Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Benazir Bhutto Ba Naam Bilawal Bhutto

Benazir Bhutto Ba Naam Bilawal Bhutto

’’روٹی کپڑا مکان ‘‘ہاؤس

نزد ’’کھپے ‘‘مارکیٹ

’’بھٹو زندہ ہے‘‘ محلہ

مکافاتِ نگر

پیارے بیٹے ! سمجھ نہیں آرہی، کہاں سے شروع کروں’ہمارا نام ‘پارٹی اور تمہارے حالات تو ایسے کہ لگے جیسے باتوں کا وقت گزر گیا، لیکن کیا کروں، اب باتوں کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتی، تمہیں Look busy do nothing کرتے اور مسلسل تمہارا بڑھتا وزن اور گھٹتا وژن دیکھ کر میں توپریشان ہوں ہی مگر تمہارے نانا، نانی تو ڈیپریشن میں، اوپر سے انگریزی کا تڑکہ لگا کر گلابی اُردو سے زورآزمائی کرتے ہو تو ہماری امیدوں پر توجیسے بحرالکاہل ہی پھر جاتا ہے، ‘بیٹا جیسے جنرل ضیاالحق اپنی عمر میاں نواز شریف کو لگانے کی دعا پر اب بہت پچھتا رہے، ویسے ہی پیپلز پارٹی کو پیپلز سے خالی ہوتے دیکھ کر میں بھی اب اپنے کچھ فیصلوں پر بہت Regret کررہی، غضب خدا کا پارٹی بچا تے کچھ رہنماؤں کو دیکھ کر تو سسرال جاتا وہ مچھر یاد آجائے جو طوفان آنے پر ایک درخت کے تنے میں گھس گیا اور جب طوفان ٹلا تو باہر نکل کر چہرے کا پسینہ پونچھ کربولا ’’آج میں نہ ہوتا تو نجانے اس درخت کا کیا بنتا‘‘۔

میرے لخت ِ جگر ! میری شستہ اُردو پر حیران تو نہیں ہو رہے، دراصل یہ سب کمال بابائے اُردو مولوی عبدالحق کا جن سے میں اُردو پڑھ رہی، جب میں یہاں آئی تو غالب سے اقبال تک سب میرے ’’اذان ‘‘والے فقرے کودُہرا دُہراکر مذاق اڑایا کرتے تھے وہ تو بھلا ہو محسن نقوی اوراحمد فراز کا جنہوں نے مولوی عبدالحق کو ٹیوشن پڑھانے پر راضی کیا، 5 چھ ماہ میں میری اُردو تو سیدھی ہوچکی البتہ مولوی صاحب کی اُردو کا پتا نہیں، تم افتخار عارف یا فتح محمد ملک سے پوچھ کر یہ ضرور لکھ بھیجنا کہ مولوی عبدالحق کو بابائے اُردو کیوں کہتے ہیں، کیا اُنہوں نے اُردو کو Birth دیا تھا، ویسے انہیں دیکھ کر لگتا تو یہی ہے ‘But پھر بھی پوچھ لینااور ہاں مولوی صاحب کا ذکر آیا تو یہ بھی بتاتی جاؤں کہ ان کا Behaviour بڑا عجیب وغریب، پل بھر میں کچھ سے کچھ ہوجائیں، جیسے پچھلے ہفتے کہنے لگے ’’اگر مگر ‘‘کو جملے میں استعمال کرو ‘‘جب میں نے یہ جملہ بنایا کہ ’’اگر میں چلی گئی تو تم میرے مگر نہ آنا‘‘ تو نجانے کیوں زور سے ’’شا باش ‘‘ کہہ کرٹیوشن ادھوری چھوڑ کر ہی چلے گئے، سوچتی ہوں شاید Excitement میں اُٹھ کر چلے گئے، پھر دو دن پہلے پڑھا رہے تھے تو لفظ ’’آتش گیر مادہ ‘‘آنے پرجب میں نے یہ کہہ دیا کہ’’ آتش گیر ہمیشہ مادہ یعنی Female ہی کیوں، Male کیوں نہیں‘‘ تواس پر بھی غصے میں بڑ بڑاتے ہوئے اُٹھ کر چلے گئے ‘ مولوی صاحب کو چھوڑوایک دن ایوب خان کی فرمائش پر جب علامہ اقبال ؒ شاہینوں والے سارے شعر سنا چکے تومیں یہ کہہ بیٹھی کہ ’’آپ کا شاہین تو کبھی نیچے نہیں آتا، ہمیشہ بلندیوں پر ر ہے کیا اتنی بلندی پر اسے کھانا کھاتے اور سوتے ہوئے گرنے کا ڈر نہیں لگتا‘‘علامہ صاحب جھنجھلا کر بولے ’’بی بی گھَٹ سوچیا کر، توں تاں مینوں وی وہم وچّ پا دتا اے ‘‘ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ علامہ صاحب نے کس زبان میں کیا کہالیکن اتنا ضرور پتا چل گیا کہ یہ تعریف نہیں تھی، ورنہ ایوب خان یوں بے اختیار قہقہہ مار کر نہ ہنستے۔

میرے پیارے ! سچ تو یہ کہ سمجھ نہیں آرہی سندھ کی حالت زیادہ خراب یا پارٹی کی، دن بدن پارٹی میں لیڈر زیادہ اور کارکن کم ہوتے جارہے اور صورتحال یہ کہ راولپنڈی میری ’’جائے شہادت‘‘ پر جتنے لوگ روزانہ آئیں لاہور کے الیکشن میں اتنے لوگوں نے بھی ہمیں ووٹ نہ دیا، اب توقائم علی شاہ کی صحت بھی پارٹی سے بہتر لگے، حالانکہ وہ پارٹی سے بڑے اور اب تو واقعی پارٹی ان سے چھوٹی لگے، بیٹا تم منشور یا پارٹی میں کچھ نیا نہیں کر سکتے تو کم ازکم ’’روٹی کپڑا مکان ‘‘ کی بجائے ‘‘کپڑا مکان او ر روٹی ‘‘ہی کر دو، ویسے بھی کپڑے پہن کر اور اپنے مکان میں بیٹھ کر روٹی کھانے کی بات ہی کچھ اور ہے، پارٹی کا یہی حال دیکھ کر اس کے مستقبل سے مایوس مرتضیٰ اور شاہنواز تو مسلسل غصے میں رہ رہ کر بلڈ پریشر کے مریض ہو چکے، اوپر سے ذوالفقار بھٹو جونیئر کی ’’سوفٹ امیج‘‘ والی ویڈیو نے رہی سہی کسر نکال دی۔

میرے بیٹے !محنت کرو، جیالوں کو مناؤ، ان سے مسلسل رابطہ رکھو اور جو کچھ بھی کرسکتے ہو کرو، کیونکہ اب تو میرے ہاں بھی Situation ایسے بدل گئی کہ پہلے جنرل ضیا الحق سے آمنا سامنا ہوتا تو وہ کنی کترا کر گزر جاتے، لیکن اب وہ خود سامنے آکر پہلے عجیب وغریب انداز میں مسکرا مسکرا کریہ گنگنائیں ’’ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے ‘‘ (پتا نہیں لفظ آج کو وہ بار بار کیوں Repeat کریں ) پھر مونچھوں کے نیچے ہنس کر ہر بار یہ ضرور کہیں ’’ زرداری صاحب کا کیا حال ہے، میں ان کا بڑا فین ہوں ‘‘ جنرل تو زرداری صاحب کو یوں Praise کریں کہ جیسے وہ ان کا کام کررہے اور سنو ابھی چند دن پہلے جب میں تمہارے نانا کے ساتھ بیٹھی پارٹی کے زوال پر کڑھ رہی تھی تو ساتھ والی ٹیبل پر حمید گل کے ساتھ بیٹھے جنرل ضیا الحق مجھے مخاطب کر کے بولے ’’ چار افراد میت اُٹھائے قبرستان میں چل رہے تھے اور ان کے ساتھ چلتے لوگ انہیں مسلسل ٹوک رہے تھے کہ ’’ذرا بچ کر نیچے قبر ہے، اوہ ہو قبروں سے تونہ گزرو، ذرا سائیڈ سے آگے قبر ہے ‘‘اور پھر جب کسی نے یہ کہہ دیا کہ ’’بھائی کچھ تو خوف ِخدا کرو، قبروں کے اوپر چل رہے ہو‘‘ تو میت اُٹھائے ہوؤں میں سے ایک شخص بولا’’ اگر نیچے قبریں ہیں تو اوپر ہم نے کون سا ورلڈ کپ اُٹھایا ہوا ہے ‘‘ یہ سنا کر جنرل ضیاء اور حمید گل تب تک ہنستے رہے جب تک میں وہاں سے اُٹھ نہ گئی، مجھے ابھی تک اس Jokeکی سمجھ نہیں آئی اور وہ بھی اس وقت سنانا جب ہم تمہارے پاپا کی قیادت اور پارٹی کا زوال ڈسکس کر رہے تھے، لیکن چھوڑو اب میں ایسی بے تکی باتیں سننے کی عادی ہو گئی ہوں۔

پیارے بیٹے! 4 پانچ باتیں پلے باندھ لو، اگر پلے نہیں باندھ سکتے تو اس پرس میں رکھ لینا جو ہر وقت تمہاری جیب میں ہوتا ہے اور ہاں اس پرس سے فضول قسم کی چیزیں نکال دینا، تم سمجھ ہی گئے ہو گئے کہ میں کن چیزوں کو فضول چیزیں کہہ رہی، خیر پہلی بات تو یہ کہ تم اور تمہارے پاپا نے جتنی محنت میری وصیت اور اس پر عملدرآمد پر کی، اب اگر اس سے آدھی محنت پارٹی پر کرلو گے تویقیناً دوبارہ پارٹی پیپلز سے بھر جائے گی ‘دوسری بات یہ کہ Important میٹنگز کے علاوہ میٹنگز رومز میں میری اور اپنے نانا کی تصاویر نہ رکھا کرو، ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب جوہم سننا چاہتے ہیں وہ وہاں بولا نہ جائے اور جو بولا جائے وہ ہم سے سنا نہ جائے، تیسری بات یہ کہ جتنی توجہ تم لوگوں نے ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کے کیسز پر دی اگر اس سے آدھی توجہ سندھ پر دے لو تو کافی بہتری آجائے گی، بیٹا کم ازکم سندھ کی حالت ہمارے مزاروں جیسی ہی کردو، چوتھی بات یہ کہ سینئر رہنماؤں کو اپنے پیچھے نہ کھڑا کیا کرو، شاید تمہیں اور ان کو تو بُرا نہیں لگتا لیکن مجھے یہ اچھا نہیں لگتا، ویسے بھی بھٹو صاحب کے پیچھے کھڑے ہونے والے اب تمہارے پیچھے اور پھر اکثر کے چہرے دیکھ کر صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ وہ کھڑے ہوئے تو ضرور مگر تمہارے پیچھے نہیں، پانچویں بات یہ کہ میاں صاحب کے احتساب پر جشن منانے کے ساتھ ساتھ اپنا محاسبہ بھی کرتے رہو اور کپتان کو کلین بورڈ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اپنی باری یقینی بنانے کی بھی کوششیں کرو، آخر میں بس یہ کہنا مجھے معلوم تمہاری اُردو اتنی اچھی نہیں کہ تم خود سے یہ خط پڑھ یا سمجھ سکو، لہٰذا کسی ایسے شخص سے اسے انگلش میں ٹرانسلیٹ کروانا جس کی اُردو، انگریزی ٹھیک ہونے کے ساتھ ساتھ نیت بھی ٹھیک ہو، باقی جو کچھ میں دیکھ رہی یا جو امین فہیم بتاچکے اس پر تو کبھی میں تمہارے پاپا سے ایک لمبی Sitting ضرور کروں گی، لیکن اس وقت اجازت کیونکہ لگ رہا تمہارے نانا نانی واک کرکے آچکے، میں ان سے چوری چوری خط لکھ رہی کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بات خط وکتابت سے گزرچکی، اوکے جانی۔ ۔ ۔ اپنا خیال اور پارٹی کا دھیان رکھنا، بہت ساری محبت کے ساتھ۔ تمہاری ماما۔ بے نظیر بھٹو۔