یہ واضع حقیقت ہے کہ انسان کے اندر پانچ حسیِں ہوتی ہیں۔ یعنی پانچ Senses ہیں جو ہمیں اپنے اندر اور باہر چیزوں کو سمجھنے اور جانچنے میں مددگار ہوتی ہیں لیکن ایک نظر نہ آنے والی Sense بھی ہوتی ہے جو چیزوں کو بخوبی پرکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جسے چھٹی حِس کا نام دیا جاتا ہے۔
انسان کی پانچ Senses ذائقہ، چھونا، نظر، سماعت اور بُو ہیں جب کہ چھٹی حِس پہلی پانچوں حسِوں سے ماورا ذہنی صلاحیت ہوتی ہے۔ پہلی پانچ Senses حادثے، بے احتیاطی اور غلط استعمال سے متاثر ہو سکتی ہیں، ایک سے زیادہ Senses متاثر ہو سکتی ہیں لیکن قابل علاج بھی ہَیں۔ یہ senses حیوانات میں بھی پائی جاتی ہیں۔
بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ سمندری کھچواارضی مقناطیسی طاقت کو بھانپ لیتا ہے۔ شارک مچھلی میں الیکٹرک فیلڈ کو محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ رینڈیئر الٹرا وائیلٹ روشنی کی وجہ سے خوراک حاصل کر لیتا ہے۔ ہاتھی طویل فاصلے سے آپس میں گفتگو کر لیتے ہیں۔ مچھر اپنے شکار کو کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج سے بھانپ کر شکار کرتا ہے۔
یہاں ذکر ہو جائے نوّے سال پرانے ماہر کلاسیکل گائیک استاد عبدالکریم خان کا جن کے گھر میں اُن کا پالتو کتّا بھی تھا۔ اس کتّے کی حسِ سماعت کمال کی تھی۔ عبدالکریم خان اُتر پردیش کے ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، پھر انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کی گائیکی کی دھوم تھی، وہ اکثر گھر میں ریاض کرتے تھے۔ ایک روز انھوں نے گانے کا ریاض "پیا بن آوت نہ چین" کے بول سے شروع کیا تو ان کا پالتو کتّا ان کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔
ریاض ختم ہوا تو وہ واپس چلا گیا۔ اس کے بعد استاد عبدالکریم خان نے بھی نوٹس لیا کہ وہ جب بھی سنگیت کا سامان اپنے قریب رکھ کر ریاض شروع کرتے ان کا وہ کتّا کسی کمرے میں بھی ہوتا، ان کی آواز سُن کر دوڑا چلا آتا، سامنے خاموش کھڑا سنگیت سنُتا رہتا اور سنگیت مکمل ہونے پر واپس چلا جاتا۔ یہ نظارہ بہت سے شائقین اور استاد کے شاگردوں کے لیے باعث حیرت و اشتیاق تھا۔ وہ اسے دیکھ کر خاموش رہتے اور کبھی خلل نہ ڈالتے۔
ہر جانور میں Senses ہوتی ہیں لیکن عبدالکریم خان کے کتے میں چھُونے، سونگھنے، دیکھنے، چکھنے کے علاوہ جو حسِ سماعت تھی وہ غیر معمولی اور دوسرے جانوروں سے انوکھی تھی۔ انسان ہو یا جانور، حِس ِ سماعت کے ذریعے اچھی اور پسندیدہ آواز سے یقیناً متاثر ہو تا ہے لیکن یہ قدرت ِ خداوندی تھی کہ اُستاد عبدالکریم خان کی آواز کا شیدائی خود انھی کا پالتو کُتا تھا۔
بات استاد عبدالکریم کے ریاض والے کمرے تک محدود رہتی تو اس کا ذکر بھی کہیں اور نہ ہوتا لیکن جس تواتر سے بہت سوں نے اس عجوبے کو بارہا سُنا اوردیکھا اور اس کو دوسروں تک پہنچایا کہ کتے کی سنگیت سے عشق کی کہانی گلی محلے سے آگے شہر کے ہر کونے تک جا پہنچی اور پھر برطانیہ کے ایک شہری نے ایک گراموفون کمپنی سے تعلق رکھنے والے شخص سے اس کا ذکر کیا تو اسے حیرت ہوئی اور دلچسپی بھی پیدا ہوئی، پھر گراموفون کمپنی نے اپنے فوٹو گرافروں کے ساتھ اُتر پردیشن استاد عبدالکریم کے کُتّے کے آگے سلنڈر فونوگراف رکھ دیا جس میں سے استاد کے گیت کی آواز آ رہی تھی۔ پھر جیسے ہی ہارن میں سے گیت کی آواز نکلی، کتے نے منہ اس کے اندر ڈال دیا اسی وقت فوٹوگرافر نے فونوگرام اور کُتّے کی تصویر اُتار لی اور اس تصویر نے برطانوی ریکارڈ لیبل بن کر ٹریڈ مارک Logo کی شہرت پالی۔
استاد عبدالکریم کی گائیکی کی آواز بھی یقیناً ان کے کُتّے کے لیے محبت اور سرُور رکھتی ہو گی جو ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ دنیا میں خدائے برَتر کی اتنی زیادہ اور اقسام ہیں کہ آج تک ان کی تعداد اور اقسام ہمارے علم سے بالا اور عقل سے ماورا ہیں۔ آج جو لوگ برطانیہ اور امریکا کی مشہور گراموفون کمپنی His Masters Voice کو جانتے ہیں انھیں نہیں معلوم کہ اس کمپنی HMV کا ٹریڈ مارک یعنی Logo کہاں سے آیا۔ اِس لوگو (Logo)کی Painting بھی ایک آرٹسٹFrancis Barraud نے بنائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔