وہ بھی سیاسی انتقام کے دن تھے، کچھ ایسی وجہ ہی رہی ہوگی کہ پولیس صحبت پور میں داخل ہوئی، یہ بات حیران کن تھی لیکن مزید حیرت کی بات یہ ہوئی حاجی احمد علی کھوسہ کے گھر داخل ہوئی اور انھیں لے کر چلتی بنی۔ ا
للہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، نیک دل زمیندار تھے، ایک خیال جن کے ذہن میں بیٹھ گیا تھا کہ اگر اس دیس میں کوئی بہتری آنی ہے تو وہ سیاست کے راستے ہی آنی ہے، سیاست نیز جمہوریت۔ جیل میں بند ہوئے ابھی دوچار دن ہی گزرے ہوں گے کہ انھوں نے برادرم یامین عباسی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ ظالم، آکر مل تو جاؤ۔ بس، یہی مقصد تھا کہ میں ماراماری کرتا، ڈیرہ مراد جمالی پہنچا اور پھر صحبت پور۔ دولت حاجی صاحب کو اللہ نے بہت دے رکھی تھی لیکن رہتے وہ مٹی کے گھر میں تھے۔
گدلی مٹی سے اساری ہوئی ناٹے قد کی دیواریں، بڑے بڑے کمرے، ہر کمرے میں دھواں نکالنے والی چمنی اور مٹی کی ان ہی دیواروں کے بیچ پھیلے ہوئے کھلے کھلے صحن۔ صبح کی میٹھی دھوپ میں اس وقت ذرا شدت پیدا ہو رہی ہوگی جب یامین عباسی اور میں نے حاجی صاحب کے گھر میں قدم رکھا۔ دالان میں بڑی بڑی چارپائیاں بچھی تھیں اور ان چارپائیوں کے بیچوں بیچ ایک آرام کرسی جس پر میر ظفراللہ خان جمالی تشریف فرما تھے۔
جمالی صاحب کو اخبار میں، ٹیلی ویژن پر جلسوں میں صحافیوں کی محفلوں میں بہت دیکھ رکھا تھا، ایک بار مختصر سے انٹرویو کا موقع حاصل ہو چکا تھا لیکن یہ ملاقات کئی اعتبار سے مختلف تھی۔ انسان کو دیکھنا اور جاننا ہو تو اسے اس کے فطری ماحول میں دیکھنا چاہیے جہاں سے اس کی طاقت کا سرچشمہ پھوٹتا ہے اور وہ ایسا ہی ماحول تھا لیکن اپنی تمام تر طاقت کے باوجود وہ اس وقت کچھ غم زدہ، کچھ شرمندہ اورکچھ دکھی دکھائی دیتے تھے۔
اس کے باوجود کہ وہ اپنے جانے پہچانے ماحول میں تھے لیکن کچھ کہتے ہوئے حجاب محسوس کرتے تھے، انھیں پریشانی اس بات کی تھی کہ سیاسی اختلاف اب اس درجے بڑھ گیا اور پولیس اتنی زور آور ہو گئی ہے کہ اب وہ ہمارے گھروں میں داخل ہونے سے گریز نہیں کرتی، بس، یہی دکھ تھا جس نے اس بزرگ کی زبان خامو ش کررکھی تھی۔ وہ کسی دکھی کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے آئے تھے لیکن لگتا تھا کہ خود ان کے ساتھ یک جہتی کی ضرورت ہے۔
وہی دن تھا جب میرے دل میں اس درد دل رکھنے والے بزرگ کے لیے تھوڑی سی جگہ بن گئی۔ اللہ تعالی جمالی صاحب کو اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے، ان کی یادیں نہ ایسی مختصر ہیں کہ چند جملوں میں ختم ہو جائیں اور نہ وہ محبت کی گرمی سے محروم ہیں کہ یہ تذکرہ چھڑے اور دل کے تار نہ بج اٹھیں لیکن اس لمحے مجھے سون سکیسر کے ایک ملک زادے کی یاد آتی ہے جو لاہور جیسے شہر میں رہتا لیکن گاؤں کی فضا میں سانس لیتا اور اپنی لیجنڈری مرسیڈیز کے قصے سنایا کرتا تھا۔
یہ اس زمانے کی بات ہے، میٹرک کے بعد میں نے ابھی کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ لاہور جانا ہوا۔ میرے تایا زاد بھائی عبد القادر بھٹہ مرحوم کا دفتر پینو راما سینٹر میں ہوا کرتا تھا، مجھے وہ اپنے دفتر میں لے گئے اور کہا کہ اب تم آزاد ہو۔
بس، کھانے کے وقت پر آجانا۔ یوں سمجھ لو کہ یہ تمھارا Aptitude ٹیسٹ ہے۔ اس عرصے کے دوران تم جہاں جہاں جاؤ گے اور جن جن لوگوں سے ملو گے، اسی سے معلوم ہوگا کہ آگے چل کر تم کیا کرنے والے ہو۔ اجنبی شہر میں ایک نوعمر کو یہ حکم نادر شاہی لگا لیکن فیصل چوک کے جسے اب پھر چیئرنگ کراس کہا جانے لگا ہے، فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر میں نے سمتوں کا تعین کیا کچھ منزلیں تو مجھے قریب ہی مل گئیں جیسے ملک کے چند بڑے اخبارات کے دفاتر، میں نے جیب سے آٹو گراف بک نکالی اور کچھ بزرگوں کے دستخط حاصل کر کے شاد کام ہوا۔ میرے پاس وقت ابھی کافی تھا، اس ادھیڑ بن میں کہ اسے کیسے بتایا جائے، لائبریری کی میز میری آنکھوں کے سامنے آگئی جس پر ذرا ردی سے کاغذ کا ایک رسالہ پایا جاتا تھا، افریشیا،۔ منفرد سا نام اور ویسے ہی اس کے مندرجات۔ یہ لڑکپن کے اسی زمانے کی بات ہے جب وہ رسالہ میرے ہاتھ لگا اور میں اس میں کھو کر رہ گیا۔
اور تحریریں اس میں کیا تھیں، قطعاً یاد نہیں لیکن ایک تحریر ایسی تھی جسے کئی گھنٹے لگا کر میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا۔ یہ سرخ پوش تحریک کی داستان تھی جس نے انگریزوں کے زمانے میں خدمت خلق کاکام شروع کیا اور غیر ملکی استعمار کی نگاہ میں کھٹکنے لگی۔
دہائیاں بیت جانے کے باوجود اس تحریر کا ایک جملہ اب بھی کتاب دل پر ایک منظر کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ جملہ کچھ ایسا تھا کہ خدائی خدمت گاروں پر سرخ کرتا پہننے کی پابندی عائد کردی گئی اور مار مار کر انھیں لہو لہان کر دیا گیا تو سرخ پوشی کا بھرم رہ گیا، نہیں معلوم وہ تحریر کس کی تھی اور کس کتاب سے لی گئی تھی لیکن اس جملے نے افریشیا، کا نام ہمیشہ کے لیے میرے ذہن میں نقش کردیا۔ قریبی بک اسٹال سے میں نے پتہ لیا اور افریشیا، کے ایڈیٹر سے ملنے چلا گیا جن کی نگاہ انتخاب کے طفیل وہ شاندار تحریر پڑھنے کا مجھے موقع ملا تھا۔
ذرا سے تکلف کے ساتھ میں نے ان کے دفتر میں قدم رکھا، دیکھا کہ ایک شخص آنکھوں پر دہری عینک چڑھائے بیٹھا ہے، دیکھنے کے لیے پانی کی طرح شفاف چشمہ اور دھوپ کے لیے گہرے رنگ کے شیشے جن کی کمانی موڑ کر یوں سیدھا کر دیا گیا تھا کہ ماتھے پر ایک چھجا سا بن گیا تھا۔ میں نے آٹو گراف بک ان کے سامنے رکھی تو اسے پکڑکربجائے چند لکیریں گھسیٹ دینے کے وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ نوجوان، کہاں سے آئے ہو؟ تعارف ہوا، چائے پی گئی۔
اس دوران انھوں نے میرے من میں چھپا ہوا لکھاری ڈھونڈ نکالا اور کہا کہ بیٹے لکھا کرو اور ایسا کرو، جو لکھو چار آنے کے لفافے میں ڈال کر مجھے بھیج دیا کرو۔ اب وہ جانے کیا تھا، کالج انتخابات کے نتائج تھے، کوئی ہفتہ طلبہ تھا یا شہر میں ہونے والا کوئی اور واقعہ جس سے میں متاثر ہوا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر میں انھیں بھیج دیا، کچھ ہی روز گزرے ہوں گے، میں کالج سے گھر پہنچا تو افریشیا، سامنے تھا اور اس کے کسی صفحے پر وہی تحریر جگمگا رہی تھی جسے میں نے ڈرتے ڈرتے بھیجا تھا۔ عبدالقادرحسن صاحب نے صرف تحریر نہیں چھاپی تھی، مجھے نمائندگی کا اعزاز بھی بخش دیا تھا۔
اس روز شام ڈھلے جب ٹیلی ویژن پر ان کے انتقال کی خبر چلنی شروع ہوئی، میں یادوں میں ڈوب گیا۔ لکھنے لکھانے والے ہوں یا اہل صحافت، ان کے مزاج کی ایک آدھ کل ضرور ہی ڈھیلی ہوتی ہے جس کا شکار عام طور پر نئے لکھنے والے بنتے ہیں، میں سوچتا ہوں کہ اس کٹھور دنیا میں وہ شخص اتنا مہربان کیوں تھا تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ نام نہاد نظریاتیوں کے درمیان عبدالقادر حسن وہ منفرد آدمی تھا جو مولانا مودودی سے چلا اور فیض صاحب تک پہنچا۔ اس سفر کے دوران نہ پہلے بزرگ کے ماتھے پر کوئی شکن آئی اور نہ اس نوجوان مسافر کی میزبانی کرنے والے دوسرے بزرگ کی طبیعت منغض ہوئی۔
یوں دائیں اور بائیں کی انتہاؤں کے بیچ اعتدال کا ایک راستہ نکلا جس پر عبدالقادر حسن چلے اور اس شان سے چلے کہ آج دنیا ان پر رشک کرتی ہے، عبدالقادر حسن چلے گئے، حالانکہ آج ان کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔