جو وہم وگمان میں نہ، وہ ہو گیا، جو سوچا نہ، وہ دیکھ لیا، انہونیاں ہو چکیں، رعونتوں پہ خاک پڑگئی، دُکھ یہ کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ جب پہلا سانس بس میں اور نہ آخری لمحے پر کوئی کنٹرول، تو پھر ’’ مَیں مَیں‘‘ کیوں !
پہلے بات اپنے ملک کی کر لیتے ہیں، قائدِ اعظم نے کبھی سوچا ہو گا کہ ملک بننے کے صرف 11 سال بعد مارشل لا لگ جائیگا، بانی پاکستان نے کبھی سوچا ہوگا کہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا اور بھارتی ایجنٹ کا لیبل لگا کرمبینہ طور پر مار دیا جائے گا، لیاقت علی خان نے کبھی سوچا ہوگا کہ دن دیہاڑے قتل کر دیا جائے گا، ا سکندر مرزا نے کبھی سوچا ہوگا کہ مفلسی زدہ جلاوطنی میں مرنا پڑے گا، ایوب خان نے کبھی سوچاہوگا کہ the end اتنا بُرا ہوگا، یحییٰ خان نے کبھی سوچا بھی ہوگا کہ ان کا نام لینا تک کوئی گوارا نہیں کرے گا، جنرل نیازی نے کبھی سوچا ہوگا کہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑ جائیں گے، ذوالفقار بھٹو نے کبھی سوچا ہوگا کہ ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی ملے گی، ضیاء الحق نے کبھی سوچا ہوگا کہ ورثاء کو لاش بھی نہیں ملے گی، بے نظیر یا بھٹو خاندان کے کسی فرد نے کبھی سوچا ہوگا کہ ایکدن پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری ہوں گے، آصف زرداری نے کبھی سوچا ہوگا کہ وہ صدرِ پاکستان بن جائیں گے، جونیجو، جمالی، شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی سوچا ہوگا کہ وہ بھی وزیراعظم بن جائیں گے، بلخ شیر مزاری، جتوئی، معراج خالد، معین قریشی، چوہدری شجاعت، راجہ پرویز اشرف، کھوسو اور شاہد خاقان عباسی نے کبھی سوچا ہوگا کہ ان کی لاٹری بھی نکلے گی، ریٹائرمنٹ کی پلاننگ میں لگے پرویز مشرف نے کبھی سوچاہوگا کہ وہ صدر ِ مملکت ہو جائیں گے، نواز شریف نے کبھی سوچا ہوگا کہ14 ماہ جیل اور جلاوطنی کاٹنا پڑے گی، قائدِملت سے قائدِاعظم ثانی تک 19 وزراء اعظموں نے کبھی سوچا ہو گا سب کو وقت سے پہلے گھر جانا پڑ جائے گااوروطن کیلئے جان، مال حتیٰ کہ آبر وتک وار دینے والے لاکھوں انسانوں نے کبھی سوچا ہو گا کہ جس پاکستان کیلئے سب کچھ قربان کیا، وہ 24 سال بعد ہی دوٹکڑے ہو جائے گا۔
اب ذرا اپنے ملک سے باہر جھانک لیتے ہیں، شیخ مجیب نے کبھی سوچاہوگا کہ خاندان سمیت ایسے مار دیا جائیگا کہ لاشیں اُٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا، مہاتما گاندھی سے راجیو گاندھی تک کسی نے سوچا ہوگا کہ ان کی پارٹی سونیاگاندھی چلائیں گی، کرنل قذافی نے کبھی سوچا ہوگا کہ اپنے ملک میں اپنے لوگ برساتی نالے کے پل سے نکال کر بے رحمی سے قتل کردیں گے، صدام حسین نے کبھی سوچا ہوگا کہ اپنا خاندان مروا اور بادشاہت گنواکر پھانسی بھی لگنا پڑے گی، حسنی مبارک نے کبھی سوچاہوگا کہ اقتدار چھوڑنا، لوہے کے پنجرے میں پیشیاں بھگتنا، جیلیں کاٹنا اور رحم کی اپیلیں کرنا پڑیں گی، تیونس کے بن علی نے کبھی سوچاہوگا کہ حکومت کیا ہمیشہ کیلئے ملک چھوڑنا پڑ جائے گا، بشارالاسد نے کبھی سوچا ہوگا کہ ایک دن قبروں اور کھنڈروں پر حکومت کرنا پڑے گی، ملاعمر سے اسامہ بن لادن تک کسی نے سوچاہوگا کہ یوں جینا اور یوں مرنا پڑے گااور امام خمینی نے کبھی سوچا ہوگا کہ ایران میں ان کے امیدواروں کو اصلاح اور ترقی پسند ہرا دیں گے۔
اب پھر سے واپس اپنے ملک میں آجاتے ہیں، میاں نواز شریف نے کبھی سوچاہوگا کہ وہ 3 مرتبہ وزیراعظم بن جائیں گے، پرویز مشرف نے کبھی سوچا ہوگا کہ ان پر مقدمے بنیں گے، پیشیاں ہوں گی، ضمانت منسوخ، فردِجرم عائداور جلاوطنی، میاں صاحب نے کبھی سوچاہوگا کہ ’’پاناما لیکس، ، ہوں گی، عمران خان جیسا مستقل مزاج اپوزیشن لیڈر ہو گا، کیس سپریم کورٹ جاپہنچے گا، جے آئی ٹی بنے گی، بچوں سمیت پیشیاں بھگتنا پڑ یں گی، نااہلی ہوگی، سڑکوں پر لوگوں سے پوچھنا پڑے گا کہ ’’مجھے کیوں نکالا، ، اور بیمار بیگم کی عیادت کیلئے بھی عدالت سے اجازت لیناپڑے گی، اسحق ڈار نے کبھی سوچا ہوگا کہ یوں عروج ملے گا اور ایسا زوال آئے گا، حسن نواز اور حسین نواز نے کبھی سوچا ہوگا کہ ایکدن اشتہاری ہونا پڑے گا، شہباز شریف نے کبھی سوچاہوگا کہ وہ وقت بھی آئے گا جب حدیبیہ کیس بقا کا مسئلہ بن جائیگا، پاکستانی قوم نے کبھی سوچاہوگا کہ ایسی عدلیہ آئے گی جو ہر نظریہ ضرورت ر د کردے گی، ایسی جے آئی ٹی بنے گی جو ہر دباؤ برداشت کر جائے گی اورایسا میڈیا ہوگا جس سے کچھ چھپایا نہیں جا سکے گا۔ دوستو مجھے تو یہ یقین کہ قائد ِ اعظم سے نواز شریف تک، شیخ مجیب سے حسنی مبارک اورلیبیا کےعوام سے پاکستانی قوم تک کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں نہ تھا، جو ہوگیا، پاناما سے اقامہ تک جو دیکھ لیا، کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور یہی نہیں بلکہ اب تو حالت یہ کہ اگرکوئی انہونی ہو جائے تو حیرت نہیں ہوتی کیونکہ جو ہو گیا، اسکے بعد کیا حیرانی، لیکن دوستو وقت بدل چکا، اب ذرا سنبھل کر، بے شک انہونیاں انجوائے کریں مگر ذہنوں میں رہے کہ عین ممکن کوئی انہونی آپ کی بھی منتظر ہو، ذہنوں میں رہے کہ عداوت وعقیدت میں احتیاط کیونکہ دوستی اور دشمنی کا حساب بھی دینا پڑ سکتا ہے، ذہنوں میں رہے کہ ہواؤں میں شوق سے اڑیں مگر زمین سے رشتہ نہ ٹوٹے کیونکہ گرنا پڑے تو چوٹ کم سے کم لگے، ذہنوں میں رہے کہ ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کر یئے‘‘کیونکہ ’’سجناں وی مرجاناں‘‘، ذہنوں میں رہے کہ شاہ سے گداتک جو وہم وگمان میں نہ، وہ ہو گیا، جو سوچا نہ، وہ دیکھ لیا، انہونیاں ہوچکیں، رعونتوں پہ خاک پڑ گئی، لہٰذا یہ تو ضرور ذہنوں میں رہے کہ جب پہلا سانس بس میں اور نہ آخری لمحے پر کوئی کنٹرول، تو پھریہ ’’مَیں مَیں، ، کیوں!