Thursday, 24 April 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Irfan Siddiqui
    4. Kya Toheen Sirf Adliya He Ki Hoti Hai?

    Kya Toheen Sirf Adliya He Ki Hoti Hai?

    میر تقی میر کی لُغت مُستعار لی جائے تو عدل کی کارگہہ شیشہ گری کا کام بے حد نازُک ہے۔ اتنا نازُک کہ سانس بھی آہستہ لی جائے۔ یہ تلوار کی دھار سے تیز اور بال سے باریک پُل صراط پر سنبھل سنبھل کر پائوں دھرنے اور توازن برقرار رکھنے کا فن ہے جس کے لئے جسمانی تربیّت یا اعضاء کی مخصوص ساخت کی نہیں، صرف اُس حلف کو اپنے ایمان ویقین کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ عدلیہ کا ہر جج، مسندِ عدل پر بیٹھنے سے پہلے اُٹھاتا ہے۔

    اِس مقدس حلف کا ایک جُملہ ہے "میں ہر حالت میں، ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلاخوف و رعایت اور بلارغبت وعناد، قانون کے مطابق انصاف کروں گا"۔ حقیقتِ احوال یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے کم وبیش ہر بڑے عدالتی فیصلے پر "خوف، رعایت، رغبت یا عناد" کی مہر ثبت ہے۔ آئین ہی کے آرٹیکل 209 (8) کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک نہایت جامع ضابطہ اخلاق بھی مرتب کررکھا ہے جس کے تحت "ہرجج پر لازم ہے کہ وہ خوفِ خدا رکھتے ہوئے، توازن اور مساوات کے اصول پر قائم رہے۔ مروجہ آداب ورسوم اور اخلاقیات کا خیال رکھے۔ عدالت کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے خوش اخلاقی پر عمل پیرا ہو"۔

    نظامِ عدل وانصاف میں ایک اساسی کُلیے کا درجہ حاصل کرلینے والا قول ہے کہ "ملزم، قانون کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے"۔ یہ قول بھی اصول بن چکا ہے کہ "ہرملزم اُس وقت تک معصوم ہے جب تک اُس کا جرم ثابت نہ ہوجائے"۔ قانون وانصاف کے اِن دونوں اصولی تقاضوں کو جج صاحبان کے حلف اور ضابطہ اخلاق کے ہم پہلو رکھ کر پڑھا جائے تو یہ تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ انصاف کی مسندِ عالی پر بیٹھا کوئی جج، اپنے سامنے کھڑے ملزم، یا کسی بھی شخص کی عزتِ نفس کے پرخچے اُڑا دے۔

    کھڑے کھڑے اُسے بے لباس کر دے، اُس کی توہین وتضحیک کرے اور اُس پر طنز وتشنیع کے زہرناک نشتر چلائے۔ اِس سے جڑا المیّہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کھُلے بندوں، روزمرّہ کے معمول کی طرح ہوتا رہے، ٹیلی ویژن چینلز، آتش بداماں ریمارکس کی پھلجھڑیوں سے عوام کی تفریحِ طبع کا سامان کرتے رہیں، شام سے رات گئے تک کے ٹاک شوز نشانہ تضحیک بننے والے کی قبائے تار تار کے چیتھڑے چُنتے رہیں، اگلے دن کے اخبارات رنگا رنگ سرخیوں سے اپنے عارض ورُخسار نکھارتے رہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے۔

    ساری دنیا کے جج صاحبان، دورانِ سماعت سوال وجواب کرتے اور ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔ بالعموم اُن کا مقصد زیرنظر مقدمے کے کسی پہلو کی تفہیم ہوتا ہے۔ ریمارکس میں شُستگی اور شائستگی بھی ہوتی ہے اور لطافت وشگفتگی بھی۔ ہمارے ہاں جج صاحبان کے ریمارکس کیلوں والے ڈنڈوں کی طرح اَن گڑھ اور بے ڈھب ہی نہیں، تضحیک آمیز اور زہرناک بھی ہوتے ہیں۔ نہیں معلوم کون سی دستوری شق اِس اَمر کی اجازت دیتی ہے کہ وہ بلند چبوترے کی کرسی پر بیٹھ کر سامنے کھڑے افراد کو حشرات الارض سے بھی حقیر تر سمجھیں؟

    گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے کا ذکر ہے۔ عزت مآب جسٹس بابر ستّار نے، محمد سہیل بنام وفاق پاکستان مقدمے کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹس، مصطفیٰ جمال قاضی کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے "کیا تمہیں انگریزی پڑھنا آتی ہے؟ آتی ہے تو ہمارا یہ آرڈر پڑھو۔ کیوں نہ تمہارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے اور جرمانہ عائد کیاجائے۔ آج کل جسے عدالت سے سزا ملتی ہے اُسے میڈل بھی مل جاتا ہے۔ آپ کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ اگر عدالت کی طرف سے کوئی پنلٹی لگ گئی تو آپ کو بھی میڈل مِل جائے گا"۔

    ڈائریکٹر جنرل نے اپنی صفائی میں کہا کہ "جب نیب کی طرف سے، بحریہ ٹائون ریفرنس میں نامزد افراد کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ (PCL) پر ڈالنے کے لئے باضابطہ طورپر مطلع کر دیاگیا تو ضابطہ بند طریقِ کار، (SOP) کے تحت میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں اس پر عمل کروں اور نامزد افراد کے نام، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ پہ ڈال دوں۔ میرے پاس نہ تو کوئی عدالتی اختیار ہے نہ میں اِس کے میرٹ کاجائزہ لینے کے لئے اپنی سوچ بروئے عمل لاسکتا ہوں"۔

    جج صاحب کا بہر طور اصرار تھا کہ "تمہیں آنکھیں بند کرکے نیب مراسلے پر عمل کرنے کے بجائے اپنا مائینڈ اَپلائی، کرنا چاہیے تھا"۔ ڈائریکٹر جنرل کے خلاف کارروائی کے امکانات اور اثرات ونتائج پر راہنمائی کے لئے، ہر نوع کی سیاسی آلائش سے پاک، ساری عمر صرف آئینی وقانونی تقاضوں تک محدود رہنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو شخصی پسندوناپسند سے بالا تر رکھنے والے دو انتہائی معتبر معزز ماہرینِ آئین وقانون، شعیب شاہین اور عبدالرحیم بھٹی کو عدالتی معاونین نامزد کر دیاگیا۔ اگلی پیشی پر اِن دونوں معاونین نے رائے دی کہ ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اور متعلقہ ڈائریکٹر نیب کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا بھرپور جواز موجود ہے۔ مصطفی جمال قاضی نے ایک تحریر پیش کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار محمد سہیل کا نام، پی۔ سی۔ ایل سے نکال دیاگیا ہے۔ اِس تحریر سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جج صاحب نے کہا "اَب بات بہت آگے نکل چکی ہے"۔

    "جسے عدالت سزا دیتی ہے، اُسے تمغہ مل جاتا ہے" کے کلمہ فضیلت مآب کا اشارا واضح طورپر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان نواز میمن کی طرف تھا جنہیں 9 مئی 2023ء کے بعد مختلف ایجنسیوں کی رپورٹس پر متعدد افراد کو تحفظِ امن عامہ کے لئے زیرحراست رکھتے ہوئے، عدالتی احکامات "نظرانداز" کرنے کی پاداش میں، جسٹس بابر ستّار نے مارچ 2024ء میں چھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ اِس سزا کو ایک ڈویڑن بینچ نے معطّل کردیا تھا جو آج تک معطّل چلی آ رہی ہے۔

    اِس سال 23 مارچ کو صدر مملکت نے عرفان نواز میمن کو ستارہ امتیاز سے نوازا۔ ڈی۔ جی امیگریشن کے مقدمے سے عرفان نواز میمن کا کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن جانے اپنے حلف اور ضابطہ اخلاق کی کون سی شق سے صوابدیدی اختیار کشید کرتے ہوئے جج صاحب نے، عرفان نواز میمن کے ایک پرانے زخم کو کریدنا اور مُٹھی بھر نمک ڈال دینا، تقاضائے انصاف جانا؟ بصد احترام کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اعلیٰ عدلیہ کے لئے مخصوص حلف اور ضابطہ اخلاق کے عین مطابق ہے؟

    رُسوائے زمانہ پانامہ کیس میں عالی مقام آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم نوازشریف پر گاڈ فادر، کی پھبتی کسی تھی۔ چند دِن قبل کسی اخبار کے کسی گوشے میں سنگل کالم خبر دیکھی کہ جسٹس عظمت سعید شیخ انتقال کرگئے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ انہوں نے پانامہ کیس میں ہی شریف خاندان کو "سسیلین مافیا" کہا تھا۔ اِس سے بھی قبل 2016ء میں انہوں نے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا "وزیراعظم نوازشریف کو بتا دو کہ ابھی اڈیالہ جیل میں بہت جگہ خالی ہے۔ ہم نے اُسے ایک دفعہ یہاں بلالیا تو وہ دوبارہ دفتر نہیں جاسکے گا"۔ وزیراعظم نے اِن ناروا ریمارکس کے بارے میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خط لکھا۔ ایک عشرہ ہونے کو ہے۔ اُس خط کا جواب نہیں آیا۔ جانے وہ کون سی سسیلین زدہ کوٹھڑی کی کس کِرم خوردہ الماری میں پڑا ہے۔

    کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟ اُن جیتے جاگتے انسانوں کی کوئی عزت وتوقیر نہیں جن کے بنیادی حقوق سے آئین چھلک رہا ہے لیکن جن کی پیٹھ پر تازیانے برساتے ہوئے جج صاحبان کا دِل اُس خوفِ خدا سے بھی خالی ہوجاتا ہے جس کا ذکر اُن کے ضابطہ اخلاق کا مقدس نوشتہ ہے۔