Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Khabrain/
  3. Tariq Gull, Aik Munfarid Jiyala

Tariq Gull, Aik Munfarid Jiyala

4جنوری 1999ءکے تمام اخبارات میں "انوکھے انداز" میں احتجاج کرنےوالے پیپلزپارٹی کے کارکن طارق گل کے قتل کی خبر جلی انداز میں شائع ہوئی تھی۔ جب جنرل ضیاءالحق نے مسلم لیگ کے مردہ گھوڑے کو مارشل لاءکا "مسیحائی ٹانک" پلا کر اور غیر جماعتی انتخابات کا انجکشن لگا کر زندہ کیا تو ہر سیاسی طالع آزما "پیدائشی مسلم لیگی" بن کر سامنے آیا، جسے دیکھو!کارکنانِ تحریکِ پاکستان کی صف میں شمولیت کیلئے بے تاب دکھائی دیتا تھا۔ اس ملک کے سیاسی جغادریوں میں کوئی پیدائشی مسلم لیگی ہے یا نہیں، البتہ طارق گل "پیدائشی پپلیا" تھا۔ 1977ءمیں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جب بڑے بڑے نامور جیالے راتوں رات جیالاازم سے توبہ تلا کر کے "حلقہ بگوشِ مارشل لائ" ہو رہے تھے، طارق گل تب بھی بھٹو کا حقیقی پرستار تھا۔ پیپلزپارٹی کیلئے جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے ابتدائی ماہ و سال انتہائی خوفناک تھے۔ ان حالات میں جب کہ سناٹا اس حد تک غالب تھا کہ جیالوں کے نزدیک سانس لینا بھی سزا کے مترادف تھا، یہ لاغر و نحیف نوجوان تب بھی پی پی کے گن گانے اور جیئے بھٹو کے گیت الاپنے میں مصروف تھا۔

بحیثیت ایک سیاسی کارکن کے طارق گل سے ہمارا تعلق اور رشتہ سیاسی تھا۔ ایم اے او کالج کے باہر رفیق بھائی کی کینٹین یا راجگڑھ میں شیخ مولا صادق کی کینٹین پرہماری جب بھی اس سے ملاقات ہوتی، خندہ جبینی سے ملتا۔ وہ ذاتی تعلقات کے آبگینے کو سیاسی اختلافات کی گرد اور تعصبات کی آلائش سے آلودہ کرنے کا قائل نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اختلافات کے باوجود ہمارے اس سے ذاتی تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ قدرِ مشترک یہ تھی کہ وہ پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کے حقوق کی سربلندی کی جنگ لڑ رہا تھا اور ہم پیپلزپارٹی کی باقیات پر مشتمل 1985ءمیں معرض وجود میں آنے والی مسلم لیگ کے محاذ پر اسی طبقہ کے سیاسی کارکنوں کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف تھے لیکن یہ باتیں ہمارے "عہدِ جاہلیت" کی ہیں اور جب ہمارے شعور نے آنکھ کھولی اور ہمیں حقائق کا ادراک ہوا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

طارق گل جیسے مخلص اور بے لوث سیاسی کارکن کسی بھی جماعت کا حقیقی سرمایہ اور اصل اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ نفسا نفسی اور مفاد پرستی کے دور میں ان خلوص کے بندوں کے ایثار اور وفاداری ہی کا اعجاز اور کمال تھا کہ ان سیاسی جماعتوں کا وجود اور قیادتوں کا بھرم ایک عرصہ تک قائم رہا، وگرنہ ان سیاسی جماعتوں کا وجود ریت کے گھروندے کی طرح مدتوں پہلے زمیں بوس ہو چکا ہوتا اور ان کی قیادتیں حالات کی تیز دھوپ میں موم کی گڑیا کی طرح کب کی قطرہ قطرہ پگھل چکی ہوتیں۔ یہ سادہ لوح جنہیں اپنا قائد گردانتے اور جن کےلئے "قائد کا اک اشارہ۔۔۔ حاضر حاضر لہو ہمارا " کے فلک شگاف نعرے لگا کر اپنی توانائیاں ضائع کرتے ہیں وہ تو صرف اور صرف غرض کے بندے ہیں۔ ان کی سیاسی اداکاری کا مقصدِ وحید عوام کو بے وقوف بنا کر اقتدار پر قابض ہونا، اپنے غیر ملکی خفیہ بینک اکاؤنٹس، کارخانوں آفشور کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن بے وفا سیاسی جماعتوں اور اُن کی بے فیض سیاسی قیادتوں کو جب ایوانِ اقتدار میں داخل ہو کر قومی خزانہ کی بمپر لوٹ سیل لگانے کا موقع ملتا تو وہ پہلا کام یہ کرتیں کہ نگارخانہ حکومت کے دروازے ان مخلص جاں نثار اور مفلس سرفروشوں کےلئے بند کر دیتیں۔

حاجی نادر خان کے دلِ مومن کی طرح کشادہ ڈیرے پر جب بھی میری اُس سے ملاقات ہوتی، پرسشِ احوال کے بعد ہماری عنانِ گفتگو اکثر موجودہ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کی طرف مڑ جاتی۔ میں اسے قائل کرنے کی کوشش کرتا : "طارق! تمہارے جیسے پرخلوص اور باشعور سیاسی کارکنوں کو جب میں پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ(ن) ایسی جماعتوں کےلئے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ پگلے جانتے بوجھتے ریت میں کیوں ہل چلا رہے ہیں "۔ وہ مسکراتے ہوئے میرے دلائل سنتا اور پھر ٹشو پیپر سے اپنی عینک کے شیشے صاف کرتے ہوئے جواب دیتا: "حافظ صاحب! آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں حرف بہ حرف درست ہے، میں بھی سب جانتا ہوں لیکن کیا کروں۔ اگر بینظیر بدعنوان ہے تو کیا اس کے مخالفین کے ہاتھ اور دامن صاف ہیں، سیاسی کارکن تو ان دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں، تاحد نگاہ خلا ہی خلاءہے، اگر کوئی تیسرا متبادل ہے تو مجھے بتا دیجئے، جب تاحد نگاہ خلا ہی خلا ہے تو ایسے میں کیا مجھے یہ زیب دے گا کہ میں اپنی پچیس تیس سالہ سیاسی وابستگی کو داؤ پر لگا کر "لوٹا" بن جاؤں، حافظ صاحب! مجھے بتایئے آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنا بھی کہاں کی دانائی ہے"۔ بعض فن کاروں کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ ورسٹائل فن کار ہیں۔ طارق جس منفرد، چونکا دینے والے، انوکھے اور نرالے انداز سے کسی حکومت کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ پرلاتا، بے ساختہ جی چاہتا کہ اسے ایک ورسٹائل احتجاجی سیاسی کارکن قرار دیا جائے۔ اس انوکھے طرزِ احتجاج کا وہ موجد و بانی بھی تھا اور خاتم بھی۔ اس کے قتل کے بعد بہت سے جیالوں نے اس کی نقل کی کوشش کی:

نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب

کسی ایک مسئلہ پر ہزاروں افراد کف در دہاں احتجاج کر رہے ہیں لیکن طارق ان سب میں یوں نمایاں ہوتا جس طرح کوئلوں کے ڈھیر میں دمکتا ہوا ہیرا۔ اپیکا کا جلوس ہے، برہنہ پا طارق بانسری کی دھن کی طرح دبلے پتلے اپنے جسم پر صرف ایک لنگوٹ باندھے، سوکھی روٹیوں کی مالا گلے میں ڈالے، سر پر کالے پیندے والی ہنڈیا کو بطور تاج رکھے اور ہاتھ میں ایک پلے کارڈ اٹھائے احتجاج کر رہا ہے جس پر نمایاں الفاظ میں تحریر ہے "ہائے! مہنگائی مار گئی"۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلئے شاہراہ قائداعظم پر جلوس رواں دواں ہے اور طارق گل نرسیما راؤ کا بہروپ دھارے ہوئے ہے۔ سر پر ہندوانہ وضع کی ٹوپی، ماتھے پر تلک، گلے میں جوتوں کاہار، دھوتی پرشاد پنڈتوں کی مخصوص تہمد اور باقی دھڑ موہن داس کر م چندگاندھی کی طرح ننگا۔۔۔ سال 1997ئ، شہر لاہور، مقام فیصل چوک بالمقابل پنجاب اسمبلی ہال، وقت نمازِ عصر?. فٹ پاتھ پر ایک جہازی سائز کا طوطوں والا پنجرہ پڑا ہے جس میں طارق گل زنجیر بہ پا پرندے کی طرح سر جھکائے اداس بیٹھا ہے۔ پنجرے کے دروازے پر آویزاں پلے کارڈ پر صرف تین الفاظ لکھے ہیں "ضمیر کا قیدی" اور یوں طارق آصف زرداری کی رہائی کےلئے احتجاج کر رہا ہے۔ آخر کار 3جنوری 99ءکی صبح ضمیر کے اس قیدی کو ضمیر قریشی کے سے مقدر سے دوچار ہونا پڑا۔ طارق گل کی ہلاکت کی خبر کی تفصیلات پڑھتے ہوئے نہ جانے یہ سوال کیوں میرے ذہن کو بار بار کچوکے دیتا رہا : "طارق تیرے بعد انوکھے طرز احتجاج کی روایت کو کون زندہ رکھے گا؟ "

طارق گل پیپلز پارٹی کا فدائی پرستار تھا۔ ایک سچا اور سُچا فدائی پرستار! پارٹی قیادت سے بدظن کرنے کے حوالے سے اس کے ساتھ بحث فضول تھی۔ وہ ہر الزام کے جواب میں قیادت کے موقف ہی کو حرفِ آخر تسلیم کرتا۔ ایک دن مجھ سے نہ رہا گیا، میں نے پوچھ ہی لیا: "تمہاری اتنی پختہ اور حسین کمٹمنٹ کا راز کیا ہے؟ " اس نے حسب عادت فضا میں ہلکا سا قہقہہ اچھالا اور پھر بے خودی میں بے ساختہ جواب دیا، وہ جواب بہ ظاہر اوس کے قطرے کی طرح مختصر تھا لیکن بہ باطن ساون رت کی بارش کی طرح نشاط آفریں بھی تھا۔ اس نے کہا: "میری کمٹمنٹ اس لئے مضبوط اور پختہ ہے کہ میں غریب ہوں، سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں، ایک غیرت مند سیاسی کارکن کو آپ گولیوں سے چھلنی کر کے خون کا غسل دے سکتے ہیں لیکن اسے رائے اور وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے"اور پھر?. اِس غیرت مند غریب سیاسی کارکن نے جو کہاتھا سچ ثابت کر دکھایا۔ فصیلِ جسم پر تازہ لہو کے چھینٹے لئے وہ حدودِ وقت سے آگے نکل گیا۔ سنا ہے قتل ہونے سے چند روز قبل آصف زرداری رہائی کمیٹی کا کنوینئیربنایا گیا تھا۔ آصف زرداری کو رہائی ملنے سے 5برس قبل پیپلز پارٹی کا ایک سچا اور سُچا فدائی پرستارطارق گل قیدِ حیات سے آزاد ہو گیا۔