کیسے کیسے ہیرے اور خوبصورت لوگ ہمارے اردگرد ہیں، آج معلوم ہوا۔ جب کورونا وائرس جیسی موذی اور ظالم بیماری نے پورے معاشرے میں افراتفری مچا کر رکھ دی۔ جہاں کاروباری زندگی بری طرح مفلوج ہو چکی ہے وہاں لاکھوں سفید پوش لوگ کئی کئی دنوں سے فاقوں پر مجبور تھے۔ ان سخت اور مشکل ترین حالات میں میری دھرتی کے ایسے ہی خوبصورت سپوتوں نے اپنے دل کھول کر رکھ دئیے اور اپنے ان بے سہارا، لاچار اور محتاج بھائیوں کے ساتھ اخوت کا مظاہرہ کیا اور اپنے رزق میں سے ان کے رزق کا بندوبست کر کے تاریخ رقم کر دی۔ دورحاضر میں اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے ہجرت مدینہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جہاں انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے بھی ایسے ہی دل کھولے تھے۔ اور وہ یاد کیوں نہ تازہ ہو آخر ہمارے جسموں میں بھی تو وہی خون ہے اور سیانے کہتے ہیں کہ خون اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے۔ آج مشکل کی اس گھڑی میں اسی خون نے ا ثر دکھایا اور ایسا دکھایا کہ دیکھنے والے حیرت زدہ رہ گئے ہیں۔ بلاشبہ "اخوت" کے بانی جناب ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس معاشرے میں اخوت کا جو بیج بویا تھا، اس کی فصل اب پک چکی ہے اور اس کے ثمرات پاکستان کے ہر گلی محلے میں دکھنے کو مل رہے ہیں۔
قارئین کرام!جہاں لوگوں نے انفرادی طور پر اپنے تئیں محتاج اور بے سہارا بھائیوں کا درد محسوس کیا اور ان کی امداد کی وہاں مختلف ادارے بھی اس وبا کو شکست دینے اور شہریوں کو مشکلات سے نکالنے کی جنگ میں بر سریپکار دکھائی دئیے ہیں۔ انفرادی طور پر اگر بات کی جائے تو ایسے بیسوں لوگو ں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور جنہوں نے اپنا نام لینے سے سختی سے منع کیا ہے اور ان کا جذبہ یہ ہے کہ ہم جس کے لئے کر رہے ہیں وہ ہمارے نام اچھی طرح جانتا ہے نہ صرف نام بلکہ ہماری نیتوں سے بھی بخوبی واقف ہے۔ انہوں نے پہلی ہی فرصت میں وافر تعداد میں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء پیک کروائیں اور نہ صرف اپنے ملازمین، رشتے داروں بلکہ ہر اس شخص تک راشن پیک پہنچائے جہاں تک پہنچ سکتے تھے۔ کوئی روزانہ کی بنیادوں پر سبزیاں پیک کروا کر لوگو ںکے گھروں میں پہنچا رہا ہے تو کوئی صبح کے ناشتے کا انتظام کرواتا ہے۔ ایک دوست روزانہ کی بنیادوں پر ایک ہزار گھروں میں دودھ کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ بلا شبہ یہ ہمارے معاشرے کا وہ حسن ہے جن کی وجہ سے ہم ہر مصیبت و آفت سے کچھ ہی دنوں میں چھٹکارا حاصل کرجاتے ہیں۔
قارئین محترم! ایسے ہی کئی ادارے جو لوگوں میں آسانیاں تقسیم کر نے کے عظیم مشن پر گامزن ہیں کے بارے لکھا جائے تو پوری کتاب بن سکتی ہے اور اس ایک کالم میں ان کا ذکر کر نا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ایسے تمام اداروں کا کچھ نہ کچھ ذکر ضرور کروں جو میدان عمل میں مصروف ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی "اخوت" جو کام سر انجام دے رہے ہیں بلا شبہ وہ تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ کئی لاکھ خاندانوں کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچانے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور جو کل تک لینے والے تھے انہیں دینے والا بنا نا داکٹر امجد ثاقب کا ہی کمال ہے۔ مصبیت کی اس گھڑی میں روزانہ ہی ڈاکٹر صاحب کی جانب سے کوئی اچھا مشورہ موصول ہوتا ہے اور مجھے یقین ہے سیکڑوں لوگ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ خود ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی پوری ٹیم لوگوں میں کھانا تقسیم کر نے کے مشن میں مصروف ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی کسٹم ہیلتھ کئیر سوسائٹی بھی میدان عمل ہیں ہے بلکہ خود ڈاکٹر صاحب بھی دیوانہ وار لوگوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہوئے ہر مشکل گھڑی میں صف اول میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بڑے سرکاری افسر ہونے کے باوجود بھی انا، غرور اور تکبر ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا، عاجزی، انکساری اور محبت ان کی شخصیت کو مزید چار چاند لگاتے ہیں۔ ایسے ہی اسوہ فائونڈیشن کے حافظ صاحب، المائدہ ٹرسٹ، اللہ والے ٹرسٹ اور اس جیسے بیسیوں ادارے بہترین طریقے سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس موقع پر میں بالخصوص ذکر کرنا چاہوں گا جماعت اسلامی اور الخدمت فائونڈیشن والوں کا، جنہوں نے تو خدمت خلق کے حوالے سے تاریخ رقم کر دی ہے۔ ان کا جذبہ خلوص و ایثار دیکھ کر اپنے لئے بد دعائیں نکلتی ہیں کہ ہم الیکشنوں کے دنوں میں کیونکر ایسے ہیرے لوگوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں؟ جن کا مقصد حیات ہی لوگوں میں آسانیاں تقسیم کر نا ہے۔ اپنے اسی مقصد کو جاری رکھتے ہوئے الخدمت فائونڈیشن نے خدمت خلق کے تمام ریکارڈ تور ڈالے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک 58,060 افراد میں کھانا اور 76,266 خاندانوں میں راشن تقسیم کئے جا چکے ہین اور مزید جاری ہے۔ کورونا کی اس وبا کے خلاف اب تک پچاس کروڑ سے زائد کے فنڈز خرچ ہو چکے ہیں جس میں نہ صر ف کھانا، راشن بلکہ طبی عملے کو کٹس اور دوسری ضروری اشیا فراہم کی گئی ہیں۔ خدمات کی ایک طویل فہرست اس کے علاوہ ہے جو الخدمت فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے جاری ہیں۔ ان اور تمام ایسے ادارون اور افراد کی خدمات کو دیکھتے ہوئے یہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اس گئے گذرے دور میں اب بھی ہمارے پاس خوبصورت اور انمول لوگوں کی کوئی کمی نہ ہے اس لئے میں اپنی قوم کے جذبہء ایثار کو سلام پیش کرتا ہوں!