Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Perception Badal Chuka

Perception Badal Chuka

امریکا میں صدارتی انتخابات کا معرکہ شروع ہونے کو ہے لیکن یہاں جس واقعے کا ذکر ہے، وہ کچھ پرانا ہے، یوں کہیے کہ کچھ زیادہ ہی پرانا۔ حریف جیسا کہ ہوتا ہے، حتمی نامزدگی سے پہلے ہی اپنا اپنا منشور پیش کر کے رائے دہندگان کی توجہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور پارٹی کے اندر اثر و رسوخ بڑھانے کی بھی۔ اس واقعے کا تعلق بھی نامزدگی کے اسی مرحلے سے ہے۔

ایک صاحب جو نسبتاً زیادہ مقبول اور موثر تھے، کنونشن میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پہنچے اور منشور پیش کیا۔ خیال یہی ہوتا ہے کہ کسی امیدوار کی کارکردگی ہی اس کی کامیابی کی واحد بنیاد ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔ کامیابی محض اس بنیاد پر نہیں مل جاتی کہ کسی کی کارکردگی کتنی شان دار ہے۔

اس میں ماحول، مخالفین کا طرز عمل اور ذرائع ابلاغ کارویہ بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس امیدوار نے بہت اچھا منشور پیش کیاتھا لیکن اگلے روز صبح کے اخبارات میں ان کی شخصی وجاہت اور انداز نشست و برخواست کو موضوع بحث بنایا گیاجب کہ شام کے اخبارات میں ان کی اہلیہ کے ناز و انداز اور کپڑوں کی زرق برق نمایاں کی گئی۔ ان تذکروں میں منشور کہیں پیچھے رہ گیا۔

امیدواروں کی فہرست میں ایک اور صاحب بھی تھے، نسبتاً کم نمایاں لیکن ان کا منشور باقی سب سے زیادہ جامع اور شاندار تھا۔ ابتدائی مناظروں اور ڈیبیٹس میں ان کی کارکردگی بھی متاثر کن تھی لیکن اخبارات نے لکھا کہ یہ شخص خود تو کوئی اہمیت رکھتا نہیں، البتہ دوسرے اہم امیدواروں کو خراب کرنے آگیا ہے۔

صحافی اس طرح کی خبریں کیسے بناتے ہیں؟ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ سیاسی مخالفین حکمت عملی کے تحت ایک ماحول بنادیتے ہیں جس سے رائے عامہ متاثر ہو یا نہ ہو، صحافی ضرور متاثر ہوتے ہیں جس کا اظہار ان کی تحریروں اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ہو جاتا ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں سیاست کا یہی طور ہے اور ہمارے ہاں اس کا چلن کچھ زیادہ ہی ہے جس کے نتیجے میں کبھی بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے اور کبھی اصل بات پر کوئی فروعی بات غالب آجاتی ہے یا اسے غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاکستان میں یہ طرز عمل ہمیشہ سے مقبول رہا ہے لیکن ان دنوں اس کا رجحان معمول سے کچھ بڑھ کر ہے۔ اس طرز عمل کی مثالیں قومی سیاسی زندگی کے ہر پہلو سے تلاش کی جا سکتی ہیں جن کے مظاہرے سیاسی مخالفین ہاں کثرت سے ملتے ہیں۔ سیاسی مخالفین ایسا نہ کریں تو پھر کون کرے؟ یہ سوال اٹھا کر اس دلیل کو مسترد کیا جا سکتا ہے، اس لیے بات کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک مختلف مثال سے مدد لیتے ہیں۔

جمال عبداللہ عثمان ایک نوجوان اور ذہین صحافی ہیں جنھوں نے صحافت کے پیشے میں نہایت مختصر مدت میں نمایاں مقام بنایا۔ ان کا موجودہ سیاسی تقسیم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن انھوں نے گوجرانوالہ کے جلسے میں لندن سے کی گئی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تقریر سن کر لگتا ہے کہ جیسے نیلسن منڈیلا ہوں لیکن میں جب ایسا سوچتا ہوں تو میرے سامنے پارلیمنٹ کا وہ منظر آ جاتا ہے جب مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی قطار میں لگے ایک ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ دے رہے تھے۔

اسی طرح مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی جب کسی مقصد کے لیے کسی سیاسی اتحاد میں اکٹھے ہوتے ہیں تو ان جماعتوں کے قائدین نے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کہہ رکھا ہوتا ہے، اس کی یاد دلائی جاتی ہے جیسے میمو اسکینڈل کے موقعے پر میاں صاحب کا کالا کوٹ پہن کر عدالت چلے جانا یا جنرل مشرف کے مارشل لا کے نفاذ پر بے نظیر بھٹو کی طرف سے اس کا خیر مقدم کرنا۔ قومی سیاست کی تہہ میں جتنا بھی اترتے چلے جائیں، اس طرح کے واقعات سامنے آتے چلے جائیں گے۔ حالیہ دنوں میں جب سے اپوزیشن نے کھل کر بولنا شروع کیا ہے۔

اس مشق میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ شیخ رشید سمیت بہت سے وزرا اور سیاسی قائدین نے بلا تکلف کہا کہ یہ دشمن کا ایجنڈا ہے جس پر یہ لوگ کاربند ہیں۔ بعض سادہ لوح تو الطاف حسین اور نواز شریف کی شخصیت میں موازنہ بھی شروع کرچکے ہیں۔ کیا رائے عامہ اس قسم کی باتوں سے متاثر ہو کر وہ راستہ اختیار کر لیتی ہے جو پروپیگنڈا کرنے والے چاہتے ہیں؟ اس سوال کو پیش نظر رکھ کر مغربی ملکوں میں جو تحقیق ہوئی ہے۔

اس سے پتہ چلا کہ اس نوع کا پروپیگنڈا اپنی ابتدا میں کچھ گرد و غبار ضرور اڑاتا ہے لیکن بالآخر اپنے مقاصد کی مخالف سمت میں گامزن ہو جاتا ہے اور پروپیگنڈا کرنے، اس کا سہولت کار بننے اور پس پردہ منصوبہ ساز رائے عامہ کے اعتماد اور احترام سے محروم ہو جاتے ہیں جس کے مظاہر تاریخ نے یہاں بھی کئی بار دکھائے ہیں لیکن یہ ایک طویل موضوع ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ان دنوں جن سوالات نے طوفان اٹھا دیا ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

ہمارے صحافتی گرو اور کئی دہائیوں سے سیاسی عمل اور اس کے مزاج کو سمجھنے والے کہا کرتے ہیں کہ سیاست پرسیپشن کا کھیل ہے جو پرسیپشن بن جائے، رائے عامہ اسی پر توجہ دیتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ماضی یاد دلانے والی باتیں ہمیشہ بے کار جاتی ہیں جیسے 1988 میں بے نظیر بھٹو کے خلاف اخلاقی حدود کو پھلانگتاہوا بدترین پروپیگنڈا بھی رائیگاں گیا تھا۔

ان دنوں کہا جاتا ہے کہ نواز شریف آخر ہیں تو جنرل ضیاالحق ہی کی پیداوار، نواز شریف ہوں یا کوئی اور، ان کے سرپرست ایک تاریخی حقیقت ہیں جسے کوئی چھپانا چاہے توبھی چھپا نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں نجات دہندہ کو دیکھا تھاکیاوہ نہیں جانتے تھے کہ ایک وقت تھا جب بھٹوصاحب ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے؟ عوام سب جانتے تھے لیکن انھوں نے بدلے ہوئے بھٹو کو دیکھا اور اُس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کردیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے، اس لیے ماضی میں گزرے ہوئے کسی سانپ کی لکیر پیٹنے کے بجائے اصل مسائل پر توجہ دی جائے کیوں کہ پرسیپشن اب مختلف ہے۔