Saturday, 21 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Fikri Azadi Ya Fikri Ghulami

Fikri Azadi Ya Fikri Ghulami

مولانا عمر احمد عثمانیؒ بیسویں صدی کے ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ تحریک پاکستان کے مشہور کردار اور مفسر قرآن مولانا شبیر احمد عثمانی کے بھتیجے اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے بیٹے تھے۔ یہ وہی ظفر احمد عثمانیؒ تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا۔ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ حضرت تھانویؒ کے بھانجے تھے۔

مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے اجداد میں دو پشت اوپر شیخ کرامت حسین نامی بزرگ تھے جو بانی دارالعلوم دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے استاد تھے۔ بعد میں انہی کی صاحبزادی سے مولانا ناتویؒ کی شادی ہوئی اور وہ مولانا کے سسر کہلائے اور اسی تعلق کی بنا پر مولانا اپنے آبائی وطن نانوتہ سے دیوبند منتقل ہوئے تھے۔

مولانا عمر احمد عثمانیؒ اپنے عہد کے تجدد پسند دانشور غلام احمد پرویز سے متاثر تھے۔ فجر الاسلام اور ضحیٰ الاسلام مشہور مصری مؤرخ ڈاکٹر احمد امین مصری کی اسلامی تہذیب و ثقافت پر مشہور عالم کتب تھیں جن کا ترجمہ مولانا عمر احمد عثمانیؒ نے کیا تھا اور ادارہ طلوع اسلام نے ان کے یہ دونوں ترجمے شائع کیے تھے۔ غلام احمد پرویز سے متاثر ہو کر انہوں نے آزادانہ غور و فکر اور روایتی فکر سے ہٹ کر "فکری آزادی" کا نعرہ بلند کیا تھا۔

اس "فکری آزادی" کے حوالے سے ان کے والد مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور شیخ تھانویؒ انہیں سمجھاتے رہتے تھے مگر مولانا عمر عثمانیؒ اپنے فہم اور دلیل کو حرف آخر سمجھتے تھے۔ مولانا عمر عثمانیؒ جب مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے فارغ التحصیل ہوئے تو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کا ارادہ کیا مگر والد صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی۔ تین سال تک ناکام رہنے کے بعد انہوں نے ارادہ کیا کہ بغیر اجازت کے ہی اس ارادہ کو عملی جامہ پہنا لیا جائے۔ انہوں نے اتنی رقم جمع کی کہ چار ماہ تک میں اپنا خرچ خود برداشت کر سکیں۔

1937 میں رمضان کا مہینہ تھا، مولانا عمر عثمانیؒ حضرت تھانویؒ اور والد صاحب سے یہ کہہ کر کہ میں کاندھلہ جا رہا ہوں تھانہ بھون سے نکلے اور کاندھلہ میں تین روز قیام کے بعدسیدھا دہلی چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مدرسہ فتح پوری میں مولوی فاضل کلاس میں داخلہ لے لیا۔ عید کی چھٹیاں ہوئیں تو تھانہ بھون آنا پڑا۔ حضرت تھانویؒ کو معلوم تھا کہ مولانا عمر عثمانیؒ کاندھلہ میں تین چار روز سے زیادہ نہیں ٹھہرتے تھے۔ جب وہ حضرت تھانویؒ کو حسب عادت سلام کرنے حاضر ہوئے تو حضرت نے پوچھ لیا کہ اس مرتبہ تم کاندھلہ بہت رہے۔

آخر انہیں بتانا پڑا کہ وہ کاندھلہ کے بجائے دہلی چلے گئے تھے۔ حضرت نے پوچھا دہلی کیوں گئے؟ مولانا عثمانیؒ کچھ دیر خاموش رہے، حضرت تھانویؒ نے خود ہی فرمایا کہ کیا ملازمت تلاش کرنے گئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ پھر کیوں گئے؟ آخر مولانا عثمانیؒ نے کہہ دیا کہ انہوں نے فتحپوری مدرسہ میں مولوی فاضل کی کلاس میں داخلہ لے لیا ہے۔ حضرت نے بڑی حیرت سے کہا مولوی فاضل کلاس میں؟ انہوں نے عرض کیا، جی۔ حضرت خاموش ہو گئے۔

حضرت اس وقت اپنی سہ دری کے برآمدہ میں وضو فرما رہے تھے، جب تک وہ وضو فرماتے رہے مولانا عثمانیؒ وہیں بیٹھے رہے۔ نہ حضرت تھانوی بولے۔ نہ انہوں نے کچھ عرض کیا۔ اس برآمدہ کے ساتھ ہی مولانا عثمانیؒ کے والد مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کا کمرہ تھا جہاں وہ اعلاء السنن پر کام کر رہے تھے۔ یہ ساری گفتگو مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے بھی سن لی۔ حضرت تھانویؒ وضو کرکے اُٹھ گئے۔

مولانا عمر عثمانیؒ نے بھی نماز پڑھی اور گھر چلے آئے۔ نماز کے بعد ان کے والد مولانا ظفر احمد عثمانیؒ بھی آ گئے اور آتے ہی اہلیہ پر برس پڑے کہ صاحبزادے کی حرکت دیکھی۔ مولوی فاضل کی کلاس میں داخلہ لیا ہے۔ حضرت تھانویؒ کو بہت صدمہ ہوا ہے اور حضرت نے بڑے حیرت و استعجاب سے یوں فرمایا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ دنوں بعد حضرت تھانویؒ نے مولانا عمر عثمانیؒ کو بلایا اور فرمایا کہ تمہیں ابھی سے مستقبل کی اتنی فکر کیوں ہے۔ مولوی ظفر نے مجھے بتایا ہے کہ جب تک تم پڑھتے رہے وہ تمہیں بیس روپے ماہوار دیتے رہے ہیں۔ کیوں یہ ٹھیک ہے؟ مولانا عمر عثمانیؒ نے کہا جی ہاں ٹھیک ہے۔

حضرت نے فرمایا کہ مولوی ظفر نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ بہو کو جیب خرچ کے لیے دس روپے ماہوار دیتے ہیں۔ کیوں یہ بھی ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ حضرت تھانویؒ فرمانے لگے کہ مولوی ظفر کہتے ہیں کہ میں جو کچھ کماتا ہوں تمہارے لیے ہی کماتا ہوں، میں قبر میں تو اپنے ساتھ کچھ لے جانے سے رہا پھر تمہیں ابھی سے مستقبل کی اس قدر فکر کیوں ہے؟ مولانا عمر عثمانیؒ خاموش رہے مگر بہر حال فیصلہ انہوں نے خود کیا اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا کیونکہ وہ اس فیصلے سے بہت پہلے "فکری آزادی" کا فیصلہ کر چکے تھے۔

مولانا عمر عثمانی کے "فکری آزادی" کے نعرے کی طرح حال ہی میں میرے ایک ممدوح اور استاد ڈاکٹر صاحب نے بھی "فکری آزادی" کا نعرہ بلند کیا ہے۔ یہ نعرہ انہوں نے سوشل میڈیا کی دیوار پر آویزاں کیا اور اس نعرے کے بعد ایک ہجوم تھا جو ان کی وال پر اُمڈ آیا اور واہ واہ کے ساتھ اش اش بھی کر اٹھا۔

میرے یہ ممدوح ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا پر جتنے عرصے سے متحرک ہیں اور جتنی تندہی سے متحرک ہیں اتنی فوج تو ماشاء اللہ اکٹھی کر چکے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی پوسٹ سامنے آتے ہی واہ واہ اور طنز و تشنیع کا اچھا خاصا اہتمام ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو "اون" کریں یا نہ لیکن بہر حال یہ "صدقہ جاریہ" ان کے نامہ اعمال میں ہی لکھا جاتا ہے۔ اس اعلان کے بعد بھی کچھ اسی طرح کے تاثرات سامنے آئے، "فکری آزادی" کے انتخاب پر داد و تحسین کے ساتھ روایت و اہل روایت کو بھی احساس دلایا گیا۔ شاید ڈاکٹر صاحب کو بھی اس "فکری آزادی" کے وہ فوائد و ثمرات معلوم نہیں تھے جو ان کے چاہنے والوں نے ان کو گنوائے۔

مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب بھی اب اپنے متبعین کے لیے "اکابر" کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ انہوں نے شعوری عمر سے روایتی فکر سے الگ ہو کر "فکری آزادی" کا جو مسلک اختیار کیا تھا اب اس مسلک کے پیروکاروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی فکری آزادی کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمہ روایتی فکر، اس کے استدلال اور نتائج سے اتفاق ضروری نہیں بلکہ ہر کسی کو از خود اپنی عقل، اپنے فہم اور استدلال سے کسی نتیجے پر پہنچنے کا حق ہونا چاہئے۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے "فکری آزادی" کے عنوان سے جس مسلک کی بنا ڈالی ہے اس کے پیرو کاروں کے نزدیک ڈاکٹر صاحب ایسے "اکابر" ہیں جو مکمل طور پر صحیح الفکر ہیں اور ان کے استدلال اور نتائج فکر سے اختلاف قدامت پسندی، تنگ نظری اور عصری شعور سے بے گانگی ہے۔

میں اس مسلک کا نہ صرف عینی شاہد ہوں بلکہ گاہے گاہے اس کی زد میں بھی رہتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا روایت سے وابستہ اہل علم فکری طور پر غلام ہیں اور کیا روایت سے وابستگی فکری غلامی کی علامت ہے؟ کیا دیوبندی روایت میں فکری تنوع فکری آزادی کی بہترین مثال نہیں؟ (باقی اگلے کالم میں)