Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Horn Bajane Ka Shoq

Horn Bajane Ka Shoq

گزشتہ ہفتے مَیں اور دوست عبداللہ کلب میں بیٹھے کافی پی رہے تھے تو اس نے ہنستے ہوئے بتایا کہ اس نے چند روز قبل ٹریفک سے متعلق سات دن تک ایک تجربہ کیا ہے جسے وہ میرے ساتھ Share کرنا چاہتا ہے۔

کہنے لگا، ہر صبح اُسے چھ کلومیٹر دور اپنے آفس جانا ہوتا ہے۔ وہ یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے روزانہ گنتی کرتا رہا کہ کتنے لوگوں نے اس دوران، اس کے پیچھے آنے یا اوور ٹیک کرنے والوں نے اپنی کار کا ہارن بلا وجہ بجایا ہے۔ وہ یہ فاصلہ ہر روز بیس منٹ میں طے کر لیتا ہے۔ اس کی سات دنوں کی گنتی بیس سے پچیس ہارن یومیہ بنتی تھی۔

مجھے معلوم ہے کہ عبداللہ بہت اچھا اور محتاط کار ڈرائیور ہے۔ وہ اسپیڈ اور Lane کا خاص خیال رکھتا ہے۔ میں نے اس کا بتایا ہوا تجربہ پرکھنے کے لیے اگلے دو تین دن گاڑی چلاتے ہوئے دوسروں کے بلاوجہ بجائے گئے ہارنز کی گنتی کی تو نتیجہ فی منٹ چار یا پانچ ہارن نکلا۔ میں نے ایک روز سرخ ٹریفک سگنل کے باوجود پیچھے والے کے دو ہارن سننے کے بعد کار سے نکل کر اس کے مالک کو ڈانٹا کہ ٹریفک سگنل سرخ ہے، تم ہارن بجاتے جا رہے ہو۔ تمہارے پاس آگے نکل جانے کا اب ایک ہی راستہ ہے۔ یہاں سے Take off کرو اور نکل جائو۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنسا اور ہاتھ جوڑ دیے۔

اب تو ہم موٹر کار اور اسکوٹر کے ہارنز سننے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جب کبھی ہارن کی آواز بند ہو جائے تو اچانک سوچ آتی ہے کہ کہیں ہم لندن، جرمنی یا امریکا میں تو نہیں گھوم رہے۔ پھر ایک طویل ہارن کی آواز ہمیں دلاسہ دیتی ہے کہ پریشان مت ہو، تم وطن عزیز ہی میں ہو۔ بس اتنا دھیان کرو کہ ہارن بجانے والا تمہیں ٹکر تو نہیں مارنے لگا کیونکہ تم تو اپنی Lane میں جا رہے ہو۔ شاید ہارن بجانے والا تمہاری گاڑی کو مسلسل لین میں جاتے دیکھ کر اوور ٹیک کرتے ہوئے غصّے میں آ گیا ہے جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہے۔

کچھ عرصہ قبل اپنے کان کے درد کے علاج کے لیے ڈاکٹر علی مقدّسENT اسپیشلسٹ کے کلینک جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں دو تین مریض اور بھی بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ ENT کے ڈاکٹروں کے پاس کانوں کی سماعت کے بہت کم مریض ہوتے ہیں۔ صرف خوشحال اور تعلیم یافتہ لوگ، وہ بھی مرد حضرات سماعت کے علاج پر توجہ دیتے ہیں۔ غریب لوگ تو سماعت میں کمی کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ اس کی ایک وجہ تو ان کی کمزور مالی حالت ہوتی ہے، دوسرے وہ اس مرض کے ساتھ ہی زندگی گزار لیتے ہیں کیونکہ بہت سوں کو پچیس تیس فیصد بہرہ پن روزمرہ کاموں میں ان کو کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں کر تا۔

جو لوگ شور شرابے کے عادی ہو جائیں ان کے نزدیک یہ کوئی بیماری نہیں جس کا علاج بھی ضروری ہو۔ اسی لیے ENT ڈاکٹروں کی میڈیکل پریکٹس دوسری امراض کے ڈاکٹروں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ پھر ڈاکٹر علی مقدّس نے میرا کان چیک کرنے کے بعد بتایا کہ ٹرک، بس، ویگن ڈرائیور اور گنجان، پرشور مارکیٹوں، علاقوں کے لوگ شور کو زندگی کا حصہ سمجھ لیتے ہیں اور اپنی سماعت میں کمی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ پھر انھوں نے ایک پنجابی ضرب ُالمثل سنائی " دند گئے سوا دگیا، کن گئے ایمان گیا، تے اکھاّں گیّاں جہان گیا "۔ اب بڑے شہروں میں سماعت بہتر کرنے والے آلات کے اسٹور بھی پائے جاتے ہیں جو ڈاکٹر سے مشورہ کے بعد کانوں میں لگائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے آواز سننے میں سہولت ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک دوست یورپ سے آ کر اپنے بھائی کی موٹر پر مجھے ملنے آیا۔ پھر ہم اپنے اسکول، کالج کے پُرانے دوستوں سے ملنے جاتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈرائیونگ کے دوران ہر دو منٹ کے بعد وہ ہارن بجاتا ہے۔ میں نے اعتراض کرتے ہوئے اُس سے کہا کہ یورپ وغیرہ میں تو ہارن بجانے پر جرمانہ ہوتا ہے، تمہیں تو بیشمار بار جرمانہ ہو اہو گا۔ ہنس کر کہنے لگا کہ میں وہاں کبھی ہارن نہیں بجاتا۔ ادھر تو ہر موٹر اور بائیک سوار ہارن بجاتا ہے۔ میں تو اس خوف سے ہارن بجا دیتا ہوں کہ کوئی دوسرا مجھے ٹکر نہ دے مارے۔

موٹر کار بلکہ ہر آٹو موبائل اب ضرورت آمدو رفت کا ناگزیرذریعہ ہے۔ قدیم زمانے میں تو گھوڑا، گدھا، اونٹ سواری تھے۔ موٹروں کے ہارن تو اشد ضرورت کے طور پر اُن کے موجد نے بنائے ہوں گے تاکہ ہٹو بچو کی بلند آواز نکال کر رستہ لینے کے بجائے ایک متبادل طریقہ موٹر ہارن استعمال کیا جائے لیکن ہارن کے موجد کا قطعاً ارادہ اسے وبال ِ جان بنانے اور بازاروں، سڑکوں کو شور ذدہ کرنے کا نہیں تھا۔ Noise Pollution سے نہ صرف آرام اور یکسوئی متاثر ہوتے ہیں بلکہ بہرے پن میں اضافے کا ایک باعث بھی یہی مسلسل شور ہے۔

بعض موٹر سائیکل سوار ایک اضافی ہارن لگواتے ہیں اور اسے جی بھر کر بجاتے ہیں۔ بسوں ویگنوں کے مسلسل ہارن کا مقصد تو سواریوں کومتوجہ کرنا ہوتا ہے جب کہ بچوں کو اسکول سے لانے والے کار ڈرائیور بچوں کو متوجہ کرنے کے لیے مسلسل اور مخصوص طریقے سے ہارن بجا کر اسکولوں کے پڑوسی گھروں کو بیزار کرتے ہیں۔ لائیبریری اور عبادت گاہوں میں مصروف لوگوں کو چنگھاڑتے ہارن ان کی یکسوئی میں خلل ڈالتے ہیں۔ اکثر ڈرائیور Indicator کے استعمال سے گریز کر کے حادثات کا باعث بنتے ہیں لیکن ہارن کو بریک اور ایکسلریٹر سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

لوگ ضرور سوچتے ہوں گے کہ یورپ، امریکا، برطانیہ میں گاڑی چلانے اور speed Lane اور ہارن کا خاص خیال رکھنے والے پاکستانی واپس آتے ہی کیوں ان تینوں چیزوں سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو "جیسا دیس ویسا بھیس " ہے، دوسری وجہ جزا اور سزا کا فقدان ہے۔ اگرچہ موٹروے پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے ہمارے لوگ قانون اور اصول پر پابند رہتے ہیں لیکن موٹر وے سے اترتے ہی بے قابو اور لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ اس کا جواب صرف اس قدر ہے کہ انھیں سزا کا خوف اور قانون کا احترام ہو تو وہ کبھی بے راہ روی اختیار نہیں کریں گے۔ سڑکوں پر موٹروں کی برق رفتاری دیکھ کر آج پھر مجھے منیر نیازی کا یہ شعر بار بار یاد آتا رہا:

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ