یہ ایک ایسے جج صاحب کی کہانی ہے جو کسی زمانے میں بڑے مشہور وکیل ہوا کرتے تھے۔ وکالت کے زمانے میں اُن سے کچھ ایسی غلطیاں سرزد ہو گئیں جن کا خمیازہ اُنہوں نے جج بن کر بھگتا۔ ان جج صاحب کا نام جسٹس مولوی مشتاق حسین ہے جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا کر شہرت حاصل کی۔ یہ جج صاحب صرف نام کے مولوی تھے۔ اُن کے چہرے پر کوئی داڑھی نہیں تھی۔ 1953ء میں مولوی مشتاق حسین ایک نوجوان وکیل تھے۔ اسی زمانے میں ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنے شوہر شوکت حسین رضوی کے خلاف تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کر دیا۔ لاہور کے ایک سول جج چوہدری غلام حسین کی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو مولوی مشتاق حسین نے شوکت حسین رضوی اور اے آر شیخ نے نور جہاں کی وکالت کی۔ نور جہاں کو یہ دُکھ تھا کہ شوکت حسین رضوی نے بغیر ثبوت کے یہ الزام لگایا کہ اُنکے نذر محمد کے ساتھ تعلقات تھے۔ دوران سماعت مولوی مشتاق حسین نے نورجہاں پر جرح کرتے ہوئے اُنکے نذر محمد کیساتھ تعلقات کو ثابت کرنے کی کوشش کی تو نورجہاں نے عدالت میں کہا "میرے نذر کے ساتھ ایسے ہی تعلقات رہے ہیں جیسے مولوی مشتاق حسین کیساتھ۔ میری ان کیساتھ ملاقاتیں بھی اتنی ہی دفعہ ہوئی ہیں جتنی بار مولوی مشتاق حسین کے ساتھ اور یہ اسی سلسلے میں ہوتی رہی ہیں جس سلسلے میں مولوی مشتاق حسین کے ساتھ۔ "
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اتنے پرانے مقدمے کی تفصیلات میں نے کہاں سے نکال لی ہیں؟ جس جج صاحب کی عدالت میں نورجہاں نے یہ بیان دیا تھا اُنہی جج صاحب چوہدری غلام حسین کی کتاب "جج، جرنیل اور جنتا" میں یہ تمام تفصیلات موجود ہیں۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ نورجہاں نے بڑی متانت کے ساتھ نذر محمد کے علاوہ مولوی مشتاق حسین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی نوعیت بیان کر دی اور خلاف توقع مولوی صاحب نے یہ تمام باتیں بڑی متانت سے سنیں اور نور جہاں کے دعوے کی تردید سے گریز کیا۔ ظاہر ہے مولوی صاحب یہ مقدمہ ہار گئے لیکن کچھ عرصہ کے بعد جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مولوی صاحب کو لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔ ہائی کورٹ میں کافی عرصہ گزار کر وہ سینئر تو ہو گئے لیکن اُنہیں ترقی نہ مل سکی کیونکہ اُن کی فائل میں کئی سربستہ راز اکٹھے ہو چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مولوی صاحب اتنے مایوس ہو گئے کہ لمبی چھٹی پر سوئٹزر لینڈ چلے گئے۔
دو سال بعد جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو مولوی صاحب پاکستان واپس آ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن جسٹس صمدانی نے اس مقدمے میں بھٹو صاحب کو رہا کر دیا۔ بھٹو صاحب کو ہر قیمت پر پھانسی دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا لہٰذا اُن کے خلاف وعدہ معاف گواہ تیار کئے گئے اور وعدہ معاف گواہ تیار کرنے کے لئے ایک بم کیس بنایا گیا۔ چوہدری غلام حسین لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگنے کے کچھ عرصہ بعد مولوی مشتاق حسین کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس لگا دیا گیا۔ مولوی صاحب کی رضامندی سے چوہدری غلام حسین کو صوبے کی خصوصی عدالت برائے انسداد دہشت گردی کا سربراہ بنایا گیا۔ پھر اُن کے پاس ایک بم کیس لایا گیا۔ اس بم کیس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ فیڈرل سیکورٹی فورس کے سربراہ مسعود محمود نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ایک بم رکھوایا تھا تاکہ بم دھماکے سے ریلوے اسٹیشن پر ایئرمارشل اصغر خان کے استقبال کے لئے آنے والے لوگ منتشر ہو جائیں۔ چوہدری غلام حسین کے مطابق مقدمے کی فائل میں لکھا تھا کہ بھٹو نے مسعود محمود کو کہا، مسعود محمود نے اپنے ایک ماتحت ڈپٹی ڈائریکٹر ایف ایس ایف چوہدری نذیر احمد کو کہا، چوہدری نذیر احمد نے انسپکٹر غلام مصطفیٰ کو کہا، غلام مصطفیٰ نے لاہور کے ایک نوجوان ریاض عرف بلا کو کہا اور ریاض بلا نے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ایک گاڑی کے سیکنڈ کلاس زمانہ ڈبے کے بیت الخلا میں بم رکھ دیا اور بم چلانے کے لئے اُس کو آگ لگائی اور بھاگ گیا۔ آگ دیکھ کر عورتوں نے شور مچایا تو ایک پولیس والا ڈبے کے اندر آیا اور اُس نے بم پر پائوں مار کر آگ بجھا دی۔ مسعود محمود اور انسپکٹر غلام مصطفیٰ بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قتل کیس میں وعدہ معاف گواہ بن چکے تھے لیکن شک تھا کہ کہیں عدالت میں اپنے بیان سے مکر نہ جائیں لہٰذا اُن دونوں کے خلاف ایک نیا کیس بنا لیا گیا تاکہ قتل کے مقدمے سے بھٹو بچ بھی جائیں تو بم کیس میں بھٹو کے ساتھ ساتھ مسعود محمود کو بھی سزا دی جا سکے۔ بم کیس کی سماعت شروع ہوئی تو مولوی مشتاق حسین نے چوہدری غلام حسین کو بلایا اور کہا کہ آپ نے کیس کا فیصلہ میرٹ پر کرنا ہے۔ جب چوہدری صاحب نے مقدمے کی فائل میں سے تفتیشی افسر کی بددیانتی کے ثبوت تلاش کر لئے تو مولوی مشتاق حسین آگ بگولا ہو گئے اور انہوں نے اپنے سے سینئر لیکن ماتحت جج کو دھمکی دی کہ میں آپ کو ہائی کورٹ کا جج نہیں بنائوں گا لیکن دوسری طرف بم کیس میں ریاض عرف بلا اور چوہدری نذیر احمد اپنے اقبالی بیانوں سے منحرف ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ یہ بیانات دبائو میں آکر دیئے گئے۔ چوہدری غلام حسین نے ان دونوں ملزمان کو رہا کر دیا جس پر مولوی مشتاق حسین نے چوہدری صاحب کو ماڈل ٹائون لاہور میں اپنے گھر بلایا اور جلی کٹی سنا کر اُن کا تبادلہ میانوالی کر دیا۔ اس دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے چوہدری غلام حسین کو بلایا اور کہا کہ آپ مولوی صاحب کو مل لیں تاکہ آپ کو ہائی کورٹ کا جج بنایا جا سکے۔ چوہدری صاحب نے بددیانتی کے عوض ہائی کورٹ کا جج بننے سے معذرت کر لی جس کے بعد مارشل لاء حکومت نے انہیں اجرت بورڈ کا چیئرمین بنا کر اُن سے جان چھڑائی۔ بعد ازاں اسی بم کیس کے دبائو سے مسعود محمود نے بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر عدالت میں گواہی دی اور مولوی مشتاق حسین نے تمام تر کمزوریوں کے باوجود بھٹو صاحب کو موت کی سزا سنائی۔ جب اس سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو وہاں بھی کچھ ججوں نے چوہدری غلام حسین بننے کی کوشش کی لیکن آخرکار سپریم کورٹ نے ایک انتہائی کمزور مقدمے میں 1973ءکے آئین کے خالق اور ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو برقرار رکھ کر عالمی قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی۔
پاکستان جہاں 1979ء میں کھڑا تھا 2019ء میں بھی وہیں کھڑا ہے۔ چھ جولائی کو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی آڈیو اور وڈیو ریلیز کی جس میں وہ اپنے دوست ناصر بٹ کو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو دبائو کے تحت سزا دی کیونکہ انہیں ایک وڈیو دکھا کر بلیک میل کیا گیا۔ جج نے کہا کہ جب سے انہوں نے نواز شریف کو سزا دی ہے انہیں رات کو ڈرائونے خواب آتے ہیں۔ مریم نواز کی پریس کانفرنس سننے کے بعد مجھے چوہدری غلام حسین کی کتاب یاد آ گئی جس میں انہوں نے بتایا کہ کمزور کردار کے وکیل جج بن جائیں تو وہ اپنی جعلی عزت کو بچانے کے لئے ناانصافی پر مبنی فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے اوپر مولوی مشتاق حسین اور جسٹس انوار الحق بیٹھے ہوئے ہوں تو ماتحت عدلیہ پر دبائو ڈالنا آسان ہو جاتا ہے۔ ارشد ملک نے الزامات کی تردید کردی ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو جج ارشد ملک کے خلاف الزامات کی فوری تحقیقات کرنا ہوں گی ورنہ ارشد ملک کا کیس ہماری پوری عدلیہ کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن سکتا ہے۔