Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Deewane Ka Khwab

Deewane Ka Khwab

یہ ایک سرد شام تھی۔ میں ایک سینئر سیاستدان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا اُن کی گرما گرم باتیں سُن رہا تھا۔ یہ گفتگو میرے لئے کسی آتش دان کی حدت سے کم نہ تھی کیونکہ سیاستدان کا تعلق اپوزیشن سے نہیں، حکومت سے تھا۔ حکومت کے ایک اہم عہدے پر بیٹھا ہوا سیاستدان جب اپنی ہی حکومت کی نااہلی کے قصے سنا رہا ہو تو اُس کے الفاظ کی حدت بڑا مزا دیتی ہے، لیکن اُس شام مجھے ایک ڈنر میں پہنچنا تھا۔ میں بار بار اپنے میزبان سے اجازت طلب کر رہا تھا لیکن وہ مجھے کوئی نہ کوئی ایسی کہانی سننے پر مجبور کر دیتے جس میں کبھی عمران خان اور کبھی عثمان بزدار ایک انتہائی ناتجربہ کار اور ناموزوں حکمران نظر آتے۔ جن کے دورِ حکومت کا آغاز اُن کے انجام کی خبر دے رہا ہے۔ یہ سینئر سیاستدان آصف زرداری کی حکومت میں بھی شامل رہے اور نواز شریف کی حکومت میں بھی اہم عہدے پر فائز رہے۔ اُن کی گفتگو سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ عمران خان وہی کر رہے ہیں جو زرداری اور نواز شریف کرتے رہے اور آخرکار عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو زرداری اور نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ میں بار بار اپنے مہربان کی خدمت میں عرض کر رہا تھا کہ آپ اپنی حکومت کو چھ ماہ تو دیدیں، چھ ماہ کے بعد ہم آپ کا حساب کتاب کر لیں گے تو تنگ آ کر عمران خان کے اس اہم اتحادی نے مجھے کہا کہ شکر کرو زرداری اور نواز شریف ایک دوسرے سے ابھی تک نالاں ہیں، جس دن ان کے معاملات طے پا گئے اُس دن ہماری حکومت ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائے گی۔ میں نے اپنے اس بہت پرانے تعلق دار سے گزارش کی کہ آپ یہ باتیں وزیراعظم عمران خان کے گوش گزار کریں۔ دو دن بعد اُن کی عمران خان سے ملاقات بھی ہو گئی لیکن یہ پتا نہیں کہ اُنہوں نے وزیراعظم کے ساتھ اپنے دل کی باتیں کیں یا نہیں کیونکہ اُن کی زیادہ تر شکایتوں کا تعلق حکومتی معاملات میں غیر منتخب افراد کی مداخلت سے تھا، جس میں جہانگیر ترین سرفہرست تھے۔ جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے کرپشن پر نااہل قرار دیا اور اُنہیں ایسے وزیراعظم کے اردگرد نظر نہیں آنا چاہئے جو دن رات کرپشن کے خلاف تقریریں کرتا ہے، لیکن حکومت کی ہر غلطی اور ہر نااہلی کی ذمہ داری جہانگیر ترین پر نہیں ڈالی جا سکتی۔
کیا ایف آئی اے کو اصغر خان کیس بند کرنے کا حکم جہانگیر ترین نے دیا ہے؟ ایف آئی اے تو عمران خان کے ماتحت ہے اور خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو ہمیں بتایا کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرپٹ ہے اور یہ کرپٹ لوگ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کر سکتے، یہ کام تو صرف میں کر سکتا ہوں۔ خان صاحب وزیراعظم بنے تو ان کی براہِ راست نگرانی میں کام کرنے والی ایف آئی اے کہہ رہی ہے کہ اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں کیونکہ شواہد موجود نہیں۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس مقدمے کو آگے بڑھانا وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وزارتِ داخلہ کو اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ویسے بھی مشرف صاحب کے وکیل فروغ نسیم وزیرِ قانون بن چکے ہیں تو یہ مقدمہ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اس معاملے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی خاموشی اختیار کئے رکھی اور مسلم لیگ (ن) نے بغاوت کا مقدمہ دائر کرنے کے بعد مشرف کو ملک سے بھگا دیا۔ یہ سب کچھ ایک خاموش سمجھوتے کا نتیجہ تھا جس میں وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیراعلیٰ پنجاب اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف ملوث تھے۔ یہ کہنا صریحاً غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی البتہ سپریم کورٹ چاہے تو مشرف کو پاکستان واپس لانے کا حکم دے سکتی ہے۔ مشرف ہماری سیاست میں ایک این آر او کی وجہ سے بدنام ہیں جس پر اُنہوں نے بطور آرمی چیف دستخط کئے۔ یہ ایک علانیہ سمجھوتہ تھا لیکن پاکستان کی سیاست میں خاموش سمجھوتوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ میں حسین شہید سہروردی کا بہت بڑا مداح ہوں لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے بھی کئی این آر او کئے۔ پہلا این آر او اُس زمانے کی کنگز پارٹی (ری پبلکن پارٹی) کے ساتھ اتحاد تھا۔ دوسرا این آر او یہ تھا کہ جب 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کو توڑنا چاہتا تھا تو اُس نے ہمارے ایک بزرگ اخبار نویس زیڈ اے سلہری کو سہروردی کے پاس بھیجا۔ سہروردی نے اسمبلی توڑنے کا مطالبہ کر دیا جو پاکستان ٹائمز میں شائع ہوا اور اسمبلی توڑ دی گئی۔ اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور یہاں سے فیصلہ غلام محمد کے خلاف آیا لیکن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے نظریۂ ضرورت ایجاد کر کے غلام محمد کا اقدام جائز قرار دے دیا (مزید تفصیل کے لئے کنور انتظار محمد خان ایڈووکیٹ کی کتاب "ایمان فروش ججوں کی داستان" پڑھیے)۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد حمود الرحمان کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے سانحہ مشرقی پاکستان کی صرف فوجی نہیں بلکہ سیاسی وجوہات پر بھی غور کیا اور یہ سفارش کی کہ جنرل یحییٰ خان، جنرل عبدالحمید خان، جنرل پیرزادہ، جنرل گل حسن، جنرل غلام عمر اور جنرل مٹھا کے خلاف 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں ٹرائل کیا جائے۔ کمیشن کی رپورٹ میں اقلیم اختر رانی عرف جنرل رانی سمیت کئی خواتین کا بھی ذکر تھا جن کے جنرل یحییٰ خان سے تعلقات تھے۔ بھٹو حکومت نے جنرل یحییٰ اور جنرل رانی کو نظر بند تو کر دیا لیکن ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا۔ ایس ایم ظفر ان دونوں کے وکیل تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب "میرے مشہور مقدمے" میں لکھا ہے کہ جنرل رانی کو تربیلا ڈیم کا ٹھیکہ دلوانے، سرکاری جہاز استعمال کرنے اور سعودی عرب میں کاروبار جیسے الزامات کا سامنا تھا۔ یحییٰ خان پر آئین سے غداری کا الزام تھا لیکن ان سب الزامات پر مقدمات نہ چلائے گئے۔ جب ایس ایم ظفر نے جنرل یحییٰ خان اور جنرل رانی کی نظر بندی کو عدالت میں چیلنج کیا تو حکومت نے ان کی نظر بندی ختم کر دی۔ کیا یہ این آر او نہیں تھا؟ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو اس این آر او کے نتیجے میں پھانسی ملی۔
جس جس نے این آر او دیا اور جس نے این آر او لیا اُسے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ نواز شریف نے مشرف کے ساتھ این آر او کیا اور سعودی عرب چلے گئے۔ آج نواز شریف پھر جیل میں ہیں۔ آصف علی زرداری نے بھی مشرف کے ساتھ این آر او کو قائم رکھا اور آج اُنہیں پھر کرپشن کے الزامات اور گرفتاری کے خدشات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ این آر او کی مخالفت کی لیکن اصغر خان کیس میں وہ نجانے کس کے ساتھ این آر او کر رہے ہیں۔ مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمے میں عمران خان کی پالیسی زرداری اور نواز شریف کی پالیسی سے مختلف نہیں۔ اس پالیسی سے عمران خان اپنی حکومت کو محفوظ سمجھیں گے لیکن وہ پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم نہیں کر سکیں گے۔ قانون کی بالادستی کا مطلب ہے قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ نواز شریف نے کرپشن کا اعتراف نہیں کیا لیکن انہیں عدالت سے سزا مل چکی ہے۔ اسد درانی آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کا اعتراف کر چکے ہیں، سپریم کورٹ ان کے خلاف کارروائی کا حکم دے چکی ہے لیکن اُنہیں سزا نہیں ملی۔ مشرف کو سپریم کورٹ آئین شکن قرار دے چکی، اُنہیں سزا نہیں ملی۔ عمران خان کی سیاسی بقا کی ضمانت اس قسم کے خاموش این آر او نہیں بلکہ قانون کی بالادستی ہے۔ اگر میری باتیں دیوانے کا خواب لگیں تو بے شک نظر انداز کر دیں لیکن پھر آپ کے ساتھ وہی ہو گا جو زرداری اور نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے۔

About Hamid Mir

Hamid Mir

Hamid Mir is a Pakistani journalist, news anchor, terrorism expert, and security analyst. He currently hosts the political talk show Capital Talk on Geo TV and also writes columns for Urdu, Hindi, Bengali, and English newspapers. He was twice banned from Pakistani television by the Pervez Musharraf government in 2007, and by the Zardari administration in June 2008. He has also received the Hilal-i-Imtiaz, Pakistan's second highest civil award.