قسمت کی خوبی دیکھیے کہ فیض کہاں یاد آئے۔ وہ معرکہ چناق قلعے کی سو سالہ تقریبات تھیں جس میں تقریباً چالیس سربراہانِ مملکت و حکومت شریک تھے۔ اختتامی تقریب میں کنسرٹ تھا اور قائد جمہوریت رجب طیب ایردوآن کا خطاب۔ اس خطاب کی کشش ایسی تھی کہ لگتا تھا کہ شہر کا شہر امڈ آیا ہے۔
کانگریس سینٹر ہم نے بہت دیکھ رکھے ہیں لیکن یہ تو پوری جلسہ گاہ تھی جس میں ہزاروں ترک سما گئے۔ 1974 میں لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس کی یاد تازہ ہو گئی جس کی کارروائی تو پنجاب اسمبلی ہال میں ہوئی تھی لیکن نمازجمعہ ان قائدین نے بادشاہی مسجد میں لاکھوں پاکستانیوں کے جھرمٹ میں ادا کی۔ ایسا حسن انتظام بھی کوئی خالص عوامی حکمران ہی کر سکتا ہے۔ یہاں یہ کارنامہ بھٹو مرحوم کے ہاتھوں ہوا تووہاں اس کی ہمت طیب ایردوآن کر سکے۔ ہال میں داخلے کے لیے ہم دھیرے دھیرے چلتے جاتے تھے، دائیں بائیں معرکہ چناق قلعے کے سرفروشوں کی تصاویر تھیں اور مجسمے تھے۔
کہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ دھاڑتے ہوئے شیر دشمن کے پرخچے اڑائے جاتے ہیں اور کوئی منظر بتاتا تھا کہ یہ پارہ صفت حملہ آور کے چھکے چھڑا کر گھڑی دو گھڑی کسی پیڑ تلے سستاتے ہیں۔ دلوں میں ولولے کی آگ بھر دینے والے یہی مناظرہمارے سامنے تھے کہ عبدالاکبر نے ایک تصویر کی طرف اشارہ کیا، ایک باریش بزرگ تھے، بالکل ویسی ہی کیفیت میں بیٹھے تھے جیسے ہمارے اقبالؒ کشمیری شال لپیٹے مٹھی پر سرٹکائے سوچوں میں گم ہوا کرتے تھے۔
یہ ہیں، محمد عاکف ایرصوئےؒ، استقلال مارشی (ترک قومی ترانہ) کے خالق،۔
عبدالاکبر نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔ میں ابھی شاعر کبیر کے سراپے میں گم تھا کہ انھوں نے بتایا کہ یہ ہے استقلال مارشی۔
تو پھر ہوجائے آپ کی ترکی دانی کا امتحان؟ ،
میں مسکرایا اور عبدالاکبر شروع ہو گئے۔
شفق رنگ فضاؤں میں ؍ تیرتا، چمکتا اور لہراتا سرخ پھریراسربلند ہے؍ جب تک اس دیس کا کوئی ایک بھی فرد ؍ سانس لیتا ہے۔ ہم آزاد ہیں ؍ ازل سے؍ اور وہ کون احمق ہے؍ جو ہمیں زنجیروں میں جکڑنے کا حوصلہ کرے۔"
عبدالاکبر ترکی میں پڑھتے جاتے تھے اور تیزی سے ترجمہ کرتے جاتے تھے کہ میں نے انھیں ٹوکا اور کہاکہ فلاں بند کا ترجمہ ایک بار پھرہوجائے، وہ شروع ہو گئے:
برادران وطن، خبردار، ؍یہ بزدل نہ بڑھا پائیں اپنے قدم…،
عبدا لاکبر یہاں تک پہنچے تھے کہ میں نے پھر انھیں روکا اور کہا اس کے بعد ترجمہ میں کروں گا:
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑجائیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے،
میں فیض کے مصرعے پڑھتا جاتا تھا، عبدالاکبر میری طرف دیکھتے جاتے تھے اور حیرت کرتے جاتے تھے کہ کیسا برمحل ترجمہ ہے، کوئی خیال، کوئی لفظ اِدھر اُدھر کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
یہ توارُدیا کیفیت فکری یکسانیت اورنظریاتی یک جائی ہی سے پیدا ہوسکتی ہے لیکن اس کی افزائش کے لیے وہ محبت ناگزیرہے جس کے سوتے دل سے پھوٹتے ہیں،۔
میں نے کہا۔
ایک صدی اُدھر کی بات ہے، ہمارے یہاں اقبالؒ کی پیام مشرق شایع ہوئی تو کسی محبت کرنے والے نے اس کا ایک نسخہ شاعر کبیر محمد عاکف ایرصوئےؒ کو بھی ارسال کر دیا۔ اعلیٰ حضرت اس کتاب کے اوراق پلٹتے جاتے اور کہتے جاتے:
کیسی حیرت کی بات ہے، کیسی حیرت کی بات ہے جو میں کہنا چاہتا ہوں، جو میں کہتا ہوں، وہ سب کچھ تو اقبالؒکہہ رہے ہیں اور کہتے جارہے ہیں۔ واہ وا، واہ وا،۔
اُس روزدو واقعات رونما ہو ئے۔ ایک تو میں نے یہ سوچا کہ خیال اور فکر کے اتحاد کی جو روایت ہمارے بزرگوں یعنی علامہ محمد اقبالؒ اور محمد عاکف ایرصوئےؒ سے شروع ہوئی تھی، اگرفیض تک پہنچی ہے تو ضرور اس میں کوئی رمز پوشیدہ ہے۔ قدرت ان دوقوموں سے کوئی ایسا کام لینا چاہتی ہے جو کسی اور کے بس کا نہیں۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ استقلال مارشی میں مستقل طور پر میری دل چسپی پیدا ہو گئی۔ یہ بڑا عجب ترانہ ہے۔
کوئی ایسی بات جو ہمارے دل کو لگ جائے، اس کے لیے ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ کسی جذبے سے اتفاق کے اظہار کے لیے یہ شاعرانہ پیرائیہ اظہار بڑا لاجواب ہے لیکن استقلال مارشی کے چشمے سے فکری پختگی کے ابلتے ہوئے جذبات کو اپنے دل کی بات قرار دینے کے لیے کسی ایسے پیرایہ اظہار کی ضرورت ہے جو اس سے بھی آگے کا ہو۔
میں کیسے کہوں کہ یہ ترانہ ایک ایسا بحر رواں ہے جس میں بیرونی جارحیت سے نبرد آزما قوم کے خیالات اور عزائم کی آندھی ہے، جذبات کا طوفان ہے، نظریات سے وابستگی اور ان کی روشنی میں اختیار کی گئی حکمت عملی کو رگ و پے میں اتار لینے کی عظیم الشان جستجو ہے۔ میں کیسے کہوں کہ یہ ترانہ حرف و صوت کے امتزاج سے وجود میں آنے والا ایک ایسا جادو ہے جو کسی بے جان پتھر میں بھی جان ڈال سکتا ہے۔
شاعر کبیر محمد عاکف ایرصوئے ؒ کے زمانے اور چناق قلعہ معرکے کے دن یاد کیجیے، یہ وہی ایام تھے جب ترکی کو یورپ کا مرد بیمار کہہ کر ایک عظیم قوم کا مضحکہ اڑانے کی شرم ناک کوشش کی جاتی تھی۔ محمد عاکف ایرصوئےؒ جگر کو چھلنی کر دینے والی یہ باتیں دکھی دل کے ساتھ سنتے اور سوچتے کہ دشمن کے زہریلے پروپیگنڈے سے اُن کی قوم کہیں دل برداشتہ نہ ہو جائے۔ ان کی عظیم شاعری اسی فکر کی کوکھ سے نکلی اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کی جاں گسل جدوجہد میں مصروف قوم میں توانائی کی حرارت بھر گئی۔ استقلال مارشی بھی ان ہی ولولہ انگیز دنوں کی نشانی ہے۔
آج مسلم دنیا کی قیادت ترکی کی پرعزم قیادت کے ہاتھوں میں دکھائی دیتی ہے تو کوئی نہ بھولے کہ ایسے جی دار قیادت قائدین اقبالؒ جیسے اولی العزم شاعروں کے روح پرور ترانوں کی لوری سن کر پیدا ہوتے ہیں، کوئی شبہ نہیں کہ اقبالؒ جیسے ہمارے ایرصوئےؒ ہیں، حضرت ایرصوئے ترکوں کے اقبالؒ ہیں، میں استقلال مارشی کی صد سالہ تقریبات پر اپنے ترک بھائیوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
پاک ترک دوستی چوکے شا
پاک ترک دوستی زندہ باد