Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Awami Adalat

Awami Adalat

جو یہ بتا رہے کہ ’’اصلی تے وڈی عدالت عوامی‘‘ اور جو یہ رٹا رہے کہ’’ ‘‘ نااہلی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکی، ان سب سے یہی گزارش حضور باقی سب چھوڑیں اگر صرف زینب کی ہی لگ جائے تو بات نااہلی سے بھی آگے نکل جائے۔

فرض کریں ’’ اصلی تے وڈی عدالت عوامی ‘‘ہی، فرض کریں یہاں مہذب معاشرہ نہیں، کوئی قانون، ضابطہ نہیں، فرض کریں یہاں کا نظام ایسا کہ کوئی ڈاکہ ڈالے یا قتل کرے، کسی کو نیب پکڑے، جے آئی ٹی قصور وار قرار دے یا کسی کے خلاف سپریم کورٹ فیصلہ دیدے لیکن جب عوام مطلب بری کر دے تو سب سزائیں ختم اور تمام گناہ گار معصوم، اسی تھیوری کو آگے بڑھاتے ہوئے وقتی طور پر یہ بھی فرض کر لیں کہ شریف خاندان سے پوچھ کر سعودی عرب گیا، انہوں نے مشرف حکومت سے پانچ یا دس سال کی ڈیل سے پہلے کی منظوری لی اور واپس پاکستان میں قدم تب رکھا جب نے گرین سگنل دیدیااوراگر یہ بھی فرض کر لیں کہ اپنی 35 سالہ سیاست میں شریف برادران نے ہر کام سے پوچھ کر کیا، توپھر بھی چندسوال جواب طلب، جب 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کو بنیاد بنا کر شریف برادران گلی گلی، محلے محلے، گاؤں گاؤں اور شہر شہر سجا چکے تھے، جب شہباز شریف سوئس بینکوں میں پڑے زرداری صاحب کا کالا دھن واپس لانے کے وعدے کر رہے تھے، جب علی بابا چالیس چوروں کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگ رہے تھے اور جب پیٹ چیر کر چوری کا مال نکالنے کی باتیں ہورہی تھیں، تب کیا میاں نواز شریف یا شہباز شریف نے کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہم نے آف شور کمپنیاں بنار کھیں، کل کلاں پانامہ لیکس ہو جائیں تو حیران و پریشان نہ ہوں، کیونکہ 5 براعظموں میں ہم سرمایہ کاری کر چکے، سعودی عرب، دبئی اور قطر کے رستے سرمایہ برطانیہ لے جا کر لندن میں بیسوؤں جائیدادیں خرید چکے، کیا میاں نواز شریف نے کو آگاہ کیا کہ ہم قطری دوستوں سے زبانی کلامی کاروبار کر رہے، ہمارے پاس لین دین کے کاغذی ثبوت اور نہ کسی قسم کی منی ٹریل، کیا نواز شریف نے کو مطلع کیاکہ میں اقامہ ہولڈر، میرے بچے غیر ملکی، میرے سمدھی عربی شیخ سے 3 سالوں کی تنخواہ کی مد میں ایک ارب وصول کر چکے اور کیا میاں نواز شریف نے 2013 سے 2017 تک کو وہ سب بتایا جو انہیں پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں بتانا پڑا، اگرتو میاں نواز شریف نے 2013 کے پہلے جلسے سے 2017 میں نااہل ہونے تک کسی دن، کو یہ سب بتایا تو پھر واقعی ان کا یہ مطالبہ جائز کہ کسی ملکی عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ انہیں نااہل کرے اور انکی اہلی یا نااہلی کا فیصلہ کرنے کی مجاز صرف ، لیکن چونکہ صورتحال اسکے برعکس، چونکہ 90 کی دہائی سے پانامہ لیکس تک ہاؤس آف شریفس جو کاروبار کر چکا، جو باہر لے جا اور کما چکا، کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، چونکہ جو لین دین ہوا اور جومنی لانڈرنگ، کرپشن، کمیشن کے الزامات لگ چکے، سپریم کورٹ کی طرح کے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہیں اورچونکہ صورتحال یہ کہ کل یاد نہ تھی اورآج بھول ہی نہیں رہی، لہذا یہ فیصلہ آپکا کہ یہ یعنی عوام کی عزت افزائی یا توہین۔ ؟

بات آگے بڑھاتے ہیں، ویسے تو میاں نواز شریف 3 مرتبہ وزیراعظم رہے اور شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ ہیں لیکن ہم شریف برادران کے 3 دہائیوں پر پھیلے اقتدار کی بات نہیں کرتے، صرف میاں صاحب کے گزرے 4 سالہ اقتدار پر نظر مار لیتے ہیں، سندھ میں اغواء ہوئے 9 سو بچے ہوں یا تھر میں بھوک اور علاج نہ ہونے سے مرچکے 2 ہزار بچے، جعلی دوائیوں، ملاوٹ زدہ کھانے پینے کی چیزوں کی بھینٹ چڑھ چکے پاکستانی ہوں یا مہنگائی، بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر چکی رعایا، بلوچستان اور سندھ میں جانوروں سے بھی بدتر زندگیاں گزارتے انسان ہوں یا نا انصافی اور رسوائی کی سولیوں پر لٹکی مخلوق، اسموگ اور فوگ میں اندھا دھند زندگیاں گزارتے لوگ ہوں یا ہر روز زہر نما پانی پیتی انسانیت، سڑکوں اور رکشوں میں بچے جنتی مائیں ہوں یا اسکولوں کا منہ دیکھے بنا بچپن گزا ر رہے کروڑوں بچے، اپنی فصلیں اپنے ہاتھوں سے جلاتے کسان ہوں یا دو وقت کی باعزت روٹی تک نہ کما سکنے والے مزدور، وبا کی طرح پھیل چکی کرپشن ہو یا دیمک کی طرح چاٹ رہی سفارش ‘ اقرباپروری اور امیر سے امیر تر ہوتا 2 فیصد ٹولہ ہو یا غریب سے غریب تر ہوتا 98 فیصد طبقہ، کیا میاں برادران کسی ایک میں سرخرو ہوئے، مطلب ا گر کسی روز مذکورہ مسائل ومصائب میں سے کسی ایک مسئلے یا معاملے پر لگ جائے تو کیا میاں نواز شریف کے پاس کارکردگی کے اتنے ثبوت ہیں کہ وہ فخر سے آئیں اور سرخرو ہو کر نکلیں، یہ فیصلہ بھی آپکا۔ ۔

چلو ان مصائب اور پورے ملک کی بات بھی نہیں کرتے، صرف ایک شہر کو لے لیتے ہیں، وہ قصور جو کبھی بلّھے شاہ کا شہر، وہ قصور جو کبھی اللہ وسائی المعروف نورجہاں کی وجہ سے جانا گیا، وہ قصور جو تخت ِ لاہور سے ایک گھنٹے سے بھی کم فاصلے پر اور وہ قصور جو سالہا سال سے لیگیوں کا گڑھ، وہی قصور آج زینب کے دکھ میں ڈوب چکا، ویسے تو اصلی تے وڈی لگے تو شریف برادران کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہی کافی، لیکن بات ہورہی زینب کی، کیا یہ سچ نہیں کہ ا گر 3 سو بچوں کے جنسی اسکینڈل سے اچھی طرح نمٹ لیا جاتا، اگر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اسی جوش وجذبے سے قانون سازی کر لی جاتی جس ولولے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے پر قانون ساز اکٹھے ہوئے اور اگر قصور کا جنسی اسکینڈل دنیا کیلئے باعث ِ عبرت بن جاتا تو پھریقیناََ 2016-17 میں بدفعلی کے 1045 واقعات نہ ہوتے، روزانہ 11 بچوں سے بدفعلی نہ ہوتی، 2 سالوں میں 19 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل نہ کر دیاجاتااور چیونٹی کی رفتار سے رینگتے بدفعلی کے 788 کیسز منطقی انجام تک پہنچ چکے ہوتے، اگر یہ سب ہو جاتا تو عین ممکن ساڑھے 4 سالہ ایمان فاطمہ بچ جاتی، 11 سالہ فوزیہ زندہ ہوتی، 7 سالہ نورفاطمہ ہمارے درمیان ہوتی، ساڑھے 5 سالہ عائشہ آصف کو کچھ نہ ہوتا، 9 سالہ لائبہ اسکول جارہی ہوتی، 7 سالہ ثنا عمر اپنے آنگن میں کھیل رہی ہوتی اور 5 سالہ کائنات کی عزت محفوظ ہوتی اور جیساکہ آئی جی پنجاب کہہ چکے کہ ’’زینب سمیت 8 بچیوں کا مجرم ایک ہی‘‘ تو اگر یہ ایک مجرم ہی پکڑا جاتا تو کم ازکم زینب ہی بچ جاتی لیکن نہ ایسا ہوناتھا، نہ ایسا ہوا اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ وقت ثابت کر چکا کہ حکومتوں اور حکمرانوں کی سب بیان بازیاں اور آنیاں جانیاں وقتی ڈرامے، ہمیشہ یہی ہوا کہ چند روز فوٹو سیشنز، کچھ دن مگرمچھ کے آنسو اور پھر اگلے سانحے تک مکمل خاموشی۔ یقین جانیے یہی سب دیکھ اور بھگت کر یہ کہنے پر مجبور کہ جو یہ بتارہے کہ ’’اصلی تے وڈی عدالت عوامی‘‘ اور جو یہ رٹا رہے کہ نااہلی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکی، ان سب سے یہی گزارش کہ حضور باقی سب چھوڑیں، اگر صرف زینب کی ہی لگ جائے تو بات نااہلی سے بھی آگے نکل جائے۔