Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Shaam, Bashar Raft o Hayat Ul Tahrir Aamad (11)

Shaam, Bashar Raft o Hayat Ul Tahrir Aamad (11)

پچھلے دو تین دنوں کے دوران شام کے مختلف علاقوں میں امریکی فضائیہ کی کارروائی کے دوران دولت اسلامیہ عراق والشام کے اہم کمانڈر ابو یوسف سمیت متعدد جنگجو ہلاک ہوگئے اسی عرصے میں ترکیہ کی انٹیلی جنس نے بھی شام کی جغرافیائی حدود میں متعدد کارروائیاں کیں۔ ترکیہ کی حکومت اپنی کارروائیوں کو کرد دہشت گردوں کے خلاف قومی سلامتی کے تحفظ کا حصہ قرار دے رہی ہے جبکہ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ "شام کی سرزمین پر دہشت گرد گروپوں کو منظم نہیں ہونے دیا جائے گا"۔

ان ارشادات امریکہ و ترکیہ پر اُن اہل اسلام کو ضرور "وجدانی دھمال" ڈالنی چاہیے جن کے خیال میں شام کی حالیہ کامیاب بغاوت بشارالاسد رجیم کی آمریت کے خلاف اسلامی انقلاب ہے۔ 20 دسمبر کو بی بی سی نیوز اردو نے جیمری بوون کی ایک رپورٹ شائع کی۔ جیمری بوون بی بی سی نیوز کے انٹرنیشنل ایڈیٹر ہیں۔ رپورٹ کے مندجات ایک عام قاری کویہ سمجھاتے ہیں کہ شام میں کامیاب بغاوت کی حامل "ہئیت التحریر والشام" آگے بڑھ رہی ہے۔ جیفری کی رپورٹ میں گزرے ماہ و سال کے مختلف واقعات کا تذکرہ بھی ہے اور گزشتہ ناکام بغاوتوں کے چند قصے بھی۔

ہم اس رپورٹ پر آگے چل کر بات کریں گے۔ جیفری نے احمد الشرح ابو محمد الجولانی سے دمشق کے صدارتی محل میں چنددن قبل ملاقات بھی کی۔ وہ لکھتے ہیں "وہ (الجولانی، ابو محمد الجولانی کا نام چھوڑ کر اپنا اصل نام احمد الشرع اپناچکے ہیں۔ الجولانی نے اپنے پرانی جہادی عقیدے کو چھوڑ کر شامی مذہبی قوم پرست نظریات کو اپنالیا ہے۔ یونیفارم وہ پہلے ہی اتارچکے تھے۔ تاہم بہت سارے شامی شہری الجولانی کے اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں"۔

اُدھر پچھلے دو ہفتوں کے دوران اسرائیل نے شام کے ساتھ جو سلوک کیا اس کا تذکرہ قبل ازیں بھی ان سطور میں کیا جاتا رہا اب ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بشارالاسد حکومت کے خاتمے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی فضائیہ نے شام کی جغرافیائی حدود میں 400 مقامات پر 600 سے زائد حملوں میں شام کی 80 فیصد فوجی تنصیبات کو تباہ کردیا ہے۔ شام کے ایک شہر طرطوس کے قریب گزشتہ سوموار کو اسرائیلی فضائیہ نے جو کارپٹ بمباری کی اس کی شدت 3.0ریکٹر سکیل کے زلزلے کے برابر تھی۔

اسرائیل کے پاس جی بی یو 28 "بنکر بسٹر" طاقتور بم موجود ہیں۔ خطرناک حد تک تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھنے والے یہ جی بی یو 28 بنکر بسٹر بم ہی طرطوس حملوں میں استعمال ہوئے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا البتہ اس کارپٹ بمباری کی شدت چونکہ 3.0ریکٹر سکیل زلزلے کے برابر ہے اس لئے دفاعی ماہرین و مبصرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ طرطوس میں ہونے وا لے حملوں میں یہی بم استعمال کئے گئے ہوں گے۔

امریکہ اور ترکیہ شام میں نئی حکومت بنوانے کے لئے پیش پیش ہیں دونوں ملکوں نے پچھلے چند دنوں کے دوران شام کی جغرافیائی حدود میں اپنی کارروائیوں کے لئے جو جواز پیش کئے ان پر دکھ بھری ہنسی کے سوا کوئی ردعمل نہیں ہوسکتا۔

اسی اثناء میں حالیہ شامی بغاوت کے فاتح احمد الشرع ابو محمد الجولانی کی پچھلی دو دہائیوں کی دلچسپ تصاویر بھی منظرعام پر آئیں۔ غالباً محمد البشیر (شام کے عبوری وزیراعظم) کی طرح امریکہ ترکیہ اور مغربی میڈیا الجولانی کو بھی مستقبل کا ایک قوم پرست شامی لیڈر کے طور پر پیش کرنے کے ایجنڈے پر ہیں۔

شام کی موجودہ صورتحال بارے لمحہ لمحہ آگاہ رہنے اور بدلتے منظرنامے کو علاقائی و عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھنے سمجھنے والے اہل دانش کی طرح اس طالبعلم کے سامنے بھی چند سوالات ہیں۔

اہم ترین سوال نے دولت اسلامیہ عراق والشام کے ایک اہم کمانڈر ابو یوسف کی امریکی کارروائی میں ہلاکت سے جنم لیا۔ ابو یوسف حالیہ بغاوت کے اہم کردار تو تھے ہی لیکن وہ ماضی میں حلب پر قبضہ کرنے و الے جنگجوئوں کے کمانڈر بھی رہے۔ 2011ء سے 2016ء کے دوران ابو یوسف حلب میں قائم اسلامی انقلابی عدالت کے جج (قاضی) بھی رہے۔ ان پر حمص میں علویوں اور شیعوں کی مختصر آبادی کی نسل کشی کا الزام بھی ہے اور جہاد بالنکاح کے لئے مفتوحہ شامی (ماضی میں) علاقوں سے علوی و شیعہ خاندانوں کی خواتین کے اغوا اور ان کی جنگجوئوں میں مرحلہ وار تقسیم کا سنگین الزام بھی۔

ابو یوسف حالیہ بغاوت میں بھی اہم کمانڈر سمجھے جاتے تھے پھر اچانک کیا ہوا کہ امریکی فضائیہ نے اس کے کیمپوں پر بمباری کردی؟

کہا جارہا ہے کہ ابو یوسف اوران کے بعض ہمراہی داعشی کمانڈرز کے خیال میں الجولانی، محمد البشیر اوران کے ساتھی اقتدار کے لئے احیائے خلافت کے مشن سے ہٹ گئے ہیں۔ خطرہ یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ ابو یوسف کا گروپ نئی صورتحال میں داعش کو الگ سے منظم کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے اس لئے الجولانی اور محمدالبشیر کے راستے کا کانٹا نکال دیا گیا۔

حالات یہ عندیہ دیتے ہیں کہ امریکہ اور ترکیہ کی کارروائیوں کا سلسلہ رکنے والا ہرگز نہیں۔ حالیہ دنوں کے دوران مغربی ذرائع ابلاغ نے بشارالاسد رجیم کے خلاف ایسی سنسنی خیز خبروں اور رپورٹوں کو اہمیت دی۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر یہ ویسی ہی صورتحال ہے جیسی خلیج کی دو جنگوں، امریکہ کے عراق پر حملے اور لیبیا میں کرنل معمر قذافی کے خلاف ہوئی بغاوت کے دنوں میں تھی۔

اُن دنوں دنیا کے سارے گھنائونے جرائم صدام وغیرہ اور پھر قذافی رجیم کے کھاتے میں ڈالے گئے تھے۔

شام کے حوالے سے بعض تازہ خبروں کے متن کو پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ملک، علاقے اور حکمران رجیم کے نام تبدیل ہوئے ہیں باقی زیر زبر کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا صدام اور قذافی رجیم کے ادوار کے اختتام پر پڑھنے کو ملا تھا۔

دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے گولان کے بفرزون سے آگے بڑھ کر تین اہم قصبوں سمیت شام کے خاصے علاقے پر قبضہ کرکے نئے بفرزون کی حدبندی کردی ہے۔ بدھ کو حال ہی میں اسرائیلی قبضے میں لئے جانے والے علاقوں میں شامیوں نے مظاہرے بھی کئے اسرائیلی فوج نے ان مظاہروں کو پوری طاقت سے کچلنے کے ساتھ نئے مقبوضہ علاقوں میں کرفیو بھی نافذ کردیا۔

تکرار کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ ہئیت التحریر الشام کی حالیہ بغاوت میں کامیابی کے تین بڑے معاون و سرپرست امریکہ ترکیہ اور اسرائیل مشرق وسطیٰ کے نئے خدوخال وضع کرنے پر متفق ہیں مثلاً شام پر قبل ازیں بھی اسرائیل کے اِکادُکا حملے ہوتے رہے ہیں مگر بشارالاسد رجیم کے مقابلہ میں ہئیت التحریر الشام کی کامیاب بغاوت کے بعد اسرائیل نے شام کی فوجی صلاحیت کو تباہ کرنے میں جو پھرتیاں دیکھائیں ان سے اصل منصوبہ سمجھنے میں خاصی آسانی ہوگئی ہے۔

چند دن ادھر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے اسرائیل شام بفرزون کی اسرائیلی پیش قدمی سے اضافے کے بعد بفرزون میں توسیع کیلئے نئے ہتھیائے گئے علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ بادی النظر میں توسیع شدہ بفرزون میں اسرائیلی وزیراعظم کا فوجی حکام کے ساتھ دورہ اس بات کا اعلان ہے اسرائیل بفرزون کی نئی حدود سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اچھی بری بشارالاسد رجیم اسرائیل کے اس نئے کردار کے راستے میں رکاوٹ تھی جسکے مکمل خاتمے کے بعد اب امریکہ ترکیہ کے تعاون سے منصوبے کو عملی جامہ پہنارہا ہے لیکن کیا ترکیہ اپنی کٹھ پتلیوں کو شامی اقتدار کا حصہ بنواکر اسی پر قناعت کرلے گا؟

اس سوال کے جواب میں مستقبل کا منظرنامہ محفوظ ہے۔

شام کی نئی حکومت ان غیرملکی قرضوں کے معاملے سے کیسے نمٹے گی جو بعض عالمی اداروں اور ممالک نے ماضی میں شام کو دیئے تھے۔ یہ بھی کہ کیا ہئیت التحریر الشام کی صورت میں موجود مختلف الخیال جنگجو گروپوں کا اتحاد آنے والے دنوں میں اسی طرح قائم رہ سکے گا ہم ان سوالات کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی عرض کردوں کہ آنے والے دنوں میں یمن کے حوثیوں کے خلاف بھی شام کی طرز پر کارروائی کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ کیا حوثیوں کے خلاف امریکہ کی سرپرستی میں کسی نئی کارروائی کی صورت میں سعودی عرب اسی طرح امریکہ کا ہمنوا ہوگا جیسے بشار الاسد کے خلاف ہئیت التحریر الشام کی بغاوت میں ترکیہ، امریک اور اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا تھا اور اب بھی کھڑا ہے؟

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا، شام جیسی کارپٹ بمباری کا ذائقہ قبل ازیں لبنانی حزب اللہ چکھ چکی اب اگر امریکی منصوبے کے مطابق یمنی حوثیوں کے خلاف"آپریشن" ہوتا ہے تو امریکہ کی موجودہ جوبائیڈن انتظامیہ کو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری سے قبل ہی اس کا آغاز اور تکمیل دونوں کرنا ہوں گے۔

جاری ہے۔۔