زبان کا معاملہ بھی عجیب و غریب ہے ترقی یافتہ زبانیں تبدیلی آشنا ہوتی ہیں اور یہی تبدیلی ان کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زبان میں تبدیلی کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ جہالت بھی ہے۔ بتقاضائے جہالت بعض اوقات زبان میں عجیب وغریب تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اگر وہ لگاتار زیر استعمال رہیں تو وہی جہالت زبان کا حصہ بن جاتی ہے اور زبان میں تبدیلی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال اردومحاورہ لن ترانیاں ہانکنا ہے۔ میرے پیش نظر اس وقت وارث سرہندی کی علمی اردو لغت ہے۔
اس میں " لن ترانی" کے لفظی معنی " تو مجھے کبھی نہیں دیکھ سکے گا" لکھے ہوئے ہیں جو خداوند تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کہے تھے مگر اسی کے ساتھ مرادی معنی خود ستائی، انانیت، شیخی، ڈینگ دیے ہوئے ہیں۔ اسی سے محاورہ بنا لن ترانیاں ہانکنا۔ اس محاورے کے معنی شیخی بگھارنا دیے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے مرادی معنی عربی سے ناواقفیت کی بنا پر متعین کیے گئے ہیں۔ ورنہ یہ فقرہ بے ادبی (کم سے کم) کی تعریف میں آتا۔ یہ کم علمی یا بے علمی اس طرح رائج ہوئی کہ لفظ اور محاورہ دونوں اردو زبان کا حصہ بن گئے۔
صرف مرادی معنی لے کر ہی اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معنی اس وقت وضع کیے گئے ہوں گے جب برطانوی سرکار ہمارا تعلق عربی فارسی سے ختم کرنے پر تلی ہوئی تھی اور نافہمی کی بنیاد پر اس کے لفظی معنی پر غور نہیں کیا گیا اور مرادی معنی لے کر اسے زبان کا حصہ بنا دیا گیا۔
ایک اور مثال ریل گاڑی کی ہے۔ جب برصغیر میں یہ گاڑی آئی تو ریل گاڑی کہلاتی تھی مگر پھر ہوا یہ کہ ٹرین کو ریل کہا جانے لگا اور ریل کو پٹری۔ یعنی اردو میں ریل گاڑی ہے اور جس پر یہ چلتی ہے وہ پٹری ہے۔
لیکن زبان میں تبدیلی کی وجوہات بعض وقت مفرد نہیں مرکب ہوتی ہیں یعنی ایک سے زیادہ اسباب بیک وقت کارفرما ہوکر زبان میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں، اب یہ اہل زبان پر منحصر ہے کہ وہ ان تبدیلیوں کو گوارا کرتے ہیں یا مسترد کر دیتے ہیں۔ خیال رہے کہ بعض اوقات غلط تلفظات، غلط معنی اور غلط استعمالات اہل زبان کی گرفت سے نکل جاتے ہیں اسے ہم غلط العام کہتے ہیں اور جب کوئی لفظ، الفاظ یا محاورات غلط العام ہوجائیں تو تھک ہارکر اہل زبان بھی اسے تسلیم کرلیتے ہیں۔ یہ ذہن میں بہرحال رکھنا ضروری ہے کہ غلط العوام اور غلط العام میں بڑا فرق ہوتا ہے اورغلط العوام کبھی معیاری زبان کا حصہ نہیں بنتے۔
اب آئیے ان الفاظ کی طرف جو پہلے سے ہماری زبان کا حصہ ہیں مگر ان کے تلفظ، جنس یا عدد کو ہم محض اپنی لاعلمی سے تبدیل کرنے پر تل پڑے ہیں اور جن کا سدباب کیا جانا ضروری ہے۔
"عوام چیخ رہی ہے، چلا رہی ہے کوئی سننے والا نہیں بالآخر عوام سڑکوں پر آجائے گی" ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام واحد مونث ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عوام جمع مذکر ہے اور جملے یوں بنیں گے "عوام چیخ رہے ہیں، چلا رہے ہیں کوئی سننے والا نہیں، بالآخر عوام سڑکوں پر آجائیں گے" یہ تبدیلی پچھلے چند سالوں میں واقع ہوئی ہے۔
اس میں صرف کم علمی کو دخل نہیں بولنے یا لکھنے والے کے ذہن میں لفظ "پبلک" ہے اور اس کے متعلقات۔ انگریزی لفظ پبلک ہمارے یہاں واحد مونث ہے۔ اب پبلک سے عوام پر منتقل ہونے پر انگریزی گرفت رکھنے والے ذہن نے عوام کو بھی واحد مونث بنا دیا ہے جو بلاجواز ہے اور اس استعمال کو روکنا ضروری ہے، مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ اندازگفتگو کالج اور یونیورسٹی کے کچے ذہن کے طلبا تک محدود نہیں بلکہ بیشتر سیاست دان اور ٹیلی وژن کے فنکار (اسکرپٹ سے ہٹ کر بھی) اسی طرح بولنے لگے ہیں اور اس طرزکلام سے نجات مشکل ہوگئی ہے۔
یہی حال کچھ اقدام کے ساتھ ہوا ہے۔ قدم اٹھاؤ، دوستو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ قدم بلاشبہ اٹھائے جاتے ہیں مگر اقدام کیا جاتا ہے۔ اقدام اٹھایا نہیں جاتا۔ یہ اسالیب اردو میں رائج رہے ہیں اب ان سے انحراف کی وجہ سوائے جہالت کے کچھ نظر نہیں آتی، اس لیے ہمیں ان الفاظ کے استعمال پر نئے سرے سے غور کرکے درست استعمال کو بروئے کار لانا چاہیے۔
بعض الفاظ ایک زبان سے دوسری زبان میں جاتے ہوئے متعدد اقسام کی تبدیلیوں سے آشنا ہوجاتے ہیں ان تبدیلیوں کو اہل زبان قبول کرلیتے ہیں تو وہ قابل تسلیم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً "شمس" عربی سے اردو میں آیا۔ عربی میں یہ لفظ مونث ہے مگر اردو والوں نے اسے مذکرکے طور پر قبول کیا۔ اس کی ایک وجہ بظاہر یہ بھی تھی کہ اردو میں لفظ سورج پہلے سے مستعمل تھا اور سورج مذکر تھا اس لیے اردو میں شمس بھی مذکر ہے اور اہل اردو کو اس پرکوئی اعتراض نہیں ہوا۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اردو ہندی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس میں اظہار کے طریقے، ابلاغ کے وسائل اور بات کہنے کے مہذب اور بہتر انداز موجود ہیں۔ اس معاملے میں اردو ہندی سے چارگنا زیادہ آگے ہے۔
میرا کہنا یہ نہیں ہے کہ ہم ہندی سے کچھ نہ لیں۔ ہمارے تمام افعال ہندی ہیں، ہم ہندی کے سبک، رواں اور نرم و ملائم الفاظ استعمال بھی کرتے ہیں مگر جیسا میں نے کہا ہمارے پاس ابلاغ کے طریقے اتنے موثر، حسین اور دل نواز ہیں کہ ہمیں ہندی سے انھیں مستعار لینے کی ضرورت نہیں۔
لیکن بھارتی ٹیلی وژن کو دیکھتے رہنے والے یا ہندی فلمیں دیکھنے والے ان کے بعض اسالیب کو استعمال کرنے لگے ہیں جب کہ اردو میں اس سے کہیں بہتر اسالیب اظہار موجود ہیں۔
مثلاً بھارتی وزارت خارجہ کا بتانا ہے کہ یا بھارتی وزیر اعظم کا بتانا ہے کہ۔ یہ بتانا ہمارے یہاں اردو میں صرف کہنا ہے۔ یہ مفہوم ادا ہوتا ہے اور بہتر طور پر ہوتا ہے مثلاً بھارتی نمایندے کا کہنا ہے۔
اسی طرح ایک اورکچا پکا طرز اظہار "ماننا ہے" ہے۔"بھارتی حکومت کا ماننا ہے کہ" اس طرز اظہار کے بجائے ہم اردو میں بھارتی حکومت تسلیم کرتی ہے کہ۔ یا حکومت پاکستان تسلیم کرتی ہے۔ یہ ماننا ہے انتہائی ناپختہ اظہار ہے ہم اس کے لیے تسلیم کرنا کے مہذب، شائستہ اور موثر الفاظ رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم محض دشمنی میں بھارت سے کچھ نہ سیکھیں۔ علم تو مومن کی گمشدہ میراث ہے کہیں سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مگر کم علمی سے علم کو بدلا نہیں جاسکتا۔ جس معاملے میں ہم پہلے ہی ان سے آگے ہیں ان کے پس ماندہ اسالیب جاننا ہے اور بتانا ہے کوکیوں اختیارکریں جب کہ ہمارے پاس تسلیم کرنا اور کہنا کہ الفاظ زیادہ موثر اوربامعنی طور پر موجود ہیں۔