وہ بڑی عجیب رات تھی۔ دھرنا تو کئی روز سے جاری تھا، صبح و شام تقریریں سننے کی عادت بھی ہوگئی تھی اور منہ اندھیرے آنکھ کھلتے ہی نیوز چینل لگانے کا بھی معمول بن چکا تھا کہ وہ چند گھنٹے جو نیند میں گزرے ہیں، کسی ان ہونی کی خبر تو نہیں لائے؟ بڑوں کے دن اور رات اگر ایسی کیفیات میں گزرتے تھے تو بچوں کے بھی اپنے تجربات تھے۔
ایوان صدر میں رہنے والے افسروں اور صدر مملکت کے معاونین کے بچے صبح صبح اسکول کالج جانے کے لیے گاڑیوں میں نکلتے تو علامہ صاحب کے مریدین سپریم کورٹ کے جنگلوں پر لٹکے ہوئے کپڑوں سے توجہ ہٹا کر اُن کی طرف لپکتے اور شیشے اتروا کر گردن اندرگھسا گھسا کر انھیں خوف زدہ کرتے۔ یہ روزانہ کا معمول تھا، ممکن تھا کہ بچے بھی اس صورت حال کے عادی ہو جاتے یا کئی کلو میٹر کا طویل چکر کاٹ کر حضرت بری امامؒ کے مزار کی جانب سے آنے جانے کا فیصلہ ہو جاتا لیکن درمیان میں وہ رات آگئی، وہ رات آئی تو کچھ ایسے مناظر کے خاکے بھی دل و دماغ میں بنے اور ٹوٹے کہ اگر اس ملک میں کبھی کوئی انقلاب آیا توکس قسم کے واقعات جنم لیں گے یا جنم لے سکیں گے۔
یہ وہی رات تھی جس کی تاریکی میں پارلیمنٹ کے جنگلوں کو کچھ لوگوں نے اوزاروں سے کاٹا، ایک کرین زمین کا سینہ دھڑدھڑاتی ہوئی وزیر اعظم ہاؤس کی طرف بڑھی اور مار دھاڑ کرتا ایک گروہ سیکریٹریٹ اور پارلیمنٹ ہاؤس کے وسیع سبزہ زار کے عین درمیان سے گزرنے والی سڑک سے ہوتا ہوا ایوان صدر کے اُس گیٹ تک آپہنچا جس سے بیرونی سربراہان مملکت اور صدر مملکت کے ذاتی مہمان داخل ہوا کرتے ہیں۔
اس سادہ، باوقار اور تاریخی گیٹ سے جب غیظ و غضب میں بھرے ہوئے لوگوں کے ہاتھ اور ان کے ہاتھوں میں لہراتی ہوئی چوبی و آہنی چیزیں ٹکرائیں تو ان کی آوازیں دور دور تک گونجیں۔ کیا یہ لوگ محفوظ بلکہ محفوظ ترین سمجھے جانے والے در و دیوار کو روند کر اندر داخل ہو جائیں گے؟ اس قسم کے امکانات یا خدشات کے بارے میں سوچنے والوں کے خیالات کی رو اُس شب کتنی دور تک گئی ہوگی، ممکن ہے، آج اِس کا کوئی اندازہ نہ کرسکے۔
یہی شب تھی جب آس پاس کی سڑکوں اور ان حساس مقامات پر جمع لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے چلے تو سانس کی نالی اور آنکھوں کو متاثر کر دینے والے اس کے اثرات رات کی پاکیزہ ہوا کو مسموم کرتے ہوئے ایوان صدر کے مکینوں تک بھی پہنچے جن سے بچنے کے لیے افراد خانہ اور ملازم پیشہ بھیگے ہوئے کپڑے دروازوں اور کھڑکیوں کی درزوں میں ٹھونس ٹھونس کر ہلکان ہوئے۔
معلوم ہوا کہ اس سرزمینِ پاک کے ایسے مقامات جن کی آرایش و آسایش کی کہانیاں حد سے بڑھے ہوئے مبالغے کے ساتھ فرزندان وطن میں پھیلائی جاتی ہیں، عام کوچہ و بازار جتنے ہی محفوظ ہیں، یعنی اگر آنسو گیس کی حشر سامانی اِس مقام تک پہنچ گئی تو پھر کون سی کسر باقی رہ گئی؟
خیر، یہ اسی واقعے کے آس پاس کی بات ہے جب یہ خدشہ پیدا ہوا کہ یہ دھرنا اگر آنے والے چند روز کے دوران میں بھی اسی زور شور کے ساتھ جاری رہا تو چین کے صدر جناب ژی جن پنگ کا دورہ تو گیا اور اگر یہ دورہ گیا تو اس کے ساتھ ہی چین کی طرف سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور پاک چین اقتصادی راہ داری بھی گئی اور اگر نہیں بھی گئی تو جانے کب تک التوا کی تاریکیوں میں جا پہنچے۔
ایک پریشانی اس سے بھی بڑھ کر تھی۔ چین کے صدر صرف پاکستان ہی کا دورہ کرنے والے نہیں تھے بلکہ اسلام آباد کے بعد ان کی منزل نئی دہلی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے قبل دشمن کے ہاں سرمایہ پہنچ جائے گا، یوں پاکستان کو خطے میں معاشی اور تزویراتی میدانوں میں جو آسودگی یا برتری ملنے والی تھی، وہ بھی گئی۔ یہ بھی عین ان ہی دنوں کی بات ہے جب ممتاز ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے بات ہوئی تو انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُسے امریکا کے سامنے پھینک دیا گیا ہے۔
سکون کے اس جزیرے کو ہنگامہ آرائی سے بے چین کر دینے والی وہ رات بیتی اور اگلی صبح صدر مملکت سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا کہ ریاست کے سربراہ اور ایک بزرگ کی حیثیت سے آپ کو اس بحران میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیے؟ صدر مملکت نے سوال کیا کہ کردار سے کیا مراد ہے؟ کہا کہ تعطل اور تصادم کی صورت حال میں ایک ایسا راستہ نکالنے کی کوشش جو تباہی کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دے اور اتفاق رائے کی کوئی صورت حال پیدا کرے تا کہ چینی صدر کے دورے کے التوا یا منسوخی کے خطرے سے بچا جا سکے۔
صدر ممنون حسین مثبت انداز فکر رکھنے اور امید کا دامن کبھی نہ چھوڑنے والی شخصیت کے مالک ہیں۔ یہ تجویز سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ پیدا ہوئی لیکن فوراً ہی معدوم ہو گئی، انھوں نے کہا کہ ہماری مانے گا کون؟ صدر مملکت کے اس سوال کے پسِ پشت ایک جہانِ معنی آباد تھا۔ صدر ممنون حسین صاحب ایوان صدر کے مکین بنے تو ان کے سامنے دو طرح کے صدور کی مثال تھی، اول، جنرل پرویز مشرف جیسے فوجی حکمران جو سیاہ و سفید کے مالک بن کر پورے ملک اور قوم کو اشارہ ابرو پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسرے غلام اسحق خان اور سردار فاروق احمد خان لغاری جیسے جنھوں نے خود کو منتخب کرانے والے قائدین اور پارٹیوں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور پے درپے ان کی حکومتیں برطرف کیں۔ پاکستان کی تاریخ میں رونما ہونے والے ان بدقسمت اور بدصورت واقعات کے پیش نظر ایوان صدر میں آتے ہی ممنون صاحب نے طے کیا تھاکہ وہ اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں گے اور حکومت اور سیاسی جماعت جس کی مدد سے وہ اس منصب تک پہنچے ہیں۔
اس کے لیے آسانیاں پیدا نہ کر سکے تو کوئی مشکل بھی پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ بے وفائی اور سازشوں سے بھری ہوئی تاریخ میں ایک شریف النفس اور باوقار صدر مملکت کا یہ انداز فکر وزن رکھتا ہے لیکن کوئی کردار ادا کرنے کے سوال پر انھوں نے جو بات کہی، وہ کسی بحران میں سربراہ مملکت کی حیثیت، اس کی بھاری بھرکم شخصیت اور اثر انگیزی کے بارے میں بنیادی سوال اٹھاتی ہے اور اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ موجودہ آئینی اور سیاسی بندوبست میں صدر کا کردار بس اتنا ہی ہے جتنا دکھائی دیتا ہے۔
جناب ذوالفقار چیمہ نے تجویز کیا ہے کہ صدر عارف علوی موجودہ بحران میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کے لیے موڈریٹر کا کردار ادا کریں۔ یہ عین وہی تجویز ہے جو 2014 کے دھرنے کے موقعے پر صدر ممنون حسین کو پیش کی گئی تھی، صدر مملکت نے جسے سنا اور سوال کیا کہ ایسا کر تو لیا جائے لیکن اسے مانے گا کون؟ تو بات یہ ہے کہ صدر مملکت کے ایسے کسی کردار کو حکومت اور وہ جماعت شاید کبھی پسند نہ کرے جس کی پارلیمانی طاقت کی مدد سے وہ اس مقام پر پہنچتے ہیں۔
صدر مملکت صرف اسی صورت میں کوئی مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر وہ حقیقی معنوں میں غیر جانب دار ہوں اور اس سلسلے میں آئین انھیں طاقت فراہم کرے۔ پارلیمنٹ تین اداروں سے مل کر بنتی ہے، صدر مملکت، ایوان بالا اور ایوان زیریں، پارلیمنٹ کی اس ہیئت ترکیبی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر مستقبل میں کوئی آئینی ترمیم کر لی جائے تو ایسی صورت میں صدر مملکت کے مصالحانہ کردار کا راستہ یقیناً ہموار ہو جائے گا۔