عمران خان نے اعتماد کا ووٹ لیا، اطمینان کا سانس لینے کے بعد تسبیح کلائی پر لپیٹی اور خم ٹھونک کر غداروں، کو للکارا۔ یہی منظر تھا جسے دیکھ کر تاریخ کے دفینوں سے کئی واقعات نے سر اٹھایا، نیز کتابوں کے انبار تلے دب جانے والی ایک مختصرسی کتاب کی یاد آئی۔
برادر محترم ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے یہ کتاب عنایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فاروق بھائی! آپ اسے پڑھیں گے تو یوں سمجھیے، ماضی کی پر پیچ گلیوں سے یوں گزریں گے، گویا ٹائم مشین میں بیٹھے ہوں لیکن معاملہ اس سے کافی مختلف ہو گیا۔ ہمارے زمانے میں اگر چہ لندن کے تذکرے اکثر رہتے ہیں اور وہاں جاکر پاسپورٹ سے محروم ہو جانے والوں کے بھی لیکن اس کے باوجود ان دنوں اس مختصر سی دستاویز کا حصول ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے لیکن اب سے کوئی ساٹھ برس پہلے کیا حالات تھے، یہ راز اس کتاب سے کھلا۔
تھوڑا ہی عرصہ ہوتاہے، کسی عالمی ادارے کا ایک جائزہ شایع ہوا جس میں مسلم دنیا کی بااثر ترین شخصیات کے بارے میں بتایا گیا، سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اس دنیا سے گزرے اگرچہ کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا نام اس فہرست میں بہت اوپر تھا۔ اپنی اس اثر انگیزی کے باوجود پاسپورٹ کے حصول کے سلسلے میں یہ بزرگ کتنا مجبور تھا، جان کر حیرت ہوتی ہے۔ یہ 1960کی بات ہے جب بانی جماعت اسلامی کا پاسپورٹ زاید المیعاد ہو گیا۔
اب خدشہ یہ تھا کہ تجدید کے لیے پیش کیا گیا تو ضبط ہو جائے گا، ضبط نہ بھی ہوتا تو یقین تھا کہ تجدیدتو ہرگز نہیں ہوگی۔ ان ہی دنوں مصر کی وزارت اوقاف نے تبلیغ اسلام کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس میں مولانا مودودی کو بھی مدعو کر لیا۔ مولانا کے لیے یہ دعوت غیبی امداد ثابت ہوئی اور انھوں نے پاسپورٹ کی تجدید کے سلسلے میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر کو لکھا:
پہلے ہم اخبارات میں یہ خبر شایع کرادیں کہ حکومت مصر کی وزارت اوقاف نے تبلیغ اسلام کے لیے جو ادارہ قائم کیا ہے، اس کے اجلاس میں شرکت کی دعوت میرے نام آئی ہے … اس صورت میں ان حضرات کا انکار کرنا یا پاسپورٹ ضبط کرنا مشکل ہو جائے گا،۔ یہ خط پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر ظفر نے یہ کیسے کہا کہ یہ کتاب جس کا نام سید مودودی کے خطوط، ہے، ماضی میں لے جاتی ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ہمارے ہی زمانے اور اس کے حالات کی ہی تفہیم کرتی ہے۔
خیر، یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہی خط تھا جس کی وجہ سے میری دلچسپی اس کتاب میں بڑھی اور میں نے بڑی بے صبری کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ گزشتہ ڈیڑھ دو دہائی کے دوران میں جب سے ہمارے ہاں ذرایع ابلاغ کا سیلاب آیا ہے، اظہار رائے اور اختلاف رائے کے نام پر ایک ایسا طوفان برپا ہے جس نے معاشرتی تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
جمہوری نظام میں آزادی اظہار کیا ہے اور اختلاف رائے کی حدود کیا ہیں؟ یہ کتاب صرف ان ہی مسائل پر روشنی نہیں ڈالتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس حق کو کس طرح استعمال کیا جائے کہ معاشرے اور جمہوریت، دونوں کو مستحکم کیا جا سکے۔ اُن کے مطابق اس کا پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ جس معاملے پر اختلاف ہو، اس کے اظہار کے لیے یوں ہی الل ٹپ زبانیں دراز نہیں کر دینی چاہئیں بلکہ جو معاملہ اور جو بات بھی ہوجب تک آپ کے پاس دلائل و براہین نہ ہوں، زبان نہیں کھولنی چاہیے۔ پھر اگر آپ مخلص ہیں تو پبلک میں آنے سے قبل ایسے معاملات تحریری یا زبانی شکل میں ارباب حل و عقد کے سامنے رکھ دیے جائیں۔
ہاں اگر معاملہ قوم کے وسیع تر مفاد کا ہو یا انتخاب کا مرحلہ درپیش ہو تو رائے عامہ کی آگاہی اور اس کی تربیت کے لیے کھلے عام بات ضرور کی جائے لیکن یہ آزادی وہاں جا کر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے فریق مخالف کی عزت نفس کا آغاز ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر یہ احتیاطیں اختیار کر لی جائیں تو جمہوریت کے نام پر جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے، اس کا سدباب از خود ہو جائے گا۔
یہ خط پڑھتے ہوئے مجھے ایسا لگا جیسے مولانا مرحوم نے ہڑبونگ کے خاتمے کی بات کرتے ہوئے کسر نفسی سے کام لیا ہے، فی الاصل تو انھوں نے ایک ایسا ضابطہ اخلاق ورثے میں چھوڑا ہے، آزادیِ اظہار کے ضمن میں اگر کوئی حکومت سنجیدہ ہو تو وہ ریاستی اور قانونی ضمانتوں کے ساتھ اس کا نفاذ کر کے سماج کے ایک بہت بڑے مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔
جو بات ہمارے علم میں نہیں، جس موضوع پر ہماری گرفت نہیں، اُس پر نہ صرف بات کرنا بلکہ حتمی رائے تک سے نواز دینا ہمارے عہد کا طرۂ امتیاز ہے۔ سبب اس کا شاید یہ ہوتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسے معاملے پر خاموش رہے اور کوئی بات نہ کہی تو لوگ ہمیں کہیں کم علم اورغیر اہم نہ سمجھ لیں لیکن اس بزرگ کا طریقہ ایسے معاملات میں کیا تھا، ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ہندو مت کے بارے میں میری معلومات اتنی زیادہ وسیع نہیں ہیں اور بغیر کافی معلومات کے کسی چیز پر بحث و تنقید کرنا مناسب نہیں ہے۔ اُن کا یہ خط بھی اظہار رائے کی آزادی کے ضمن اسی ضابطہ اخلاق کو بنیاد فراہم کرتا ہے جو اختلافات کی آگ میں جلتے ہوئے کسی بھی معاشرے میں راحت اور اطمینان پیدا کرسکتا ہے۔
اپنے ان خطوط میں مولانا مودودی نے ملک سے سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی معاملات پر بھی اظہار خیال کیا ہے جیسے کسی معاشرے میں اقتصادی مسائل پیدا ہو جائیں اور روزگار کے مواقعے مسدود ہو جائیں تو کیا کرنا چاہیے، وہ ایک نوجوان کو مشورہ دیتے ہیں کہ کسی خوش حال معاشرے کو ہجرت کر جانی چاہیے۔ ان خطوط میں اور بھی بڑی دل چسپ باتیں ہیں جن سے اپنے عہد کے اس بڑے بزرگ کی ذاتی اور خانگی زندگی پر روشنی پرتی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ زمانۂ علالت میں ان کی اہلیہ ان کی خدمت میں ہی لگی رہیں، اگر چہ انھوں نے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی لندن کی سیر کرلیں۔ وہ پان کے عادی تھے، عمرے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو کسی نے خط میں پوچھا کہ کیا پانوں کی سپلائی جاری ہے؟ لکھا کہ مکہ پہنچنے تک کا انتظام تو میں نے خود کیا تھا، اس شہرمیں فراہمی رزق کی ذمے داری اللہ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے، الحمدللہ، رزق کی فراہمی کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
ان کی خوش مزاجی کا ایک اور واقعہ پروفیسر خورشید کے حوالے سے کتاب میں موجود ہے۔ وہ کسی دورے پر لندن پہنچے تو میزبان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یاد رکھنا، خورشید میاں! اسلامی انقلاب آئے گا تو گاڑیوں میں ایش ٹرے کے ساتھ اگال دان بھی نصب ہوا کرے گا کہ پان ہماری تہذیب کا جزو لاینفک ہے۔
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے اس کتاب میں بڑی محنت کے ساتھ69 خطوط ہی جمع نہیں کردیے بلکہ مکتوب الیہان کے کوائف کے علاوہ خطوط میں زیر بحث امور کا تاریخی پس منظر بھی حواشی میں درج کردیا ہے، اس طرح یہ کتاب ایک تحقیقی دستاویز کی حیثیت حاصل کر جاتی ہے جس کے مطالعے سے اُس زمانے کے حالات کو سمجھنا ہی ممکن نہیں ہو جاتا بلکہ خود مولانا مودودی کی شخصیت کو سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ بات جاننی کتنی مزے دار ہے کہ مولانا مودودی ریڈیو سنا کرتے تھے اور لگاتے ہوئے اگر موسیقی کی کوئی تان ان کے کان میں پڑجاتی تھی تو وہ کیا کیا کرتے تھے۔