گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز نے نیب کے چند قوانین کو خلاف اسلام اور خلاف آئین پاکستان قرار دیا۔ کیونکہ پاکستانی دستور اور اس کے ناقابل ترمیم پری ایمبل میں واضح اور دو ٹوک انداز میں درج ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو اسلام کی تعلیمات یا اس کی روح کے خلاف ہو۔
اور اس بات کا فیصلہ کہ کوئی قانون اسلامی عقائد کے مطابق ہے یا نہیں اس کا فیصلہ اسلامی نظریاتی کونسل کرے گی۔ یعنی یہی وہ مجاز ادارہ ہے جو کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے تحقیق، تفتیش اور گہرے مطالعے کے بعد نیب کے چند قوانین کو جو نیب آرڈی نینس کی دفعہ 14 ڈی، 15 اے اور دفعہ 26 ہیں کو غیر اسلامی قرار دیا اور یہی قرارداد اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے قبلہ ایاز نے اپنی پریس کانفرنس میں پیش کر دی۔
نیب آرڈی نینس کے مطابق جب کسی شخص پر الزام عائد کیا جائے تو یہ اس کی ذمے داری بن جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرے جب کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ ذمے داری الزام عائد کرنے والے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ شخص کو گناہ گار ثابت کرے اس لیے نیب آرڈی نینس کی یہ شق غیر اسلامی ہے۔
پھر الزام لگانے کے بعد ملزم کو گرفتار کر کے ہتھکڑی لگانا اور جیل میں رکھنا نیب قوانین کے مطابق جائز ہے اور اس پر ڈھٹائی سے عمل کیا جاتا رہا ہے جب کہ اسلامی قانون کے مطابق ہر ملزم جب تک اس پر الزام ثابت نہ ہو جائے معصوم ہے، اسے نہ ہتھکڑی لگائی جا سکتی ہے، نہ اسے جیل میں رکھا جا سکتا ہے، نہ اس کی اس طور تشہیر کی جا سکتی ہے۔
اسی طرح نیب کا آرڈیننس کے مطابق وعدہ معاف گواہ کا بھی ایک تصور ہے جو ہماری سول عدالتوں میں بھی رائج ہے۔ اسلامی قوانین کے مطابق وعدہ معاف گواہ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے کیونکہ وعدہ معاف گواہ اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے اور اسلامی قوانین کے تحت وہ اس کا اعتراف کرتے ہی سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق پلی بارگین بھی ایک غیر اسلامی طریقہ کار ہے۔
پلی بارگین میں ایک شخص کروڑوں کا غبن یا بد دیانتی کا مرتکب ہونے کے بعد لاکھوں دے کر چھوٹ سکتا ہے اور اسے غبن یا کرپشن کی سزا سے معافی مل سکتی ہے۔ اس طرح کی "بہ انداز رشوت" لین دین بھی اسلام کے منافی ہے۔ ان باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے قبلہ ایاز نے نیب آرڈیننس کی دفعات 14 ڈی، 15 اے اور 26 کو غیر اسلامی قرار دے دیا گویا یہ اسلام سے متصادم ہیں اور ان کو آرڈیننس سے حذف کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی کونسل نے بچوں سے زیادتی اور زبردستی تبدیلی مذہب کے سلسلے میں بھی قوانین میں سقم ان کا دستور سے متصادم ہونا قرار دیا ہے۔
اس کے لیے کسی شخص کا قانون داں، بارایٹ لا یا جج ہونا ضروری نہیں۔ جو شخص اسلامی تعلیمات سے ادنیٰ واقفیت رکھتا ہے وہ قبلہ ایاز کی یا دوسرے الفاظ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تمام باتوں کو تسلیم کرے گا اور ان سے اختلاف کرنے کی گنجائش تلاش و جستجو کے بعد بھی نہ پائیگا۔
مگر فواد چوہدری صاحب وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب بیان داغ دیا۔ چوہدری صاحب اپنی زبان درازی کے لیے شہرت رکھتے ہیں مگر وہ خود فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنی زبان کو کسی قدر قابو میں کر لیا ہے۔ اب وہ دانش ورانہ لب و لہجہ، انداز گفتار اور طرز فکر اختیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس لیے موصوف نے قبلہ ایاز کے بیانات پر ایک ماہرانہ تبصرہ کیا۔ ان کا فرمانا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں اب تک حکومت کی کوئی مدد ( اسے اسلام آشنا بنانے کے سلسلے میں ) تو کی نہیں اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ادارے پر کروڑوں روپیہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے۔ اگر کونسل ہی بنانا ہے تو "روشن خیال" اور جید علما کو ادارے میں لایا جائے۔
شکر ہے کہ انھوں نے کروڑوں روپے ضایع ہونے کے ڈر سے سرے سے اسلامی نظریاتی کونسل کو ہی تحلیل کرنے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ جدید تقاضوں سے واقف جید اور روشن خیال علما پر مشتمل ادارے کی ضرورت پر زور دیا۔ گویا ادارہ باقی رہنا ضروری ہے، بشرطیکہ روشن خیالی کا عنصر موجود رہے۔
یہ "روشن خیالی" بھی عجیب و غریب چیز ہے۔ اسلام دنیا کا سب سے روشن خیال دین ہے اسے کسی اور روشن خیالی کی ضرورت نہیں، البتہ ہمارے دانش ور جس "روشن خیالی" کی بات کرتے ہیں ان کا منشا اس روشن خیالی کا ہوتا ہے جو موم کی ناک کی طرح جب چاہے جدھر موڑ دی جا سکے اور جو:
"چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی"
کی عملی تفسیر ہو۔
جب یہ دانشور روشن خیالی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کا منشا شاید یہ ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں اور اسلام کو ان تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے لیینے کے لیے اس کی نئی صورت گری کی جانی چاہیے، چاہے اس کے نتیجے میں اسلام، اسلام ہی نہ رہے۔
ذرا یہ ظلم دیکھئے کہ خالق کائنات نے اسلام کو آخری دین قرار دیکر امت مسلمہ کے لیے پسند فرما لیا اور قیامت تک کے لیے انسانوں کی رہنمائی کا واحد ذریعہ قرار دیدیا۔ کیا اس خالق کو خاکم بدہن یہ معلوم نہ تھا کہ پندرہ سو سال بعد اس کے قوانین و اصول دنیا کے طرز زندگی کے مطابق نہ رہیں گے اور ان میں بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ سیدھی بات یہ ہے کہ اسلام کو عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی نئی صورتگری کے بجائے دنیا کو اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی ڈگر پر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اجتہاد کا مسئلہ اٹھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اجتہاد اس نام نہاد دانشورانہ فکر سے قطعی مختلف چیز ہے۔