Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Tezab Ka Talab Aur Sang Dil Tamash Been

Tezab Ka Talab Aur Sang Dil Tamash Been

سات سال قبل، 2017 کے یہی روز و شب تھے جب ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعے شاہراہ مستقیم پر چلتے پاکستان کو بے برگ و ثمر دلدلی جنگلوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔ یہ سوال اَن گنت مرتبہ پوچھا گیا اور شاید برسوں بعد تک بھی پوچھا جاتا رہے گا کہ نواز شریف کو سیاست بدر کرکے ایک ناپختہ کار طفلِ خود معاملہ کو ملک کی باگ ڈور سونپنا کیوں ناگزیر ٹھہرا تھا؟ کیا پاکستان زوال پذیر تھا؟ کیا ملکی ترقی و خوشحالی اور عوامی بہبود کے تمام اشاریے نیچے کی طرف جا رہے تھے؟ کیا قومی سلامتی کے لئے سنگین مسائل پید اہو گئے تھے؟ کیا عوام چوکوں چوراہوں میں سراپا احتجاج تھے؟ کیا پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہوگیا تھا؟ کیا چارسُو کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا؟ ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی ہاں میں نہیں دیا جا سکتا۔

صورتِ حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ تمام تر منفی ہتھکنڈوں اور کھلی چھپی سازشوں کے باوجود صرف چار سال کے مختصر عرصے میں پاکستان کے خدّوخال تبدیل ہوچکے تھے۔ اندھیروں میں ڈوبا ملک روشن ہوگیا تھا۔ دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلا جا چکا تھا۔ جرائم زدہ کراچی کے کوچہ و بازار میں زندگی لوٹ آئی تھی۔ معیشت سنبھل رہی تھی۔ شرحِ نمو چھے فی صد سے اُوپر تھی۔ روپیہ مستحکم تھا۔ زرّمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش تھے۔ پوری ملکی تاریخ میں آئی ایم ایف کا واحد پروگرام کامیابی سے مکمل ہو چکا تھا۔ نواز شریف نے "الوداع آئی ایم ایف" کا اعلان کرکے ایک نئے پُرعزم پاکستان کی نوید سنا دی تھی۔ بازارِ حصص نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ مہنگائی تاریخ کی کم ترین سطح، تین چار فی صد پر جامد ہو چکی تھی۔ سی پیک کی شکل میں ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کی چینی سرمایہ کاری نے لامحدود امکانات کے دروازے کھول دیے تھے۔ عوام کی بجھی آنکھوں میں امید کے جگنو دمکنے لگے تھے۔

یہ سب کچھ ان حالات میں ہوا جب شرق و غرب کی ساری ہوائیں نواز شریف کے خیمہِ اقتدار کی طنابیں اکھاڑ پھینکنے کے درپے تھیں۔ طاہر القادری، عمران خان اور ظہیر الاسلام کا لندن پلان، چار ماہ پر محیط خوں آشام دھرنا، آئی۔ ایس۔ آئی کے سربراہ ظہیر الاسلام کی وزیراعظم کو کھُلی دھمکی کہ استعفیٰ دے کر گھر چلے جاؤ ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا، توسیع کے لئے انگاروں پر لوٹتے راحیل شریف کی ہنر آزمائیاں، وزیراعظم کو زچ کرنے کے لئے طاقتور ایجنسیوں کی کرتب کاریاں، میڈیا کی سپاہِ الزام و دشنام کی پرورش و نمُو، ڈان لیکس کا بے ذوق ڈرامہ، پانامہ کی شطرنجی بساط، "ریجیکٹڈ" (Rejected) کی شہرہ آفاق ٹویٹ، عجیب الخلقت جے۔ آئی۔ ٹی اور "بیٹے سے تنخواہ نہ لینے" والا، حیا باختہ "عدالتی فیصلہ"، کسی ہالی وڈ فلم کے سکرپٹ کی طرح، تاریخ کی لوح پر رقم ہوچکے ہیں۔

28 جولائی 2017 کو نواز شریف گھر بھیج دیا گیا۔ برسوں پر محیط، شجاع پاشا، ظہیر الاسلام، عاصم باجوہ، آصف غفور، فیض حمید، راحیل شریف اور قمر باجوہ کی اَن تھک محنت رنگ لائی۔ عمران خان 2018 کے افق سے انقلاب عظیم کا آفتابِ جہاں تاب بن کر طلوع ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی نواز شریف عہد کی کمائی لٹنے کا عمل شروع ہوگیا۔ پونے چار برس پورے ہونے تلک ملک زوال کی گہری کھائی میں لڑھک چکا تھا۔ معاملہ صرف معیشت کی بربادی، سی پیک کے انجماد، پچیس فی صد کی شرح تک پہنچا دی جانے والی مہنگائی اور سات دہائیوں میں لئے گئے مجموعی قرضوں کے برابر نئے بیرونی قرضوں کا نہ تھا، پارلیمنٹ، قومی ادارے، سماجی اخلاقیات، تہذیبی قدریں، جمہوری روایات، مکالمے کا سلیقہ، سیاسی رواداری، سبھی کچھ طفلانہ خودسری کی بھٹی کا ایندھن ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن، پاکستان سنبھلنے میں نہیں آ رہا۔

نواز شریف کو ہٹانے اور عمران خان کو لانے کے لئے اُس وقت کے جرنیلوں، ججوں اور "انقلابی صحافیوں" نے مذہبی جوش و جذبہ کے ساتھ یک دل ویک جان ہو کر جو کچھ کیا اُس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس "معرکہ عظیم" کے جو اثرات و نتائج مرتب ہوئے، اُن کی مثال بھی نہیں ملتی۔ پاکستان کا یہ حشر نہ بھارت کے ساتھ لڑی گئی جنگوں میں ہوا نہ جنگوں کے نتیجے میں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی ملک سات برس تک جمہوری راہ پر چلتا رہا۔ اُفتاد کے ان بے مہر موسموں میں بھی ہم نے اتفاق رائے سے ایک آئین بنالیا جو پیہم تازیانے کھانے کے باوجود آج بھی قومی اتحاد و یک جہتی اور ملکی نظم و نسق کی مستند دستاویز ہے۔ لیکن 2018 میں شعوری طور پر ہمارا مقدّر بنا دیے جانے والے سیاسی زلزلے کی تباہ کاریوں کا مداوا مشکل ہوا جا رہا ہے۔

بلاشبہ عوام مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ جس آئی ایم ایف کو نواز شریف نے خداحافظ کہہ دیا تھا، اُس آئی ایم ایف کو ایک بار پھر واپس لانے اور بے تدبیریوں سے معاملات بگاڑنے کے نتیجے میں آج پاکستان ایک طرح کی غلامی میں جکڑا جا چکا ہے۔ کوئی بتائے تو سہی۔ کیوں آئی ایم ایف معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر پٹرول کی سبسڈی دی گئی، کیوں آنے والی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے معاملہ کرنا مشکل بنا دیا گیا، کیوں آج بھی آئی ایم ایف کو خط لکھے جا رہے ہیں کہ پاکستان کو قرض نہ دو، کیوں لابنگ فرموں اور فدائین کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپ کر جشن مسرت منائے جا رہے ہیں؟ اَن تھک کام کی شہرت رکھنے والا شہباز شریف، معاملات کو سنبھالنے اور عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے لیکن 2018 سے 2022 کے درمیان ہونے والی تباہ کاری اور ہمہ پہلو غارت گری کی وسعت و گہرائی، اندازہ و گمان سے باہر ہے۔

مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دِل میں تو بہت کام رفُو کا نکلا

خان صاحب اور اُن کے عشاق نے جسدِ پاکستان کے اَنگ اَنگ پر اتنے گہرے زخم لگائے ہیں کہ برسوں اُن کی بخیہ گری اور مرہم کاری نہیں ہو سکتی۔ کیا نئے انتخابات سے یہ سارے زخم بھر جائیں گے؟ کیا بجلی کے بلوں کے نام پر اسلام آباد میں ایک نئے دھرنے کا آتش کدہ سُلگانے سے مریض کو شفا ہو جائے گی؟ کیا "تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان" کے جلسے سارے دلدّر دور کر دیں گے؟ کیا ایک نئی سیاسی پارٹی کی داغ بیل ڈالنے سے ہمیں درپیش مسائل ختم ہوجائیں گے؟ کیا 9 مئی پر مٹی ڈالنے، سارے مقدمات ختم کردینے اور خان صاحب کو آزاد کردینے سے انہی کے لگائے ہوئے زخم بھر جائیں گے؟

کیا کچھ تنخواہوں یا مراعات میں کمی کے آرائشی اقدامات سے تیزاب کے تالاب میں جھونک دی جانے والی معیشت حسینہ عالم بن کر زندہ ہو جائے گی؟ حکومت پر تبرّی کرنے والوں میں سے کس مسیحا کے ہاتھ میں وہ کرشمہ ہے جو چشم زدن میں ہمیں آئی ایم ایف سے نجات دلا دے گا، ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر دولت کی ریل پیل کر دے گا، جس کی ہیبت سے قرضوں کا پہاڑ سمٹ کر رائی ہو جائے گا اور جس کی ایک پھونک سے دس کروڑ عوام غربت کی لکیر سے اوپر اُٹھ کر عیش و نشاط کے منطقے میں داخل ہوجائیں گے۔

اس طرح کی جادوگری کبھی ہوئی نہ ہوگی۔ آج عالم یہ ہے کہ مجموعی سالانہ آمدنی سات ہزار ارب روپے ہے جبکہ صرف قرضوں کا سود آٹھ ہزار ارب روپے ہے۔ سو جھوٹ اور گمراہ کن پراپیگنڈے کی فیکٹریاں بند کر دیں۔ اُنہیں دلجمعی سے کام کرنے دیں جو اپنی سیاست کو داؤ پر لگا کر نوکیلے کانٹوں کی وہ فصل کاٹ رہے ہیں جو آپ نے بوئی تھی اور اگر کوئی طلسمی نسخہِ کیمیا آپ کی زنبیل میں پڑا ہے تو بے سروپا دعووں اور کھوکھلے نعروں کے بجائے اُسے بروئے کار لائیں لیکن المیہ یہ ہے کہ آپ کا ہنر جھوٹ، الزامات، کھوکھلے نعروں، بے بنیاد دعووں، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں اور لانگ مارچوں سے شروع ہوتا اور اِنہی پر ختم ہوجاتا ہے۔