Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Qabron Ke Pathar Churana Choriye

Qabron Ke Pathar Churana Choriye

امرتسر سے ایک سکھ صحافی دوست نے ایسی فرمائش کر ڈالی جس کو پورا کرنا بہت مشکل تھا۔ کہنے لگے: آپ نے اپنے ایک کالم میں بابا گورو نانک کے بارے میں ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے اشعار شامل کر کے ہمارے دل جیت لئے ہیں۔ ہم اگلے سال مارچ میں امرتسر میں ایک سیمینار کروا رہے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ آپ اس سیمینار میں آئیں اور خطاب کریں۔ اس دعوت پر میں نے سکھ دوست کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ کیا آپ کا سیمینار بابا گورو نانک کے بارے میں ہو گا؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ نہیں، نہیں یہ سیمینار مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بارے میں ہو گا۔ یہ سُن کر مجھے کچھ دیر کے لئے چپ لگ گئی کیونکہ بابا گورو نانک کے احترام کا یہ مطلب تو نہیں کے میں رنجیت سنگھ کا بھی احترام کرتا ہوں۔ اس ناچیز نے اپنے سکھ دوست سے کہا کہ دراصل مجھے رنجیت سنگھ کی علمی خدمات سے زیادہ آشنائی نہیں ہے اس لئے میری طرف سے معذرت قبول کیجئے۔ سکھ دوست کہاں ماننے والا تھا۔ کہنے لگا: آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو تقریر لکھ کر دیدیں گے۔ آپ نے ہر صورت میں امرتسر آنا ہے۔ عجیب مشکل تھی۔ تھوڑی ہمت کی اور سکھ دوست سے کہا کہ سردار جی میری ناقص معلومات کے مطابق جب رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو اُس نے بادشاہی مسجد کے احاطے میں گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا اور شاہی قلعے کے بالکل سامنے حضوری باغ میں بارہ دری تعمیر کرائی جہاں وہ اپنی عدالت لگاتا تھا۔ حضوری باغ بارہ دری کی تعمیر میں اُس نے سنگ مرمر سمیت دیگر قیمتی پتھر استعمال کئے، یہ پتھر اُس نے جہانگیر اور نورجہاں کے مقبروں سے اکھاڑے۔ قبروں سے پتھر اکھاڑ کر اُس نے اپنی عدالت سجائی۔ ہو سکتا ہے کہ اُس نے بہت سے لوگوں کو انصاف دیا ہو لیکن قبروں سے پتھر اکھاڑ کر اُس نے تاریخ کے ساتھ جو ناانصافی کی، اُس کا جواب کون دے گا؟ یہ سُن کر سکھ دوست واہ واہ کرنے لگا اور اُس نے کہا رنجیت سنگھ مہاراج کتنے عظیم تھے اُنہوں نے قبروں سے پتھر اکھاڑ کر زندہ انسانوں کیلئے انصاف کی بنیادیں رکھیں۔ اب تو آپ کو ہمارے سیمینار میں ضرور آنا ہے۔ مجھے چشمِ تصور میں اس سیمینار کے دوران انڈے اور ٹماٹر پرواز کرتے ہوئے نظر آئے لہٰذا میں نے اس سادہ دل سکھ دوست سے زبردستی اجازت لے کر فون بند کر دیا۔

آج صبح اخبار کھولا تو ایک خبر پڑھ کر مجھے پھر سے رنجیت سنگھ یاد آ گیا۔ خبر کے مطابق آشیانہ اسکینڈل میں گرفتار پنجاب کے سابق حکمراں شہباز شریف کے بارے میں لاہور کی ایک احتساب عدالت نے کہا ہے کہ نیب شہباز شریف کے خلاف کمیشن اور کک بیکس کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا لہٰذا عدالت نے شہباز شریف کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا۔ خبر پڑھ کر یہ بھی سمجھ آ گئی کہ پچھلے کچھ دنوں سے وزیر اعظم عمران خان نیب سے اتنے غیرمطمئن کیوں نظر آ رہے ہیں۔ انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے خلاف بنائے جانے والے مقدمے کا اہم ترین کردار فواد حسن فواد تھا۔ فواد حسن فواد کے بارے میں یہ دعوے کئے گئے تھے کہ وہ وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں لیکن فی الحال ایسا نہیں ہو سکا اور اب تو حکومت میں شامل کچھ شخصیات کو یہ شک ہونے لگا ہے کہ کہیں نیب کے کچھ افسران نے شہباز شریف کو مظلوم بنانے کے لئے اُن کے خلاف ایک کمزور کیس تو نہیں بنا دیا؟ ایک انتہائی ذمہ دار شخصیت کا خیال ہے کہ فواد حسن فواد کی نیب کے ایک اہم ذمہ دار کے ساتھ کوئی پرانی چپقلش تھی لہٰذا اس چپقلش کا بدلہ لینے کے لئے فواد حسن فواد کو آشیانہ اسکینڈل میں پھنسا دیا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کیس میں خود نیب پھنستی جا رہی ہے۔ نیب کے بارے میں اس گستاخ کو کبھی بھی حسنِ ظن نہیں رہا۔ ایک دفعہ نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے مجھ سے پوچھا کہ آپ ہمیشہ نیب پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ میں نے مؤدبانہ انداز میں اُنہیں کہا کہ آپ کی حکومت نے جن سیاستدانوں کو کرپشن کے الزام میں پکڑا بعد ازاں نیب کے ذریعے اُنہیں وزیر بنا دیا۔ اگر آپ میری جگہ ہوں تو کیا آپ نیب کی تعریف کریں گے؟ شاہد عزیز صاحب نے جلدی جلدی مجھے چائے پلائی اور رخصت کر دیا۔ ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نیب کے چیئرمین بنے تو ایک دن اُنہوں نے مجھے نیب کے کارناموں سے آگاہ کرنے کیلئے بلایا۔ میں نے نیب کے اندرونی معاملات پر کچھ سوالات کئے تو وہ لاجواب ہو گئے۔ ہمارے ملک کو نیب جیسے ایک ادارے کی سخت ضرورت ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اس ادارے کا سربراہ کوئی سابق فوجی افسر یا سابق جج ہو؟ یہ ادارہ دراصل نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں، 1997ء میں قائم کیا اور اپنی پارٹی کے سینیٹر سیف الرحمٰن کو اس کا سربراہ بنا دیا۔ سینیٹر سیف الرحمٰن کے زمانے میں بھی یہ ادارہ احتساب بیورو کہلاتا تھا۔ سیف الرحمٰن کو بطور چیئرمین احتساب بیورو لامحدود اختیارات حاصل تھے اور انہوں نے اپنے ان اختیارات کے ذریعے احتساب کی قبر کھود کر اُس پر ایک خوبصورت مقبرہ بنا دیا تھا۔ نومبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے احتساب کے اسی مقبرے کے کچھ پتھر اُکھاڑے اور نیب کے نام سے بنائے گئے ادارے میں لگا کر قوم کو ایک نئے دور کی نوید دی لیکن اس نئے دور میں بھی نیب نے سیاستدانوں کو اور سیاستدانوں نے نیب کو بدنام کیا۔ مشرف کے بعد پیپلز پارٹی آئی، پھر مسلم لیگ (ن) آئی اب تحریک انصاف آ گئی ہے، سب جماعتوں کی حکومتوں نے نیب کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن جب سے نیب نے کچھ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا ہے یہ ادارہ عام لوگوں میں اپنی رہی سہی عزت کھو چکا ہے۔ اب اس ادارے کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اپنی ساکھ کی بحالی کے لئے صحافیوں اور اینکروں کو بھی ہتھکڑیاں لگائیں۔ میں اس تجویز کا خیرمقدم کرتا ہوں کیونکہ 2012ء میں اس خاکسار نے خود سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ میڈیا کا احتساب کیا جائے لیکن احتساب کا مطلب سنے سنائے الزامات نہیں بلکہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر کارروائی ہوتا ہے۔ ایسی کارروائی کرنی ہے تو ضرور کریں۔

حیرت ہے کہ نیب کے پاس کسی بھی سیاستدان یا بیورو کریٹ کے 90 دن کا ریمانڈ لینے کا اختیار ہے، نیب کسی بھی سویلین کو بغیر ثبوت اور مقدمے کے گرفتار بھی کر سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ ادارہ شہباز شریف کے خلاف کوئی ثبوت حاصل نہیں کر سکا۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ وہ اربوں روپے قومی خزانے میں جمع کروا چکا ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بھی 2013ء سے 2018ء کے دوران قومی خزانے میں اربوں روپے جمع کرائے۔ کرپشن ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے اور کرپشن کے خاتمے کیلئے نیب جیسے ادارے کو کامیاب بنانا بہت ضروری ہے لیکن نیب کے اندر بھی چیک اینڈ بیلنس کا مؤثر نظام نظر آنا چاہئے۔ نیب کو مزید کارگر بنانے کیلئے نیب کے قانون میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلیاں نہ کی گئیں اور نیب کا احتساب نہ کیا گیا تو نیب ریاستی اداروں میں غلط فہمیاں پیدا کرتا رہے گا اور ہمیشہ متنازع رہے گا۔ رنجیت سنگھ نے جہانگیر اور نورجہاں کی قبر سے پتھر اکھاڑ کر اپنی عدالت سجائی تھی، مشرف نے نواز شریف کے احتساب بیورو کی قبر سے پتھر اکھاڑ کر نیب بنایا لیکن قبروں کے پتھروں سے جان چھڑایئے اور احتساب کا نیا ادارہ بنانے کیلئے نیا قانون بنایئے۔

About Hamid Mir

Hamid Mir

Hamid Mir is a Pakistani journalist, news anchor, terrorism expert, and security analyst. He currently hosts the political talk show Capital Talk on Geo TV and also writes columns for Urdu, Hindi, Bengali, and English newspapers. He was twice banned from Pakistani television by the Pervez Musharraf government in 2007, and by the Zardari administration in June 2008. He has also received the Hilal-i-Imtiaz, Pakistan's second highest civil award.