Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Wo Dheere Se Dil Mein Utar Jaane Wala

Wo Dheere Se Dil Mein Utar Jaane Wala

بادل امنڈ گھمنڈ کر آرہے تھے، کوئی کوئی بوند گرتی تھی لیکن اتنی بھرپور کہ جہاں گرتی بھگوتی چلی جاتی اورجسم میں سردی کی لہر دوڑ جاتی۔ گاڑی سے اتر کر میں نے سامان پر ایک نگاہ ڈالی اور اسے سمیٹ کر ڈیپارچر کی طرف بڑھنے ہی کو تھا کہ بادل اس زور سے کڑکا، گویا آسمان ہی پھٹ پڑے گا۔

عین اسی لمحے میں نے اپنے کاندھے پر ایک نرم ہاتھ کا لمس محسوس کیا، اس سے پہلے کہ میں پلٹ کر دیکھتا، السلام علیکم کی جانی پہچانی دھیمی سی آواز کانوں سے ٹکرائی پھر کہا کہ عطا الحق قاسمی کی کشش نے آپ کو بھی کھینچ لیا؟ یہ آصف فرخی تھے۔ یہ شخص ایسے ہی دھیمے سے دستک دیتااور خاموشی کے ساتھ دل میں اتر جایا کرتا۔

ہماری نسل عصری اعتبار سے تو آصف فرخی سے زیادہ قریب تھی لیکن ہم لوگ ان کے بجائے ان کے والدکو زیادہ جانتے تھے۔ ڈاکٹراسلم فرخی ہماری جامعہ کے رجسٹرار تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ کو اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ان سے واسطہ پڑتاہی رہتا تھا۔ اس روایت کی اصل تو جانے کیا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اہل زبان بزرگ کم عمروں اور نوجوانوں کو ایک خاص لہجے میں تم کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو لطف آجاتا ہے، جامعہ کے طلبہ کو وہ ہمیشہ اسی طرح پکاراکرتے، گویا گھر کے ہی بچے ہوں۔ پھر جب معلوم ہوا کہ ان کا شمار ملک کے بڑے ادیبوں اور دانش وروں میں بھی ہوتا ہے تو ان سے قربت کچھ زیادہ محسوس ہونے لگی۔

کوئی یہی زمانہ رہا ہوگاجب معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صرف وہی نہیں، ان کا بیٹا بھی ہے اور صرف ڈاکٹر ہی نہیں ادب کے کوچے میں بھی قدم رکھتا ہے تو ہم لوگ ذرا ٹھٹکے۔ اس باب میں ہمارا مشاہدہ ذرا مختلف تھا۔ شہر میں ایک بڑے ادیب کو ہم جانتے تھے جن کی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع اور متنوع تھا۔ ان کے علمی مرتبے اور حیثیت کی وجہ سے ان کا احترام بھی بہت کیا جاتا تھا۔ ان کے صاحبزادے نے موقع کو غنیمت جانا اور دیکھتے ہی دیکھتے ادیبوں کے کوچے میں انھوں نے بھی قدم رکھ دیا۔ پس جب ادب میں آصف فرخی کی دلچسپی کی خبر کان میں پڑی تو ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم نے سوچا کہ ایک بڑے ادیب کا یہ بیٹا بھی باپ کے قد سے اپنے قد میں اضافے کا متمنی ہے۔

اس شخص کے بارے میں ہمارا یہ رویہ کچھ عرصہ برقرار رہا، یہاں تک کہ"دنیا زاد" وجود میں آگیا۔ پاکستان میں ادبی پرچوں کی روایت بڑی توانا رہی ہے۔ ادب لطیف اور مخزن جیسے پرچے تو اس زمانے تک کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے تھے جب کہ دبستان سرگودھا اور لاہور کے ترجمان"اوراق" اور"فنون" بھی اپنے عہد سے نکل کر تاریخ میں جگہ بنا رہے تھے۔ اس کے علاوہ کراچی سمیت ملک کے دیگر ادبی مراکز سے نکلنے والے پرچے یا تو بند ہو چکے تھے یا آخری دموں پر تھے۔ اس طرح کے ہمت شکن زمانے میں "دنیا زاد" تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا اور ذہن میں ڈائینو سار کی تصویر ابھری۔

ادبی رسالہ اشتہار کے زوراورمدیر کی محنت پر چلا کرتا تھا لیکن حالات بدلے اور آمدن کے یہ ذرایع مسدود ہوئے تو پانچ سات سو صفحات پر مشتمل رسالے کی اشاعت بھی ممکن نہ رہی۔ اس طرح ہمارے ملک کی یہ توانا ادبی روایت عظیم الجثہ جانور کی طرح اپنے ہی بوجھ تلے دب کر دم توڑ گئی، ایسے ماحول میں کم صفحات کے ایک ہلکے پھلکے پرچے کا اجرا بڑی ذہانت کی بات تھی جسے بھاری بھرکم پرچوں کے مقابلے میں نسبتاً کم محنت کے ساتھ چلایا جاسکتا تھا۔ دنیا زاد کے مدیر کے بارے میں میری رائے میں چپکے سے ایک بڑی تبدیلی رونما ہو گئی۔

احمد ندیم قاسمی ہوں یا ڈاکٹر وزیر آغا، یہ دونوں بزرگ نئی نسل کے ادیبوں کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے اور حتی المقدور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے لیکن یہ دونوں اتنے بڑے نام تھے کہ لوگ انھیں اپنی کوئی تحریر بھیجتے ہوئے دس دفعہ سوچتے، اس کے بعد بھی کسی کی ہمت پڑتی کسی کی نہ پڑتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ان کے دیگر ہم عصروں کا بھی تھا لیکن دنیا زاد کا معاملہ مختلف تھا۔ لکھنے والوں کا واسطہ اپنے عہد کے ایک ایسے نوجوان سے تھا جس کے ساتھ بے تکلفی کے ساتھ بات چیت ہو سکتی، نیز بحث بھی۔

"دنیا زاد" اور اس کے مدیر کی ایک بڑی خدمت تو یہی تھی۔ دوسری خدمت یہ تھی مشرق کے اساطیری ادب کو گھول کر پئے ہوئے اس شخص کی بڑی گہری نگاہ دنیا کی تازہ ادبی تحریکوں، تجربات اور نظریات پر بھی تھی جنھیں وہ بڑے تواتر کے ساتھ تراجم کی صورت میں اردو کے ادبی ذخیرے کا حصہ بنارہے تھے۔ ڈاکٹر آصف فرخی کا یہ کارنامہ اردو ادب سے محبت کرنے والے تادیر بھلانہ پائیں گے۔

آصف فرخی بظاہر لیے دیے سے آدمی دکھائی دیتے لیکن ان کے مزاج میں کوئی ایسا جادو تھا کہ ان سے بلاوجہ اپنائیت سی محسوس ہوتی۔ اب پرانی باتیں یاد آتی ہیں تو لگتا ہے کہ ان کے اس جادو کا طوطا طبیعت کے دھیمے پن، خیر خواہی کے امڈتے ہوئے جذبے اور بے غرض مشورے کے پنجرے میں بندتھا۔ یوں لگتا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے جب شام ڈھلے فون کی گھنٹی بجی، میں حسب معمول پیشہ ورانہ تقاضوں کے تحت ڈیڈ لائن کے مطابق کوئی رپورٹ مکمل کرنے میں مصروف تھا۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف آصف تھے، بڑے ڈرامائی انداز میں کہاکہ کب تک برادر کب تک؟ ان کے تقاضے یاد آگئے۔

وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے کہ آپ کی تحریریں فقط صحافتی تحریریں نہیں ہوتیں، ان کے گلے میں افسانہ بولتا ہے، آپ افسانہ کیوں نہیں لکھتے؟ بے پناہ مصروفیت کے باوجود ان کی آواز مسرت کی پھوار بن کر رگ و پے میں اتر گئی لیکن اس کے باوجود انجان بنتے ہوئے میں نے سوال کیا کہ اس غریب سے کیا قصور ہوگیا ڈاکٹر صاحب!ایک قہقہہ بلند ہوا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ یوں نہیں مانیں گے۔ میں واقعی مان کر نہیں دیا۔ فون کی گھنٹی اب بھی بجتی ہے، لوگوں سے بات اب بھی ہوتی ہے لیکن وہ دھیرے سے دل میں اتر جانے والی آواز اب سنائی نہیں دیتی، صرف یادوں کا سہارا ہی باقی ہے۔