مجھے نہیں پتہ یہ درست خبر ہے یا نہیں کہ ای ڈی او نے سرگودھا کے ایک سکول میں چیکنگ کے دوران ایک لیڈی استاد کی کلاس روم میں ڈرائی فروٹ کھانے پر انکوائری شروع کر دی ہے کہ اس سے بچوں کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔
شاید یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ انسانی مزاج ہے کہ دوسروں کو کھاتے دیکھ کر ہمیں بھی بھوک لگ جاتی ہے۔ میرے جیسے لندھے اور لوسی بچے ویسے ہی اس معاملے میں کمزور ہوتے ہیں۔ لہذا اگر استاد کلاس روم میں ڈرائی فروٹ کھا رہی ہوگی تو یقیناََ بچوں کا دل بھی للچائے گا۔ میں اگر اس کلاس میں بیٹھا ہوتا تو میرا بھی یقیناََ للچاتا۔ اب اس استاد سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ جہاں اپنے لیے ڈرائی فروٹ لاتی ہے تو کچھ ان بچوں کے لیے بھی لایا کرے اور سب مل کر کھایا کریں۔
ہمارے ہاں بچوں کے والدین ڈرائی فروٹ افورڈ نہیں کرسکتے کہ وہ ہر بچے کو خرید کر دیں کہ بیٹا آپ بھی کلاس روم میں کھانا۔
خیر اس پر سکول ٹیچر صاحبہ کی انکوائری کی بجائے محض اسے بتا دیا جاتا یا وارننگ دی جاتی کہ ایسا نہ کریں تاکہ بچے للچائی نظروں سے نہ دیکھتے رہیں۔
اب اس ایشو پر ایک تحریری حکم نامہ جاری کرکے ٹیچر کو دفتر بلا کر انکوائری کرنا کچھ زیادہ ہی غیر ضروری ری ایکشن ہے جس کی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ رائی کا پہاڑ بنایا گیا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے گائوں کے سکول میں ہمارے محترم استاد طالب حسین شاہ صاحب، استاد نذیر قریشی صاحب، استاد گل محمد ونجھیرہ صاحب کبھی کبھار وہیں سکول میں مونگ پھیلیاں اور مالٹے منگوا کر کھاتے تھے اور ہم بچے رالیں بہاتے تھے۔
میں شاید پہلے بھی دو تین دفعہ یہ واقعہ لکھ چکا ہوں کہ 2006 میں جب گولڈ اسمتھ کالج لندن میں داخلہ ہوا تو وہاں چار پانچ کلاسز پڑھنی ہوتی تھیں۔ ایک دن ایک کلاس روم میں گیا تو وہاں کلاس میں سب اسٹوڈنٹس کے پاس پہلے سے کافی کا مگ، سینڈوچ یا مافن ٹائپ کیک تھے جو وہ کھا رہے تھے۔
میں نے کالج کنٹین سے کچھ نہیں لیا تھا کہ بھلا کون اپنی کلاس میں ناشتہ ساتھ لے کر جاتا ہے۔ ہم تو پاکستانی سکولز میں سوچ ہی نہیں سکتے تھےکہ کوئی بچہ چائے کا مگ یا ناشتہ کلاس میں کھاتا پایا جائے خصوصا جب استاد پڑھا رہا ہو۔
میں نے ان سب کو کھاتے پیتے دیکھا تو دل میں خوش ہوا کہ آج ان سب کی خیر نہیں ہے۔ ابھی پروفیسر ان سب کی کلاس لے گی کہ تم لوگوں کو کوئی خیال نہیں۔ یہ تو بدتمیزی ہے کہ کلاس میں کھانا پینا چل رہا ہے۔ کلاس روم میں ہر طرف کافی اور سینڈوچ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
اتنی دیر میں ایک دراز قد خوبصورت گوری پروفیسر کلاس روم میں داخل ہوئی۔
لو جی اس کے ہاتھ میں بھی کافی کا مگ اور سینڈوچ تھا۔ اس نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھا۔ ہم سب کو مسکرا کر ہیلو کہا۔
اب یہ سب دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے بلکہ کافی اور سینڈوچ کی خوشبو نے میری بھوک بڑھکا دی۔ اب میں سب کو ایک لوسی لندھے کی طرح کھاتے پیتے دیکھ رہا ہوں۔
مجھے اپنے لبوں پر بار بار زبان پھیرتے دیکھ کر میرے قریب بیٹھی کلاس فیلو نے دیکھا تو دھیرے سے بولی جاو تم بھی کافی پکڑ کر لے آئو کالج کنٹین سے۔
میں نے اشارہ کیا کہ میڈیم ناراض ہوں گی کہ کلاس سے باہر کیوں جارہا ہے۔
اس نے مسکرا کر مجھے آنکھ ماری کہ جائو کچھ نہیں کہے گی۔
میں ڈرتے ڈرتے اٹھا اور اپنی پروفیسر کی طرف دیکھے بغیر کلاس روم سے نکل گیا۔ کنٹین سے جلدی سے کافی لی، ایک سینڈوچ پکڑا اور کلاس روم میں لوٹ کر اپنی کرسی پر بیٹھ کر کافی کے سپ لینا شروع ہوا۔
پروفیسر صاحبہ اب سینڈوچ بعد کافی پی رہی تھیں اور تعارف ابھی چل رہا تھا اور میں نے ایسے ایکٹ کیا جیسے کچھ نہیں ہوا تھا۔
اس پروفیسر صاحبہ نے چند لحمے بعد مجھے مسکرا کر دیکھا اور بولیں pls tell us about yourself
اب مجھے فکر پڑ گئی پہلے منہ میں موجود سینڈوچ کو کھائوں، گرم کافی کا سپ لوں یا پہلے سب کو اپنا تعارف کرائوں۔
گوری پروفیسر میری یہ حالت دیکھ کر محظوظ ہورہی تھی۔
اب آپ اندازہ کرسکتے ہیں ساری عمر اپنے استادوں کے خوف کی حد تک احترام کے کلچر سے آئے طالبعلم نے اپنے بارے کیا بتایا ہوگا جس سے کھانے پینے کے دوران اچانک اس کا تعارف مانگ لیا گیا تھا۔