ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا خالق ارض و سماء اپنی سب سے اشرف مخلوق سے سخت ناراض ہے۔ اس نے نا معلوم کتنی دنیائیں پیدا کر رکھی ہیں اور ان میں کتنی مخلوق آباد ہے، ہم تو ابھی خود بھی نہیں سمجھ پائے جب کہ آج کل کورونا نام کے وائرس نے مبینہ طور پر ملک چین کے ایک شہر سے نکل کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اگرچہ زندگی کے بعد موت اٹل ہے اور ہر ذی روح نے بالآخر فنا ہو جانا ہے اور ہر مذہب، رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے نے پیدا کرنے والے کی طرف لوٹ جانا ہے۔ کسی کا عرصئہ حیات مختصر اور کسی کا طویل ہو سکتا ہَے لیکن مدت کا تعین کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ اس صورت حال کے پیش ِ نظر اس وبا کو سنجیدگی سے سمجھنے اور ہر کسی کو اپنے اعمال کی درستی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پہلی بات کہ اس جان لیوا وباء سے بچائو کس طرح کرنا ہے۔ دوسری بات کہ اپنے اعمال کا جائزہ کس طرح لینا اور اپنی ذات میں موجود برائیوں کا تدارک کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہَے کیونکہ خدائی آزمائش بلا مقصد نہیں آتی، اس میں ایک پیغام ہوتا ہے جس کو سمجھ کر اپنی ذات کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ جس تیزی سے اس وباء نے پھیل کر ساری دنیا کے انسانوں کو گرفت میں لے کر بیمار کیا اور دنیا کے ہر کونے میں لاکھوں سے زیادہ افراد کو موت کی وادی میں اُتارا جب کہ کروڑوں کو بے حال کیا۔
بے شمار کو مختلف امراض میں مبتلا کیا اور کبھی اس کی شدت کا گراف اوپر اور کبھی نیچے جاتا دیکھا جا رہا ہے اور پھر اسی خالق کُل کی دی ہوئی سمجھ اور عقل سے انسانوں ہی نے اس وباء کو پھیلائو سے روکنے اور موت سے بچانے کے تجربات کے بعد اس کے علاج کی ادویات اور ویکسین کے انجکشن کی تیاری میں کامیابی حاصل کی۔
ہجوم سے بھری گلیوں، دوکانوں میں بغیر ماسک پہنے ایک دوسرے سے ٹکراتے، گھومتے اور خریداری کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کے روّیوں کی صرف تین ماہ قبل کی ایک مثال ہمارے قریبی دوست میاں پرویز بھنڈارہ کی ہے۔ موصوف جو لاہور جمخانہ کلب کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ لاہور جمخانہ کلب کے سینئر ممبر اور کلب کی کمیٹی آف مینجمنٹ (COM) کے رُکن ہَیں۔ وہ امریکا گئے ہوئے تھے، تین ماہ کے بعد واپسی پر کلب گئے وہاں ملنے والا ہر دوست ان سے بغلگیر ہونے یا مصافحہ کرنے پر مُصر تھا۔
کورونا وائرس سے متعلق احتیاط کے پیش ِ نظر وہ ہر ایک سے فاصلہ رکھ کر ہاتھ چھاتی پر رکھ کر مسکرا کے ملنے کی کوشش کرتے رہے لیکن بہت سے دوستوں کا انھیں گلے لگانے پر اصرار تھا۔ وہ روزانہ جمخانہ کلب آتے فاصلہ رکھ کر چھاتی پر ہاتھ رکھے ہوئے مسکراہٹ سے محبت کا جواب دیتے لیکن اس کے باوجود کئی دوست زبردستی لپٹ جاتے جس کا نتیجہ ایک ہفتے کے بعد نکل آیا۔ انھیں بیس روز تک قید ِ تنہائی میں رہنا پڑا جب کہ ان کی بیگم کا دورّانیہ پچیس دن رہا۔
انسان ایک Social animal ہے۔ ہر روز گھر سے کسی نہ کسی سے ملنے یا کام سے نکلتا ہے۔ انسان کو تو چھوڑیے جانور بھی مل جل کر خوش رہتے ہیں۔ انسان جو روزگار میں مصروف رہتے ہیں ان کے علاوہ عمر رسیدہ لوگ بھی سیر کرتے، دوستوں سے ملتے جلتے ہیں۔ کسی لائبریری یا کھیل کے میدان میں جا کر وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عمر کا بیشتر حصہ سرکاری ملازمت میں گزار کر کسی کلب یا چائے خانے میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔
دیہات میں مل بیٹھنے، حقہ یا سگریٹ چائے پینے اور وقت گزارنے کی جگہ ڈیرہ کہلاتی ہے۔ ایسے ـڈیرے ہر بڑے گائوں میں موجود ہیں جو دیہاتیوں کی کلب کہی جا سکتی ہے۔ آج کل ایسے ڈیروں میں شامل ہونیوالے لطیفے سنا کر لطف اندوز ہونے والے بھی ملکی سیاست پر باتیں کر کے ہنسی مذاق میں وقت گزارنے کے بجائے ملکی سیاست میں اپنی گروہ بندی کر کے گالم گلوچ سے ڈیرے کو بدمزہ کرنے میں مصروف پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ پندرہ سال سے ہر بدُھ کے دن ڈاکٹر نصرت اللہ چوہدری کا کلینک اٹنڈنٹ دو ڈاکٹروں، دو ریٹائرڈ فوجی افیسروں، دو سابق بیوروکریٹوں اور کارٹونسٹ جاوید اقبال کو فون کر کے اطلاع دیتا کہ " آج بدھ ہے "، یہ ایک قسم کا Reminder ہوتا کہ ڈاکٹر نصرت رات ساڑھے سات بجے اپنے آخری Patient کا معائنہ کر کے اپنے مذکورہ دوستوں کے منتظر ہوں گے۔
اس دوستوں کے اکٹھ میں لطائف گپ شپ میں ایک گھنٹہ لگتا جس دوران حسب ِ خواہش شوگر اور بلڈ پریشر کے ٹیسٹ بھی ہو جاتے۔ اس کے بعد ڈنر ہوتا اور یوں بدھ کا دلچسپ اکٹھ ہو جاتا۔ دو تین ماہ کے عرصے میں ایک دوبار یہ ٹیلیفونک پیغام بھی آ جاتا کہ " آج بدھ نہیں ہَے " جس کا یہ مطلب کہ ڈاکٹر نصرت میٹنگ میں مصروف ہوں گے لہٰذا بُدھ کا اکٹھ نہیں ہو گا۔ کورونا وائرس کے باعث گزشتہ ایک سال کے دوران بدُھ نہیں آئی۔
ملک میں Covid کی وجہ سے شادی گھر، ہوٹل اور کاروبار کافی متاثر ہوئے۔ محنت مزدوری میں دیہاڑی داروں پر فاقوں کی نوبت آئی۔ بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ ناقابل برداشت مہنگائی نے لوگوں کی چیخیں نکالیں۔ اموات میں کورونا نے اضافہ کیا لیکن حکومتی وارننگز کے باوجود لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کر کے اس الٰہی عذاب کو درخور اعتنا نہ سمجھا، صرف محتاط اور قید تنہائی میں بہ امر مجبوری رہنے والے اس عذاب سے بچے رہے۔ خدا کرے یہ عذاب جلد ٹل جائے۔