Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Aik Siasat Kai Kahaniya (2)

Aik Siasat Kai Kahaniya (2)

(گزشتہ سے پیوستہ)

ارادہ تو تھا کہ دوست رؤف کلاسرا کی ’’ایک سیاست کئی کہانیاں ‘‘ کے باقی بچے فیصل صالح حیات ‘آصف زرداری ‘ امین فہیم ‘ آفتاب شیر پاؤ‘ سلطان محمود قاضی ‘ جنرل امجد‘ ظفراللہ جمالی ‘میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے انٹرویو کے ٹریلرز دکھاؤں مگر جب ذوالفقار بھٹو کا وہ شاہکار انٹرویو جو عالمی شہرت یافتہ اطالوی صحافی اوریانافلاچی نے لیا اور جسکا ترجمہ کرکے رؤف نے اسے اپنی کتاب کا حصہ بنادیا ‘ اسے پڑھا اور یہ سوچا کہ دسمبر چڑھ چکا اور بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان کی باتیں بھی کی ہوئیں ‘پیپلز پارٹی کا 50 واں یومِ تاسیس بھی ہو رہا اور یہ ایسی تحریر جو پڑھنے لائق بھی ‘لہٰذا ارادہ بدل کر اس انٹرویو کی چند جھلکیاں آپ تک پہنچا رہا ‘لیکن اس سوال کے ساتھ کہ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کے وہ تمام کارکن جنہوں نے جمہوریت اور پارٹی کیلئے جانیں قربان کیں کیا آج پارٹی کی سیاست اور پرفارمنس سے انکی روحوں کو سکون مل رہا ہوگا۔ ؟۔ ملاحظہ فرمائیں پہلے اوریانافلاچی کا بھٹو صاحب کی شخصیت پر تجزیہ اور پھر قائد ِ عوام کی باتیں !

بھٹو صاحب پر پہلی نظر پڑی تو سامنے وہ درازقد شخص جسکی عمر تو 44 سال مگر سر کے بال جھڑنا شروع ہوچکے ‘بالوں کی رنگت بھوری ہورہی ‘گہری پلکیں ‘ ہونٹ حتیٰ کہ آنکھوں کی پتلیاں تک تھکاوٹ زدہ اورآنکھوں میں عجیب سی اداسی جبکہ مسکراہٹ میں شرمیلا پن ‘ذوالفقار بھٹو کے ساتھ صرف 6 دن گزار کر ہی میں اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ وہ تضادات کا مجموعہ ‘جیسے سانگھڑ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے غصے اور جو ش سے دونوں بازو لہراتے وہ ایسے شخص جنہیں تالیوں اور طاقت سے پیار ‘ ہالہ کے لان میں لوگوں کو گھنٹوں انتظار کروا کر‘ خوبصورت قالینوں پر شہزادوں کی طرح چلتے پھرتے ‘انگلی کے اشارے سے لوگوں کو اپنی طرف بلاتے اور بکرے کا صدقہ دیتے وہ ایسے انسان جن کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے‘ ملٹری ہیلی کاپٹر میںچواین لائی کی دی ٹوپی پہنے میرے سامنے وہ مارکسٹ بھٹو ‘جوپاکستان کو غربت اور بھوک سے آزاد کرانے کے خواہشمند مگر اپنی کامیابی جنہیں ہر شے سے عزیز اور پرانے ایرانی قالینوں ‘ائیر کنڈیشنوں اور عالمی رہنماوں کے ساتھ کھینچی تصویروں سے بھرے راولپنڈی اور کراچی کے گھروںمیں میری ملاقات ایسے بھٹو سے ہوئی جو اندرا گاندھی ‘مجیب الرحمان اور یحییٰ خان سمیت اپنے سیاسی دشمنوں پر حملے کر رہے ‘ جو خوبصورت باتیں کرنے اور کتابیں پڑھنے کے شوقین۔ ایک دن بھٹو صاحب بولے ’’ شیخ مجیب پیدائشی جھوٹا ‘جھوٹ اسکی فطرت میں ‘ وہ بیمار ذہن کا جنونی ‘ مجھ پر یہ جھوٹا الزام لگادیا کہ بنگالیوں کی قتل وغارت یاوحشیانہ تشدد میں نے کروایا‘ یہ چھوڑیں اس نے تو ایک بار سمندری طوفان میں مرنے والوں کا الزام مجھ پر لگا دیا ‘ جیسے سمندری طوفان میں نے بھیجا ‘ پھر وہ یہ سفید جھوٹ بھی بول چکا کہ جب گرفتار ہوا تو اس نے مقدمے کو ا س قابل ہی نہ سمجھا کہ دفاع کرے اور اسے جیل کے سیل میں رکھا گیا ‘ سچ یہ کہ بروہی سمیت 4 وکلاء نے اس کا کیس لڑا اور اسے تمام سہولتوں سے مزین ایپارٹمنٹ میں رکھاگیا ‘ ہاں میں مانتا ہوں کہ بنگالیوں کو قتل کیا گیا ‘ان پر تشدد ہوااور سب کچھ احمقانہ اور وحشیانہ انداز میں ہوا ‘اگر میں یہ کرتا تو اسے زیادہ سمجھداری ‘تھوڑے وحشیانہ پن اور زیادہ سائنسی انداز میں کرتا ‘ مجھے اچھی طرح یاد کہ میں ڈھاکا کے ہوٹل میں سویا ہوا تھاکہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے آنکھ کھلی ‘میں نے اپنے دوستوں کے کمروں سے بھاگنے کی آوازیں سنیں ‘ میں اُٹھ کر کھڑکی کی طرف گیا ‘پردہ ہٹایا‘سامنے دیکھا اور روپڑا ‘میرے منہ سے بس اتنا نکلا My country is finished۔

جب میرے حکم پر مجیب کو رہا کر کے میرے پاس راولپنڈی لایاجانے لگا تو یہ سوچ کر اسے شاید مارنے کیلئے لے جایاجارہا ‘وہ خوفزدہ ہو کررونے لگا ‘ خیراسے راولپنڈی کے ایک بنگلے میں پہنچاکر مجھے بتایا گیا ‘ میں ریڈیو ‘ٹیلی ویژن ‘ اور کپڑے لے کر اسکے پاس گیا‘ پہلے تو مجھے دیکھتے ہی وہ غصے سے بولا’’ تم یہاں کیا کررہے ہو ‘‘ جب میں نے بتایا کہ اب میں ملک کا صدر ہوں توڈرامائی انداز میں میرے گلے لگ کر بولا’’ خد ا تمہیں ہمیشہ مجھے بچانے کیلئے بھیج دیتا ہے ‘‘ مجیب الرحمان نے ڈھاکا جانے سے پہلے 2 دفعہ قرآن پر وعدہ کیا کہ وہ مغربی پاکستان کے ساتھ تعلق رکھے گا۔

5 نومبر 1970ء کو یحییٰ خان مجھے گرفتار کرنے والا تھا ‘ا س نے مجیب الرحمان سے بھی مشورہ کیا مگر پھر عوامی ردِعمل کے ڈر سے ارادہ بدل لیا ‘یحییٰ صبح سے شام اور شام سے صبح تک نشے میں رہتا ‘ اس کی باتوں میں آکر کئی دفعہ میں بھی بے وقوف بنا‘ اس کی حالت یہ تھی کہ ڈھاکا میں ہم لمبی لمبی میٹنگز کر رہے تھے جبکہ وہ صرف اس لئے منہ بنائے بیٹھا تھا کہ راولپنڈی سے ابھی تک اس کے گانوں کا ریکارڈ کیوں نہیں پہنچا‘ یحییٰ تو ایسا کنفیوژ انسان تھا کہ اس نے 4 دفعہ بھارت پر جوابی حملے کے احکامات دے کر واپس لے لئے‘ یحییٰ اور جنرل عمر مشرقی پاکستان کے حالات تباہ کر نے کے ذمہ دار۔ بھٹوصاحب کہنے لگے ’’ میرے دل میں اندرا گاندھی کی کوئی عزت نہیں ‘ وہ ایک اوسط ذہن کی عورت ‘ا س میں بڑے لوگوں والی کوئی بات نہیں ‘ہاں جس ملک پر وہ حکومت کرے وہ بڑا ‘ اس لئے وہ بھی بڑی لگے ‘رنگ برنگی ساڑھیوں ‘ پیشانی پر لال ٹیکا اور مختصر مسکراہٹ۔ ۔ اف۔ ۔ میرے بس میں ہوتا تو اس سے کبھی ہاتھ بھی نہ ملاتا‘ آجکل جو بات سوچ کر میں پریشان ہو جاؤں وہ یہ کہ بھارت کے دور ے پر جاکر مجھے بھارتی فوج سے گارڈ آف آنر لینا اور اندرا گاندھی سے ملاقات کرنا پڑے گی ‘ مجھے یہ دو چیزیں اچھی نہیں لگتیں۔

اپنی ذات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے کہا’’ بلاشبہ میری شخصیت تضادات سے بھری ہوئی اور مجھے اس کا علم بھی ‘ میں ان تضادات کو ایکدوسرے سے ملانے اوران پر قابو پانے میں لگا رہتا ہوں ‘ لیکن کامیاب نہیں ہوپاتا‘میری ماں غریب گھرانے سے اور باپ جاگیردار کا بیٹا ‘میں مشرق اورمغرب کا ایک عجیب سا ملاپ ہوں ‘میری پہلی شادی اس وقت کر دی گئی جب میں 13 سال کا اور میری بیوی 23 سال کی‘مجھے راضی کرنے کیلئے گھر والوں نے کرکٹ سامان کے بھرے دو بیگ دیئے تھے ‘جونہی شادی کی رسمیں ختم ہوئیں ‘میں کرکٹ کھیلنے چلا گیا ‘ میرے کرکٹ کے ایک دوست نے بتایا تم تو خوش نصیب ہو ‘میری شادی تو 11 سال کی عمر میں ہوئی اور جس سے ہوئی اسکی عمر 32 سال تھی ‘یہ غلط ہے کہ میں پلے بوائے ہوں ‘میں نے ہمیشہ اچھے لوگوں سے ملنے اور کتابیں خریدنے پر پیسہ لگایا ‘ یہ بھی جھوٹ کہ میں کپڑوں پر پیسے اڑاتا ہوں ‘مجھے اچھے کپڑے پہننے اور صاف ستھرا رہنے سے محبت ہے ‘میں گندے لوگوں کے ساتھ چند لمحے بھی کھڑا نہیں ہوسکتا۔

ہاں میں ایک رومانٹک شخص ہوں اورمیر ا یہ ماننا کہ رومانٹک ہوئے بنا کوئی اچھا سیاستدان نہیں بن سکتا ‘کسی کی محبت میں گرفتار ہونا یا کوئی دل فتح کرنا ایک سرشاری ہے ‘میں سمجھتاہوں کہ بندہ زندگی میں سینکڑوں بار محبت کر سکتا ہے ‘میں اخلاقیات پر یقین اور عورتوں کی عزت کرنے والا شخص ہوں‘ میں زیادہ سخت دل نہیں مگر ایک بار میں نے ایک شخص کو اتنے کوڑے مارے کہ اس کے جسم سے خون نکل آیا کیونکہ اس نے ایک لڑکی سے جسمانی زیادتی کی تھی ‘ اسی طرح ایک صبح میں غصے سے تب پاگل ہوگیا جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ کچھ طالبعلموں نے ساحل سمندر پر لڑکیوں کے کپڑے پھاڑ دیئے ‘ بدمعاش کہیں کے۔ ۔ ہاں میں مارکسٹ ہوں مگر خدا اور ایمان کے ساتھ ‘ میں انقلابی ہوں مگر خونی انقلابی نہیں ‘ میں فاشسٹ نہیں ‘ مجھے سکارنو‘ ناصر‘ اسٹالن‘چواین لائی پسند مگر میں سمجھتاہوں کہ ہیروز چیونگم کی طرح ‘آپ چیونگم منہ میں ڈالتے ہیں اورایک وقت کے بعد پھینک کر پھر دوسری چیونگم منہ میں رکھ کر چبانا شروع کر دیتے ہیں ‘ یعنی زندگی جوں جوں آگے بڑھتی ہے ‘حالات‘خیالات اور دنیاوی ہیروز سب بدلتے رہتے ہیں ‘ مجھے باپ کی یہ نصیحت کہ سیاست ایک مندر اور گھر کی طرح اور ماں کی یہ بات کہ کبھی غریبوں کو اکیلانہ چھوڑنا ‘آج بھی یاد۔

دوستو! یہ تو چند جھلکیاں ‘ ہو سکے تو یہ طویل انٹرویو ضرور پڑھیں ‘لیکن جب سے میں نے یہ پڑھا تب سے سوچ رہا کہ اپنی گفتگو کے اختتام پر جب بھٹو صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ میں دنیاکا واحد لیڈر جو 2 سپر پاورز کی مخالفت کے باوجود سیاست میں ‘میری عمر صرف 44 سال ‘میں اندرا گاندھی سے 10 سال چھوٹااور مجھے سیاست کے بنیادی اصولوں کا بھی پتا‘ لہٰذا میں ان سب سے زیادہ دیرتک ملک کا حکمراں رہوں گا‘ ‘جنہوں نے ابھی تک پاکستان پر حکمرانی کی ‘اُس وقت بھٹو صاحب کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ سیاست کیا‘انکی توزندگی کے ہی چند سال رہ گئے‘ مجھے یقین کہ یہ باتیں کرتے بھٹو صاحب اورکہیں دوربا وردی ضیاء الحق پر بیک وقت نظر مار کر تقدیر نے ایک ٹھنڈی آہ ضرور بھری ہوگی۔