
جو خط مجھے دو دِنوں تک بے شمار لوگوں کی جانب سے ملتا رہا وہ کئی اعتبار سے مضحکہ خیز تھا۔ مجھ سادہ لوح نے فرض کرلیا کہ کسی چسکہ فروش نے ازخود یہ خط لکھ کر سوشل میڈیا پر پھیلادیا ہے۔ مقصد اس کا دنیا کو یہ تاثر دینا ہے کہ نظر بظاہر نیک اطوار کے مالک پاکستانیوں کی کثیر تعداد جیسی نظر آتی ہے ویسی نہیں۔ ان کی بے پناہ تعداد کو فحش مواد کی لت لگ چکی ہے۔ اس سے حظ اٹھانے کے لئے جنونیوں کی طرح مذکورہ مواد کو وی پی این کے استعمال سے تلاش کررہی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے توقع یہ بھی باندھ لی کہ جس ادارے کی جانب سے مبینہ طورپر یہ خط لکھا گیا ہے وہ سخت الفاظ میں اس کی تردید کردے گا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔
جس خط کا ذکرکررہا ہوں اس کے وائرل ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی جانب سے جاری ہوا ایک فتویٰ نما بیان آگیا۔ اس بیان نے "غیر قانونی" وی پی این کے استعمال کو "غیر شرعی" عمل قراردے دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے وی پی این کو "غیر شرعی" قرار دئے جانے کے باوجود وزیر اعظم شہباز سمیت چند وزراء کے ٹویٹر کے ذریعے رونما ہوئے چند خیالات کا اخبارات پڑھتے ہوئے پتہ چلا۔ ٹویٹر ہمارے ہاں بند کردیا گیا ہے۔
کبھی کبھار نہ جانے کیوں کچھ لمحات کے لئے کھول بھی دیا جاتا ہے۔ غالباََ اسے کھول کر حکومت جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ کونسے افراد وی پی این کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے لکھے خط نے مگر مجھے یہ سوچنے کو بھی مجبور کیا کہ وہ لوگ جو اسلام کے نام پر قائم ہوئے ملک میں بھی ہماری نیک نامی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انٹرنیٹ کو فحش مواد تک رسائی کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ وی پی این کو "غیر شرعی" ٹھہرائے جانے والے بیان پر توجہ کیوں دیں گے۔
اس کالم کے دیرینہ قاری گواہی دیں گے کہ میں کئی برسوں سے سوشل میڈیا کے پھیلائو کو تھوڑی تحقیق کے بعد اکثربیان کرتا رہا ہوں۔ بے شمار ممالک میں اس کی وجہ سے جو نسلی، مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ان کا ذکر بھی تفصیل سے اس کالم میں کئی بار ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت میری اپنی ذات بھی "لفافہ صحافی" مشہور ہوئی اور مجھے ایک کاروباری ادارے سے پلاٹ کے علاوہ لاکھوں روپے کا حامل بینک اکائونٹ بھی دلوادیا گیا۔ سوشل میڈیا کی بدولت دنیا بھر میں پھیلی خلفشار کا مسلسل ذکر کرتے ہوئے بھی لیکن ہمیشہ مصر رہا کہ اس کے مضراثرات کے تدارک کے لئے ہمیں برطانیہ جیسے ممالک میں رائج قوانین درکار ہیں۔ محض سخت گیر قوانین ہی تاہم مددگار نہیں ہوں گے۔ اصل مسئلہ جھوٹی خبروں کے ذریعے منافرت پھیلانے والوں کا بروقت پتہ چلاکر انہیں عدالت سے برق رفتاری کے ساتھ سبق آموز سزائیں دلوانا ہے۔
ہتک عزت کے قوانین ہمارے ہاں طویل برسوں سے قانون کی کتابوں میں موجود ہیں۔ "ہتک عزت" محسوس کرنے والے چند اہم پاکستانیوں کو مگر "انصاف" برطانوی عدالتوں سے ملا جب وہاں دکھائے کسی چینل پر انہیں بے بنیاد الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ ہمارے ہاں اس پہلو پر دیانتداری سے توجہ نہیں دی جارہی۔ بھاری بھر کم رقم کے استعمال سے ہمارے ذہنوں کو مضر خیالات سے محفوظ رکھنے کے لئے جو "فائروال" نصب ہوئی شرکا پھیلائوروکنے میں قطعاََ ناکام رہی۔ انٹرنیٹ کی سپیڈ اس کی وجہ سے مگر نہایت سست ہوگئی جس نے ہمارے رشک آمیز انداز میں انٹرنیٹ کی بدولت منافع کماتے اور پھلتے پھولتے نوجوانوں کو نقل مکانی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کو مجبور کردیاہے۔
ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد گزشتہ کئی برسوں سے ترک وطن کی خواہش میں مبتلا ہے۔ جمعہ کے روز میں نے ایک نوجوان سے تفصیلی گفتگو کی جو گھر کے اخراجات میں حصہ ڈالنے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے بائیکیا چلاتا ہے۔ صحافی کے روایتی تجسس کے ساتھ میں اس سے یہ جاننے میں مصروف رہا کہ اسے کس نوع کے کسٹمر ملتے ہیں۔ اس نوجوان نے یہ بتاتے ہوئے مجھے حیران کردیا کہ وہ اکثر پیرودھائی جاکر ان اڈوں کے قریب کھڑا ہوتا ہے جہاں دیگر شہروں سے لوگ چھوٹے موٹے کاموں کے لئے راولپنڈی یا اسلام آباد کے سرکاری دفاتر سے رابطوں کے لئے آتے ہیں۔
نوجوان کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ 6مہینوں کے دوران اس کا تقریباََ ہر دوسرا گاہک ایسے کاغذات کی تصدیق وغیرہ کے لئے اسلام آباد آیا جو بیرون ملک ملازمت کے حصول کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ ایسے عالم میں انٹرنیٹ کی بدولت گھر بیٹھ کر محض اپنے تخلیقی ذہن کے استعمال سے غیر ملکی زرمبادلہ کمانے والے نوجوانوں کو بددل کرنا ظالمانہ فعل ہے۔ ریاست کو ڈنڈا بردار باپ کی طرح اپنی رعایا کو شریر بچے ہی تصور نہیں کرنا چاہیے جو ہمہ وقت فحش مواد یا فیک نیوز کی تلاش میں رہتے ہیں۔
ہمارے اخلاق سنوارنے کے بجائے ریاست کو ہمیں حقوق کے حامل شہری تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمارے حقوق کا دیانتداری سے تسلیم کیا جانا ہی ہمیں بطور شہری ان فرائض پر توجہ دینے کو اُکسائے گا جن کی وجہ سے ہم ازخود ملک میں فتنہ وفساد کا فروغ روکنے کو ڈٹ جائیں گے۔ اس ضمن میں ہمیں سرکار مائی باپ کی رہ نمائی درکار نہیں ہوگی۔