Friday, 14 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Irfan Siddiqui
    4. 190 Million Pound, Corruption Ki Tilism e Hoshruba

    190 Million Pound, Corruption Ki Tilism e Hoshruba

    190 ملین پائونڈ کے عنوان سے معروفِ زمانہ مقدمے کا فیصلہ آ گیا۔ اِس طلسمِ ہوش رُبا کا پہلاباب، سندھ سے طلوع ہوتا ہے جہاں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بحریہ ٹائون کے درمیان وسیع وعریض زمین کاتبادلہ ہوا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اِس ڈیل کو خلافِ قانون اور ناجائز قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹائون پر 460 ارب روپے کا جرمانہ عائد کردیاگیا۔ ساڑھے سات برس میں یہ رقم ادا کرنے کے لئے قسط بندی کر دی گئی اور اس مقصد کے لئے، سپریم کورٹ کے زیرنگرانی، نیشنل بنک میں ایک خصوصی اکائونٹ کھول دیاگیا۔

    دوسراباب دسمبر2018ء میں کھُلا جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے کچھ کھاتوں میں بے قاعدگی کا سراغ لگایا، تحقیقات کیں اور اُنہیں جُرم سے نتھی کرتے ہوئے منجمد کردیا۔ باہمی سمجھوتے کے تحت، مزید کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے بغیر190 ملین پائونڈ کی رقم، ریاستِ پاکستان کو منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ برطانوی کرائم ایجنسی (NCA) نے باضابطہ طورپر پاکستان کو مطلع کردیا۔ یہاں سے کہانی کا تیسرا بابِ تحیّر کھُلتا ہے۔

    وزیراعظم عمران خان کے مشیرِ احتساب اور "اثاثہ جات بازیابی یونٹ" (ARU) کے سربراہ شہزاد اکبر بھاگم بھاگ لندن پہنچے۔ کرائم ایجنسی کی انتظامیہ اور بحریہ ٹائون کے ملک ریاض سے ملاقاتیں کیں۔ یہاں برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ایک اور معاہدہ طے پایا۔ شہزاد اکبر ڈھول پیٹتے ہوئے وطن واپس آئے کہ تاریخ کی سب سے بڑی رقم بازیاب کرلی گئی جو ریاستِ پاکستان کو واپس مل رہی ہے۔ انتہائی مجرمانہ واردات یہ ہوئی کہ شہزاد اکبرنے، برطانوی ایجنسی کو رقم جمع کرانے کیلئے ریاستِ پاکستان کے اکائونٹ کے بجائے، پراپرٹی ٹائیکون کے اُس کھاتے کا نمبر دے دیا جو بحریہ ٹائون کے جرمانے کی ادائیگی کیلئے کھُلا تھا۔

    سادہ الفاظ میں یہ کہ جس فرد سے برطانوی ایجنسی نے بھاری رقم وصول کرکے ریاست پاکستان کو بھیجنا تھی، پاکستان کے برسراقتدار طاقتور گروہ نے اُسی فرد کو واپس کردی۔ سو ٹیکس کاٹ کر 171 ملین پائونڈ سے زائد رقم پاکستان تو آ گئی لیکن پاکستان کے عوام اُس سے محروم کردیے گئے۔ ایسا کیوں کیاگیا؟ ایسا کرنے والوں کو کیا ملا؟ کیا یہ واقعی سنگین کرپشن کی واردات تھی؟ کہانی کے مختلف ابواب اِن سوالوں کا نہایت واضح جواب دیتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں کی نیم تاریک راہداریوں اور اسلام آباد کے کچھ پُرتعیش گھروں میں معاملات طے پائے۔

    مفادِ باہمی کی خفیہ "مفاہمتی یاداشت" کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک عجوبہ روزگار واردات دسمبر کے اوائل میں ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت، کابینہ کا اجلاس، رسمی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد ختم ہونے کو تھا کہ شہزاد اکبر نے ایک سیل بند لفافہ لہراتے ہوئے کہا۔۔ "ایک ایجنڈا آئٹم اور بھی ہے۔ " کم وبیش نصف درجن وزرا نے سوال اٹھایا کہ "ہمیں کیا معلوم اس بند لفافے میں کیا ہے؟ ہم کیسے آنکھیں بند کرکے اس کی منظوری دے دیں۔ " وزیراعظم نے اعتراض مسترد کردیا۔ وزرا خاموش ہوگئے۔ اس خاموشی کو ایجنڈا آئیٹم کی توثیق قرار دے دیا گیا۔

    دو تین ہفتوں بعد، جنوری 2020ء میں، تحصیل سوہاوہ ضلع جہلم میں بحریہ ٹائون نے 485 کنال، 4 مرلہ اور 58 مربع فٹ زمین وزیراعظم عمران خان کے رفیقِ خاص اور دستِ راست ذُلفی بخاری کے نام کر دی۔ راتوں رات القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ بھی رجسٹر کرا دیاگیا۔ جنوری 2021ء میں یہ ساری زمین چار ٹرسٹیوں (عمران خان، بشریٰ بی بی، بابر اعوان اور ذُلفی بخاری) پر مشتمل ٹرسٹ کے نام منتقل ہوگئی۔ چار ماہ بعد ٹرسٹ کے چیئرمین عمران خان متعلقہ اتھارٹی کو خط لکھ کر بابراعوان اور ذُلفی بخاری کو ٹرسٹ سے خارج کردیتے ہیں۔ یوں زمین سمیت ٹرسٹ کے سارے اثاثے میاں بیوی کی ملکیت بن گئے۔

    پی۔ ٹی۔ آئی کی "ریاست مدینہ" میں رقم ہونے والی اس پُراسرار داستان نے، امانت ودیانت کی ایک صوفیانہ کروٹ اُس وقت لی جب 137 سال پرانے، ٹرسٹ ایکٹ1882ء میں ترمیم کرتے ہوئے اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ2020ء نافذالعمل ہوگیا۔ قرار دیاگیا کہ اسلام آباد کی حدود میں واقع تمام ٹرسٹ، نئے قانون کے تحت خود کو رجسٹر کرائیں ورنہ اُن کی رجسٹریشن منسوخ ہوجائے گی۔ کوئی باور کرسکتا ہے کہ خود القادر ٹرسٹ، نے اپنے آپ کو نئے قانون کے تحت رجسٹر نہ کرایا اور یوں صرف آٹھ ماہ بعد، قانون کی نظر میں القادر ٹرسٹ، دَم توڑ گیا۔ اِس کی ساری زمین اور تمام اثاثے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے ذاتی تصرف میں آ گئے۔

    عدالتی فیصلے میں ایک اور حیرت فزا کہانی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ جن دِنوں 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں گئے اور القادر یونیورسٹی، کا بابِ فضیلت کھُلا، عین اُنہی دِنوں جولائی اور اکتوبر 2021ء میں، بحریہ ٹائون مالکان کی طرف سے دو قسطوں میں، بنی گالہ کے قرب وجوار میں 245 کنال نہایت قیمتی اراضی بشریٰ بی بی کی قریبی دوست فرح شہزادی کے نام منتقل کی گئی۔ بحریہ ٹائون انتظامیہ اور بشریٰ بی بی کے دستخطوں سے ایک اور معاہدہ بھی سامنے آیا ہے جس کے تحت القادر یونیورسٹی، کی تعمیر، فرنیچر، ہرنوع کے سازوسامان اور عملے کی تنخواہوں سمیت تمام اخراجاتِ جاریہ کی ذمہ داری بحریہ ٹائون نے اٹھالی۔

    حسین شہید سہروردی سے شہبازشریف تک متعدد وزرائے اعظم اور سیاستدانوں پر کرپشن سمیت کیسے کیسے الزامات نہیں لگے۔ کسی ایک پر بھی ایسے ٹھوس، ناقابلِ تردید اور واضح شواہد کے ساتھ مقدمہ نہیں بن پایا۔ 190 ملین پائونڈ تو دیدہ دلیری، بدعنوانی اور لوٹ مار کی ایسی کہانی ہے جس میں کوئی جھول ہے نہ کمی کجی۔ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے لے کر 171 ملین پائونڈ ایک مخصوص کھاتے میں ڈالنے اور اس کھاتہ دار سے اربوں روپے رشوت اور "کک بیکس" کے طورپر وصول کرنے کی کہانی کی تمام چُولیں مضبوطی سے ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور زنجیر کی ہرکڑی، دوسری کڑی سے جُڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیانیہ سازی کے ہُنر میں طاق قبیلہ بھی ہکلانے لگا ہے اور اُسکے لئے کارِمُوشگافی مشکل ہوگیا ہے۔

    چھبیس برس تک دوسروں کو چور، ڈاکو، لٹیرے، منی لانڈرر، کرپٹ اور عوام دشمن قرار دینے والا کردار، صرف ایک مقدمے نے پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ سونے کی انگوٹھیوں اور پسِ چلمن کے مفادباہمی کی داستانوں کو جانے دیجئے۔ لائق فکر بات یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ ممکن ہے یہ محبوب سبحانی، غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے روحانی تصرّفات کا کوئی معجز نما پہلو ہو جن کامبارک نام کھلی کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار سے جُڑی ایک متعفن واردات سے جوڑ دیاگیا۔

    ستم بالائے ستم یہ کہ اب تاویلات کا حیاباختہ سلسلہ اِس شرمناک دلیل کے ساتھ جوڑا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ سرکارِِمدینہ ﷺ کی تعلیمات کے فروغ کے لئے کیاجا رہا تھا۔ کرپشن کی یہ واردات درجنوں سوالات اٹھا رہی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان اور اُنکے شریکِ جرم ساتھیوں نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا تو پھر سینکڑوں ایکڑ اراضی، نقد رقوم، ہیرے جواہرات اور لاتعداد دوسری عنایات کی برکھا عمران خان، بشریٰ بی بی اور اُن کے حاشیہ نشینوں پر کیوں برستی رہی؟ کیا کوئی کاروباری شخص اس قسم کے "سودے" کا تصور بھی کرسکتا ہے چاہے اُس کے سینے میں حاتم طائی کا دِل ہی کیوں نہ دھڑکتا ہو؟